وسائل سے مالا مال عالم اسلام جس کے پاس تیل اور معدنیات کے اہم ذخائر موجود ہیں جس کے پاس دولت اور ثروت کی کوئی کمی نہیں ہے جس کے پاس با صلاحیت، ہنر مند اورتعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں جس کے پاس دنیا کی کل آبادی کاسب سے بڑا حصہ موجود ہے سب سے استفادہ کیا جاتا تا ہم ستم ظریفی یہ ہے کہ عالم اسلام کا مشترکہ فورم او آئی سی جو جان بوجھ کرفالج زدہ بنا دیا گیا ہے اور اسکے حواس خمسہ مفلوج کر دئیے گئے۔جس کے باعث یہ فورم عالم اسلام کے وسائل ،دولت و ثروت اوربا صلاحیت افرادسے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ اس فورم کی حالت اتنی قابل رحم بنا دی گئی ہے کہ وہ دنیا کو آج تک یہ احساس دلانے میں نا کام ہو چکا ہے کہ اس کرہ ارض پر ہم بطور مسلمان ایک بڑی افرادی قوت کے طور پر موجود ہیں۔ آئیے یہ جاننے کی کوشش کریں آیا اس فورم کے قیام کے مقاصد کیا تھے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ او آئی سی کو غیر متحرک بنانے کی بد قسمتی کہاں سے شروع ہوئی۔ جمعیت اقوام کے بعد مسلمان اقوام متحدہ سے بھی مایوس ہو گئے اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کا المناک واقعہ پیش آنے کے بعداو آئی سی کے نام پر مسلمانوں کا ایک علیحدہ فورم معرض وجود میں آیااو آئی سی کے چارٹر میں تمام مسلمان ممالک کو برابرکا اسلامی بھائی قرار دیتے ہوئے باہمی بھائی چارے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔ اس کے اخوت اسلامی کے اعلان کے ساتھ مسلم امہ کو یقین ہوا کہ اس فورم کے ساتھ ان کا مستقبل تابناک اور متحرک ہو گا ۔اس فورم کے قیام کے ساتھ ہی اس کا چارٹر عمل میں آیا جس پراو آئی سی کے اغراض و مقاصد اس طرح واضح کئے گئے۔ مسلمان ممالک میں اسلامی بھائی چارے کا فروغ اورمسلمان ممالک کے درمیان معاشی ، سماجی ، تہذیبی سائنسی اور دیگر اہم شعبوں میں تعاون اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ان تمام شعبوں میں تعاون کیا جائیگا۔نسلی امتیاز، نسلی تعصب اور کالونیلزم کی ہر شکل کا خاتمہ کیا جائیگا۔ انصاف کی بنیاد پر بین الاقوامی امن اور تحفظ کی کاوشوں میں تعاون کیا جائیگا۔فلسطین کے مقامات مقدسہ کا دفاع اور فلسطینی عوام کو بھر پور تعاون فراہم کیا جائیگا اور ان کی آزادی کا حصول ممکن بنا یا جا سکے گا۔ کسی بھی خطے میں مظلوم مسلمان عوام کی جدوجہد میں تعاون کیا جائے گا تا کہ ان کے وقار،آزادی اور قومی حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ممبر ممالک کے درمیان تعاون کی فضا کو فروغ دیا جائے گا۔اس حوالے سے تمام ممبر ممالک میں برابری کا تصور اور ان کے حق خود ارادیت کا احترام کیا جائیگا۔نیز ممبر ممالک کی اندرونی خود مختاری کا تحفظ اور احترام کیا جائیگا۔ہر ممبر ملک کی جغرافیائی وحدت ،وقاراور آزادی کا ہر حال میں احترام کیا جائیگا۔ممبر ممالک کے تنازعات پر امن اورباہم گفت و شنید کے ذریعے سے حل کئے جائیں گے۔کسی بھی ممبر ملک کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی یا طاقت کے استعمال سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائیگا۔ اس فورم کا ڈھانچہ چار بنیادی شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا جن میں تمام ممبر ممالک کے سربراہان کے اجلاس منعقد کرنے کو بنیادی اہمیت دے دی گئی اس اجلاس کا دوسرانام ’’اسلامی سمٹ کانفرنس ‘‘دیا گیااس فورم میں یہ سب سے با اختیار اور اعلیٰ ادارہ قرار پایااسلامک سمٹ کانفرنس کے انعقاد کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ وزرائے خارجہ کی سفارش پر یہ اجلاس بلایا جائیگاتا ہم حالات کے رخ کو دیکھ کر کسی بھی وقت کئی ممبر ممالک کے سربراہان کے کہنے پر بھی اجلاس طلب کیا جائیگا۔ اس کے علاوہ ممبر ممالک کے وزراء خارجہ کے باہم ربط و ارکو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کو بھی اہمیت دے دی گئی ۔ جو پالیسی سمٹ کانفرنس میں واضح ہو گی اس کے نفاذ کی ذمہ داری اس ادارے پر عائد کر دی گئی یوں گویایہ پالیسی پر عمل در آمد کرانے کے حوالے سے اہم ترین ادارہ قرار پایا۔ رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کانفرنس کے فرائض او آئی سی نے کچھ اس طرح واضح کر دئیے کہ سابق سیشن میں پاس کردہ قراردادوں پر کئے گئے کام کا جائزہ لینا وزرائے خارجہ کی ذمہ داریوں میں شامل کر دیا گیا۔ فینانشل کمیٹی کی رپورٹ پر بحث و تمحیص اور سیکرٹری جنرل کے بجٹ کی منظوری دینا بھی وزرائے خارجہ کی ذمہ داری قرار پائی۔آئندہ کانفرنس کے انعقاد کی تاریخ اور جگہ کا تعین بھی وزرائے خارجہ کے ذمہ لگا دیا گیا۔ایسے معاملات کا بغور جائزہ لینا جو کسی ایک یا زائد ممبر ممالک کو متاثر کر رہے ہوں تا کہ ان کا سد باب ہو سکے اس ذمہ داری کو بھی وزرائے خارجہ کے کھاتے میں ڈالا گیا او آئی سی کے جنرل سیکرٹری تعینات کرنا اور سیکرٹری جنرل کی سفارش پر 4 معاون اسسٹنٹ سیکرٹری کی تعیناتی بھی وزرائے خارجہ کے فرائض میں شامل کر دیا گیا ۔ اس فورم کے لئے ایک جنرل سیکرٹریٹ کے قیام کی منظوری دے دی گئی ۔ چنانچہ جنرل سیکرٹریٹ کواو آئی سی کا ایگزیکٹو شعبہ قرار دیا گیا جو اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹریٹ کے پیٹرن پر تشکیل دیا گیا یہ بھی طے کیا گیا۔ میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی چھٹی کانفرنس کے موقع پر’’ القدس کمیٹی‘‘ تشکیل دی گئی ۔ 1978میں او آئی سی نے ایک ادارے کی تشکیل کی منظوری دی جس سے’’ اسلامک سینٹر فار ووکیشنل اینڈٹیکنیکل ٹریننگ اینڈ ریسرچ‘‘ کا نام دیا گیا۔او آئی سی نے کئی اور سٹینڈنگ کمیٹیاں تشکیل دینے کی منظوری دی جن میں سر فہرست’’ سائنس اور ٹیکنالوجی کمیٹی ، اکنامک اینڈ ٹریڈ کمیٹی اور انفارمیشن اینڈ کلچر کمیٹی‘‘ شامل ہیں۔لیکن کیا عالم اسلام میں کسی بھی مقام پراو آئی سی کے ان اداروں شعبہ ہا ئے جات اور کمیٹیوں کی طرف سے کسی بھی سطح پر کوئی سر گرمی نظر آرہی ہے پوری دلیل کے ساتھ اس کا جواب نفی میں ہے ۔ دار اصل او آئی سی کی نیت اور خلوص پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن یہ فورم مسلمانوں کو یکجا کرنے اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں سرا سر نا کام رہا جس وجہ سے خلوص نیت کے ساتھ بنائے گئے ادارے ، شعبہ ہائے جات اور کمیٹیوں کی طرف سے متحرک اور فعال کردار ادا نہ ہو سکا۔