انگریز جب 1857ء میں پورے ہندوستان کا حکمران بنااور اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا مصنوعی،منافقانہ لبادہ اُتار کر ملک کو تاجِ برطانیہ کے ماتحت کر دیا تو اس ملک میں ہندو اکثریت کیلئے تو یہ صرف ایک حکمران کی تبدیلی تھی، پہلے وہ مسلمانوں کے زیرِ نگیں تھے اور اب انگریز کے محکوم ہو گئے۔ ہندوئوں نے مغلیہ دَور میں بغاوت کی ایک انگڑائی 1761ء میں لی، لیکن شاہ ولی اللہ کی دعوت پر افغانستان سے آنے والے احمد شاہ ابدالی نے پانی پَت میں مرہٹہ اور مشترکہ ہندو فوج کو ایک ایسی شکست سے دوچار کیا کہ پھر اگلے سو سال وہ کمزور ترین مغل بادشاہ کو بھی بسر و چشم قبول کرتے رہے۔ اس کے بالکل برعکس مسلمان انگریز سے پہلے حکمران بھی تھے اور ان کی تہذیب و ثقافت بھی بالادست تھی۔ انگریزوں نے چونکہ اقتدار مسلمانوں سے حاصل کیا تھا، اس لیے دونوں کے درمیان نفرت اور مغائرت کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوا کہ 1857ء کی جنگِ آزادی خالصتاً مسلمانوں نے ہی لڑی۔ جہاد کا اعلان بھی دِلّی کی جامع مسجد سے ہوا اور مسلمان ہی تھے جو بے جگری سے لڑے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ جیتنے کے بعد پھانسیاں، جائیدادوں کی ضبطگیاں اور کالے پانی کی سزائیں بھی صرف مسلمانوں کے حصے میں آئیں۔ اگلے نوے سال اس ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے بہت سخت تھے۔ ہندوئوں کو انگریز نے اپنا منظورِ نظر بنایا،راج دربار میں ان کی عزت ہوئی اور وہ عملاً حکمرانوں کے ساتھی بن گئے۔ مسلمانوں کیلئے اب ایک چومکھی لڑائی تھی، عزت و ناموس بچائیں، دین بچائیں یا ذاتی و خاندانی زندگی کا تحفظ کریں۔ بیچارے بٹ گئے۔ دین بچانے والے دیوبند جیسے مدرسوں کے مکین ہو گئے اور سرکار کی نظروں میں معتبر ہونے والوں نے علی گڑھ کی راہ لے لی۔ ہندوستان کی تاریخ میں 1920ء کی دہائی بہت اہم دہائی ہے۔ مسلمان خلافتِ عثمانیہ کی بقاء کیلئے پُرجوش تحریک چلا رہے تھے اور دوسری جانب انگریز کو یقین آ چکا تھا کہ اب اس کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، اسی لیے اس نے پورے ہندوستان میں پہلے جمہوری الیکشن کروائے جس میں ہری سنگھ غور کی ڈیمو کریٹک پارٹی نے الیکشن جیت لیا۔ ہندو اس قدر مستحکم ہو گئے کہ اسی دہائی میں برصغیر پاک و ہند میں ایک مختلف ’’دو قومی نظریے ‘‘کی آواز گونجی۔ یہ نظریہ ساورکر اور گول وارکر کے نظریات پر مبنی تھا۔ اس نظریے کے مطابق ہندوستان صرف اور صرف ہندو قوم کا وطن ہے اور یہاں پر جو قدیم نسلیں صدیوں سے آباد ہیں، مگر انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے، انہیں واپس ہندو بنانا ہو گا مگر جو قومیں مسلمان حکمرانوں کے ساتھ آئی تھیں، انہیں یہاں سے دیس نکالا دینا پڑے گا کیونکہ وہ ’’ملیچھ‘‘ یعنی ناپاک ہیں اور ان کے وجود سے یہ دیوتائوں کی ’’پوِتر‘‘ سرزمین ناپاک ہو چکی ہے۔ اس نظریے کے حصول کیلئے ’’شُدھی‘‘ کی تحریک شروع ہوئی جو لوگوں کو واپس ہندو بنانے پر قائل کرتی تھی۔ اگر کہیں طاقت کی ضرورت پڑتی تو اس کے لیے سنگھٹن کی مسلح ہندو تحریک کا آغاز کیا گیا۔ ان دونوں تنظیموں کے وجود سے ’’راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ کا قیام 1925ء میں ناگ پور کے شہر میں عمل میں لایا گیا اور اسی سال ہندوئوں نے ایک مسجد کے سامنے جا کر بینڈ باجے بجا کر قانون کی خلاف ورزی کی اور برصغیر میں پہلے ’’ہندو مسلم فسادات‘‘پھوٹ پڑے۔مسلمانوں کی محرومیاں،انگریز سرکار کی نفرت اور پانچ سو سے زیادہ ہندو راجائوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے ایک وقت ایسا آیا کہ راجھستان اور میوات جیسے علاقوں میں مسلمانوں کو اپنی عبادات تک کرنے کی اجازت نہ رہی۔ نفرت اور تعصب کا یہ عالم تھا کہ ریلوے اسٹیشنوں پر دو طرح کے پانی پلانے والے سقّے ہوتے تھے۔ ایک مسلم پانی بیچتا اور دوسرا ہندو پانی۔ حالات کی اسی کھینچا تانی میں دوسری جنگ عظیم برپا ہوئی۔ بڑی بڑی سلطنتوں کا دَور رخصت ہوا اور یورپ کی عالمی طاقتیں جو اپنی معاشی بہتری کیلئے امریکہ کی دستِ نگر بن چکی تھیں اور ’’مارشل پلان‘‘ کے سرمائے کی محتاج تھیں، اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے لگیں۔ برطانیہ نے برصغیر سے نکلنے کی ٹھانی تو فرانس نے افریقہ سے۔اس وقت تک دُنیا کو قومی ریاستوں میں علاقہ، رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا تھا۔ اسی بنیاد پر 1920ء میں خلافتِ عثمانیہ کو مصر سے لے کر عراق تک حصوں بخروں میں بانٹا گیا۔ لیکن اس نظریے کے برعکس ہندوستان کے مسلمانوں نے وہ راستہ اختیار کیا جو روزِ ازل سے اللہ نے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کا بتایا تھا، یعنی حزب اللہ (اللہ کے دھڑے کے لوگ) اور حزب الشیاطین (شیطانوں کے دھڑے کے لوگ)۔ ہندوستان میں آباد مسلمان بنگال، بہار، یوپی، پنجاب، سندھ اور دَکن وغیرہ میں رہتے تھے۔ ان کا لباس مشترک تھا اور نہ ہی کھانا پینا، نہ گیت ایک جیسے تھے اور نہ ہی رسوم، لیکن ان سب نے ایک ایسے خطے کا مطالبہ کر دیا جو صرف مسلمانوں کیلئے ہو۔ ان کروڑوں لوگوں کے دلوں میں ایک ایسے خطے کی آرزو بسی ہوئی تھی جس میں وہ بحیثیت مسلمان اپنے دین کے نفاذ کیلئے آزاد ہوں۔ یہ تصور اقبالؒ کے اشعار میں تو تھا لیکن قائد اعظمؒ کے سیاسی نظریات کی بنیاد بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر سے یار لوگوں نے ان کی زندگی میں ہی سیکولر، لبرل معانی تلاش کر نکالنا شروع کئے تو وہ عظیم لیڈر گھن گرج سے پکار اُٹھا۔ 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن میں تقریر کرتے ہوئے کہا: "Why this feeling of nervousness that the future constitution of Pakistan is going to be in conflict with Shariat Laws? Islamic principles today are as applicable to life as they were 1300 years ago." ترجمہ: ’’لوگوں کو اس بات پر پریشانی کیوں ہے کہ پاکستان کا آئندہ کا آئین شریعت کے قوانین سے متصادم ہو گا۔ اسلام کے زریں اصول آج بھی ویسے ہی قابلِ عمل ہیں جیسے 1300 سال پہلے تھے۔‘‘ قائد اعظمؒ کی اس وضاحت کے بعد آج تک یہ عہد شکن قوم 11 اگست کی تقریر کے پھریرے لہراتی ہے اور اس میں سے سیکولر نظریات کے پھول نکالتی ہے۔ یوں لگتا ہے ان لوگوں کے نزدیک قائد اعظمؒ کی طبعی زندگی صرف ایک دن تھی، صبح بیدار ہوئے، 11 اگست کو تقریر کی اور شام تک داعی اَجل کو لبیک کہہ گئے۔ جس عظیم شخص کے نظریے کی بنیاد پر ایک ملک تقسیم ہوا، لاکھوں انسان قربان ہوئے اور نظریہ بھی ایسا کہ مسلمان جو کلمہ پڑھتا ہے وہ اور ہندو ایک ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ جو قائد، پاکستان بنتے ہی علامہ محمد اسدؒ کو اسلامی دستور کی تدوین کیلئے ایک محکمہ قائم کر کے دیتا ہے اور اسے ریڈیو پاکستان سے پاکستان کے قیام کی نظریاتی اساس پر تقریریں کرنے کیلئے کہتا ہے اور اس کے ساتھ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ریڈیو سے اسلامی نظام حیات کو بیان کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا شخص کیسے سیکولر ہو سکتا ہے؟ ایک دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ قائد اعظمؒ سر سے پائوں تک ملبوس کے اعتبار سے مغرب زدہ تھے۔ ان کو قائد اعظمؒ کی زندگی کی آخری تقریر نظر نہیں آتی جو انہوں نے سٹیٹ بینک کے افتتاح پر کی تھی۔ مغرب پر تنقید کا ایسا لہجہ جو قائد اعظمؒ نے اپنایا ایسا تو آج تک کا کوئی مولوی بھی اختیار نہیں کر سکا۔ "I shall watch with keenness the work of your Research Organization in evolving banking practices compatible with Islamic ideas of social and economic life. The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world." ترجمہ: ’’میں بڑی احتیاط اور غور سے آپ کی تحقیقی آرگنائزیشن کے کام کو دیکھوں گا کہ وہ کیسے پاکستان کے بینکاری کے نظام کو اسلام کے معاشی اور معاشرتی آئیڈیل کے مطابق ڈھالتی ہے۔ مغرب کے معاشی نظام نے جدید دور میں انسانیت کیلئے ایسے لاینحل مسائل پیدا کر دیئے ہیں اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔‘‘ معجزاتی طور پر جنم لینے والا یہ ملک جس کو نظریے کے اعتبار سے واضح تصور رکھنے والے قائدین کی نعمت بھی میسر تھی ایسی قوم بدعہدی اور نظریے سے انحراف کی اپنی مثال آپ ہے۔ ایسی قوم کو ہر سال جب جشنِ آزادی منا تے دیکھتا ہوں تو دل خوف سے کانپ اُٹھتا ہے کہ کہیں کسی وقت یہ اللہ کے غضب کا شکار نہ ہو جائے۔ (ختم شد)