نائن الیون کے بعد پہلی مرتبہ افغانستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے لہٰذا ان حالات میں اگر کوئی فریقین کے درمیاں فاصلے کم کرنے کی عملی یا اخلاقی جرات نہیں کرسکتا تو کم ازکم اُن کے بیچ مزید تلخیاں پیدا کرنے کی بزدلانہ حرکات سے تو احتراز ضرورکرے ۔مثلاً طالبان کے حامی اگرطالبان کے مقابلے میں افغان حکومت کو ہیچ اور نکما سمجھتے ہیں اور ان کے قبضہ جات کو فتوحات سے تعبیر کرکے اس پرجشن منارہے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ افغان حکومت کمزور سہی لیکن یہ اتنی غیرمستحکم بھی نہیں کہ اپنے مخالف کو للکار نے کی تاب بھی نہیں لاسکتی ہو ۔ دوسری طرف اگر افغان حکومت کے ہمنوا ، طالبان کو سرے سے افغان ہی نہیں سمجھتے اور انہیں ایک منظم طاقت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں تو وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ طالبان کی قوت کا اندازہ پہلے شاید مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو نہیں تھا لیکن پچھلے تین مہینوں کے دوران وقوع پذیر ہونے والے حالات نے اب ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنیپر مجبور کر دیا ہے کہ اگر یہ لوگ قومی دھارے میں نہیں لائے گئے تو یہ افغان حکومت کیلئے سالہا سال تک درد سر بن سکتے ہیں ۔دوہفتے پہلے خود افغان سلامتی کے مشیر حنیف اتمر یہ عتراف کرچکے ہیںکہ طالبان ملک کے اسی سے نوے اضلاع پر اپنا قبضہ جماچکے ہیں۔یاد رہے کہ حنیف اتمر کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب طالبان ڈیڑھ سو اضلاع کو قبضہ کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے ۔ اس وقت توطالبان دو سو سے کہیں زیادہ اضلاع کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں بلکہ امریکہ کے وزیر خارجہ نے یہاں تک تو کہا ہے کہ اس وقت دوسو بارہ اضلا ع طالبان کے کنٹرول میںچلے گئے ہیں۔ جب طرفین ہم پلہ ہوں اور ایک دوسرے کے خلاف بھرپور قوت کا مظاہرکرسکتے ہوں تو اس صورت میں ایک فریق کو شہہ دے کراسے اپنے مخالف کے خلاف مزید ابھارنا کون سے اسلام ،کونسی افغانیت اور کونسی انسانیت کا تقاضاہے؟ میرا یقین ہے کہ اگر موجودہ حالات جوں کے توں رہے تو کابل صدر اشرف غنی اور نہ ہی طالبان کا ہوگا بلکہ اس ملک میںانسانی لہوبہنے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے گا۔جو لوگ طالبان سے ہتھیار ڈالنے اور جمہوری طریقے سے انہیں مین سٹریم میں لانے کی تمنا رکھتے ہیں ان کی یہ تمنا طالبان کو بر بھلا کہنے اور سوشل میڈیا پر ان کی مسلسل کردار کشی کرنے سے کبھی پوری نہیں ہوسکے گی۔ طالبان کے جنگجویانہ مائنڈ دسیٹ کو تبدیل کرنے کیلئے ہمیں دعوت اور نرمی والا طریقہ اپنانا ہوگا جو کارگر اور موثر ثابت ہوسکتا ہے۔اپنی بات کو مخالف سے منوانے کیلئے قوی دلیل اور نرم لہجے کی ضرورت ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس سے عاری ہیںالا ماشاء اللہ۔اسی حساب سے طالبان کے حامیوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ افغان حکومت میں شامل لوگوں اور افغان فورسز کے لئے نعوذبااللہ کافر، مرتد ہونے کا حکم جاری کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ ایک مومن بندے پر اس نوعیت کا سخت حکم جاری کرنا اخلاقی لحاظ سے بھی انتہا درجے سنگ دلی ہے۔مزید یہ کہ اُن عاقبت نااندیشوں کے عقل پر ماتم کرنا چاہیے جو امریکہ کواب بھی افغان وطن کے امن کا ضامن سمجھ بیٹھے ہیںپچھلے سال فروی میں طالبان کے ساتھ قطر میںمعاہدہ کرکے عیار امریکہ نے اپنی پچانوے فیصد افواج تو نکال دیں اور رہی سہی باقیات چند دنوں میں نکل جائے گی لیکن افغانوں کو باہمی دست وگریبان چھوڑ کراس نے افغان وطن سے تاریخی بے وفائی کی ۔اب اگر افغان وطن میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار فریق بھی ہٹ دھرمی پر مصر رہے تو امریکہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ا فغانستان کی تباہی کا باعث ہونگے۔ سردست طالبان کابل کو فتح کرنے کے جنوں میں اتنے مستغرٍق ہیں کہ ایک روز ہ جنگ بندی کیلئے بھی تیار نہیں۔ امریکہ نے بے شک طالبان سے معاہدہ کرکے ملک سے اپنی افواج نکالنے اور افغان حکومت کی قید سے ان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہائی دلوانے کی رعایت دے دی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ امریکہ مستقبل میں بھی طالبان کو رعایتیں دیتے رہیں گے۔ یوں کچھ رعایات وصول کرکے طالبان کو چالاک امریکہ کی لفاظی دوستی پر نازاں نہیں ہوناچاہیے ۔بائیس جولائی کو امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے پینٹاگون مین صحافیوں کے سامنے طالبان کوفاتح کے طورپر پیش کرتے ہوئے کہا کہ طالبان افغانستان کے مختلف اطراف میں تیزی سے مختلف علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے رہے ہیں اور اس وقت وہ ملک کے دو سو بارہ اضلاع پر قابض ہیںجو ملک کے کل اضلاع کا تقریباً نصف بنتے ہیںــ‘‘۔ اگلے دن اسی امریکہ نے بیان داغا کہ اس کے فوجی طیاروں نے کندھار اور ملک کے کئی دوسرے حصوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے ۔ عید ہی کے دنوں میں یہ خبر بھی سامنے آئی کہ امریکی نمائندوں نے اٹلی میں برطانوی اور دوسرے یورپی ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ پہلی مرتبہ سرکاری طور پر یہ طے کیاہے کہ افغانستان میں ایک عبوری حکومت کا قیام اور طالبان کی طرف سے عارضی سیز فائر ناگزیر ہے‘‘۔ مدعا یہ ہے کہ طالبان مزید اس پرائی جنگ کو طول دینے کے بجائے سیز فائر کرکے بین الافغان مذاکرات کو سنجیدہ لیں۔ یہی توقع اشرف غنی حکومت سے بھی کی جاتی ہے کہ طالبان کی طرف سے سیز فائر کے جواب میں اپنے افغان اور پشتون طالبان بھائیوں کے معقول مطالبات کو تسلیم کرنے میں دیر نہ لگائیں۔