آپ کیا سمجھتے ہیں کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بھارت نے محض اپنے دو جنگی جہاز گنوائے اور اپنے ایک پائلٹ کوقیدی بنوایا تھا؟ نہیں جناب ایسا نہیں، بھارت نے اس دوران اپنی فوجی عظمت کو گنوایا اور وہ اپنی نام نہاد اخلاقی ساکھ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ بھارت نے ملک کے اندر اور باہر اپنی پراپیگنڈا مشینری سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ تاثر قائم کر رکھا تھا کہ وہ ایک ملٹری گلوبل پاور ہی نہیں بہت بڑی اقتصادی اور ثقافتی طاقت بن چکا ہے۔ اس غبارے میں یہاں تک ہوا بھری گئی تھی کہ بھارت اب ایک علاقائی نہیں عالمی پاور کاسٹیٹس حاصل کرنے والا ہے ۔نریندر مودی نے بطور خاص یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ پاکستان کی حیثیت ایک چیونٹی سے بڑھ کر نہیں، ہم جب چاہیں اسے مسل کر رکھ دیں گے۔ دراصل بھارت کا یہ سارا جنگی جنون پاکستان کے خلاف تھا۔ ماضی قریب میں بھارت میں جب کبھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا تو بلا سوچے سمجھے بھارتی چینلز پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردیتے اور پاکستان کو سبق سیکھانے کی دہائی دینے لگتے۔ اس دوران بھارتی عظمت و شہرت کے بلبلے میں مزید ہوا بھری جاتی رہی اور کسی نے یہ نہ سوچا کہ بلبلے پھٹنے میں دیر نہیں لگاتے۔ بھارت کا ایک خوش فہم طبقہ اسے سچ سمجھنے لگا۔ 28 فروری کو یہ بلبلہ پھٹا تو لوگ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ اب انہیں کچھ صاف دکھائی دینے لگا تو انہیں نظر آیا کہ بھارت کے دو جنگی جہاز پاکستان نے گرائے ہیں۔ ایک جہاز کا پائلٹ گرفتار کرلیا گیا۔ بلبلے کے پھٹنے کے بعد بھارتیوں کو نظر آیا کہ انڈین حکومت نے جھوٹ بولا تھا۔ بالا کوٹ میں ساڑھے تین سوتو کیا‘ ایک بھی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا، اب انہیں روز روشن کی طرح دکھائی دینے لگا کہ پاکستان کا کوئی ایف سولہ جہاز نہیں گرایا گیا تھا یہ سب پراپیگنڈا تھا۔ گزشتہ دس برس کے دوران بھارتی عسکری و اقتصادی طاقت کا جو فلک بوس مینار بھارتی قیادت نے تعمیر کیا تھا وہ مکمل طور پر زمین بوس تو چاہے نہ ہوا ہو مگر اس میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور عظمت کا بلبلہ تو بہرحال پھٹ چکا ہے۔ اب بھارتی سیاستدانوں نے مودی سے بے دھڑک سوال پوچھنا شروع کردیئے ہیں۔ اب یہ سوالات بھارتی چینلوں کی شعلہ افشانی اور چیخ و پکار میں دب نہیں گئے بلکہ زیادہ ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ اب مودی کو بہت مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارتی اپوزیشن سمیت ایک موجودہ تین سابق وزرائے اعلیٰ اور ایک ریاستی وزیر نے مودی سے نہایت چبھتے ہوئے سوالات کئے ہیں۔ اترپردیش کی سابق وزیراعلیٰ مایا وتی نے کہا ہے کہ مودی نے ملکی سلامتی کے معاملات کو نظر انداز کیا اور وہ اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دہلی کی سابق وزیراعلیٰ شیلا دکشت نے کہا ہے کہ جب پورا ملک فوج کے ساتھ کھڑا تھا تو ایسے میں مودی اور ان کی جماعت ریلیاں نکال کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بالاکوٹ حملے پر سوال اٹھانے والوں کو غدار کہنا یک بچگانہ عمل ہے۔ اب تو ایسے ایسے سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا بلبلے سے ہوا نکلنے سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ اب بعض بھارتی دانشور وزیراعظم نریندر مودی سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ کیسی سپر پاور ہیں کہ جو اپنے استعمال میں آنے والا اسلحے کا دس فیصد بھی ملک میں نہیں بناتی جبکہ چین تقریباً 80 فیصد اسلحہ اپنے ملک میں بناتا ہے اور پاکستان بھی چین کے ساتھ مل کر ایسے جنگی جہاز اور میزائل بنا رہا ہے جو بھارت سے کہیں بڑھ کر سپیریئر ہیں۔ انگریزی کے ایک محاورے کا فصیح ترجمہ ہے۔ رحمت در پردۂ زحمت۔ اس محاورے کے مصداق بھارت کی عالمی سطح پر عسکری، فضائی اور اخلاقی رسوائی کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر اجاگر ہو کر سامنے آیا ہے۔ اب عالمی قوتوں اور علاقائی ریاستوں کو معلوم ہوا ہے کہ کشمیر ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے اور اگر بھارت اسی ہٹ دھرمی سے کام لیتا رہا تو پھر برصغیر ہی نہیں اس سارے خطے میں کسی وقت بھی جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ اب دنیا کو احساس ہونے لگا ہے کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان ٹکرائو کے کیا کیا ہولناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ تبھی تو امریکہ، روس، چین، یورپی یونین، برطانیہ اور کئی برادر اسلامی ممالک نے پاکستان بھارت کشیدگی کے خاتمے اور مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کو پرامن طور پر حل کرنے پر زور دیا ہے۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے اب مودی یہی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 75 برسوں سے سیاسی، دینی اور سماجی کام کرنے والی پارٹی جماعت اسلامی پر نہ صرف پابندی عائد کردی ہے بلکہ جماعت اسلامی کے بینک اکائونٹس منجمد اور دفاتر سیل کردیئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے 300 سے زائد سکول اور کالجز بند کردیئے گئے ہیں اور جماعت کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے جماعت اسلامی آزادکشمیر کے سینئر رہنما مولانا عبدالرشید ترابی سے پوچھا کہ جماعت پر پابندی کے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی پر کیا اثرات ہوں گے تو ترابی صاحب نے بتایا کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے قائدین اور کارکنوں کے تمام تر آزمائشوں کے باوجود حوصلے بہت بلند ہیں اور جماعت اس پابندی کے خاتمے کے لیے تمام تر قانونی راستے اختیار کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں کشمیر کی تحریک آزادی میں اب ہر کشمیری پیرو جواں اور خواتین تک شامل ہیں۔ حالیہ گرفتاری کے موقع پر پولیس اور فوجیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بوڑھے سید علی گیلاانی نے سرینگر میں جو خطاب کیا ہے اس میں شمع رسالت کے ایک پروانے کا جذبہ ایمانی، ایک بطل حریت کا ولولہ، ایک جواں ہمت دینی خطیب کا طنطنہ اور ایک مدبر سیاست دان کا حکیمانہ مشورہ جھلکتا دکھلائی دیتا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ جائو جا کر دہلی کے حکمرانوں کو بتا دو کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ سید علی گیلانی کو قتل کر کے تم کشمیر کی تحریک آزادی کو کچل دو گے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ اگر علی گیلانی کوقتل کردو گے تو کشمیر کا بچہ بچہ گیلانی بن کر نکلے گا اور وادی سے بھارتی تسلط کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔ اب عالمی برادری کو سوچنا چاہیے کہ کشمیر میں قتل و غارت گری اور خواتین کی بے حرمتی پر وہ کب تک مجرمانہ غفلت سے کام لیتی رہے گی۔ اگر عالمی کمیونٹی مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں عیسائی کمیونٹی کو حق خودارادیت لے کر دے سکتی ہے تو وہ کشمیر کی مسلم آبادی کو ان کا حق کیوں نہیں لے کردیتی۔ اب یہ پاکستانی قیادت اور سیاستدانوں کا امتحان ہے کہ وہ عالمی سطح پر اجاگر ہونے والے مسئلہ کشمیر کو یو این کی قراردادوں کی روشنی میں کیسے حل کرواتے ہیں۔