بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ کے انتخابات کے نتائج پر سیاسی پنڈت حیران ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہندو توا کی ہوا اتنی جلدی کیسے اکھڑنے لگی ،الیکشن میںبھارتی ووٹروں نے وفاق میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو ریاستی انتخابات کے دنگل میں دھوبی پٹکا مار کر چاروں شانے چت کردیا ہے ، میں ان حیران کن نتائج کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ پاس رکھے فون نے بجنا شروع کر دیا کال دیکھی تو باسط صاحب کی تھی فون اٹھایا کال وصول کی سلام کلام کی رسمی سی گفتگو کے بعد میں ابھی موسم کے تیور پر بات کرناہی چاہ رہا تھا کہ باسط صاحب جذباتی انداز میں کہنے لگے ’’آپ دیکھ رہے ہیں کس طرح سے دو اداروں کو لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کوشش میں فوج پر کس طرح گنداچھالا جارہا ہے،یہ بہت ہی خطرناک پریکٹس ہے میں تو اسے قومی خودکشی کی کوشش کہوں گا‘‘۔ باسط صاحب کالہجہ جذبات کی شدت سے دہک رہا تھا اوردہکتے لہجے کی کمان سے آنے والے لفظ زہر میں بجھے تیر کی طرح اپنے ہدف کی طرف لپک رہے تھے وہ کہنے لگے ’’ہم پر طنزکیا جاتا ہے ،طعنے کسے جاتے ہیں پھبتیاں دی جاتی ہیں کہ ہم نے اکہتر کی جنگ میں آدھا پاکستان گنوادیاہم اسکے بڑے ذمہ دار ہیں،ہم نے اکہتر میں شکست کھائی ،ہم شکست خوردہ فوج ہیں جس کا جو جی میں آتا ہے تجزیوں تبصروں سے لیس ہو کر اپنی ہی فوج چڑھ دوڑتا ہے ،ہر شخص بزعم خود تجزیہ نگار اور تبصرہ نگا رہے اورآتے جاتے فوج پرپتھر اچھالنا ثواب سمجھتا ہے ،مجھے بتائیں دنیا میں کوئی فوج ایسی ہے جسے کبھی شکست نہ ہوئی ہو؟دوسری جنگ عظیم میں فرانس نے دو ہفتوں میں جرمنی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے ،یہ ایک لاکھ سے زائدبرٹش آرمی تھی جس نے برما میں ہتھیار ڈالے ،سپر پاور امریکہ ویت نام میں کس ہزیمت سے دوچار ہوا تھایہی ا مریکہ صومالیہ میں وارلارڈز سے پٹ کر بھاگاتھا،روس بھی ایک بلا تھی اسے بھی افغانستان میں رائفلیں نیچے کرکے واپس پلٹا پڑا،1962ء میں بھارت کو چین کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی اور اسکا سرحدی علاقہ اکسائی چن بھارت کے ہاتھوں سے نکل گیا؟ ابھی جو امریکہ طالبان سے منتیں ترلے کر رہا ہے اسے شکست کے سوا کیا نام دیں گے ؟ ہمیںبھی اکہتر کی جنگ نہیں ہارنی چاہئے تھی ،براہوا بہت برا ہوا لیکن کیایہ ایک شکست ہماری سب قربانیاں کھاجائے گی ؟ وہ سانس لینے کے لئے رکے تو میں نے موقع دیکھ کر نرمی سے کہا’’ایسا کس نے کہہ دیا؟‘‘ ’’کون نہیں کہہ رہاجو میڈیا پر نہیں کہہ پارہے انہوں نے یوٹیوب ،فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنی ہی فوج کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ‘‘اتنا کہہ کر باسط بھائی نے قدرے توقف کیا اور گویا ہوئے ’’سچ کہوں افسوس ہوتا ہے دکھ ہوتا ہے آپ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ سرحد پر مائینس ٹمپریچر میں مشین گن ہاتھ میں لئے سامنے نظریں جمائے ہوئے جوان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جسکی کمر چار ماہ سے گھر کے بستر سے مس نہیں ہوئی جو راتوں کو جاگتا ہے تو ہم یہاں انگیٹھیاں اور ہیٹر لگا کر اس قابل ہوتے ہیں کہ گود میں لیپ ٹاپ رکھ کر مزے مزے سے فوج کے مسے نوچیں‘‘ ہمارے دوست بریگیڈئیر باسط صاحب سچے پاکستانی اورکھرے فوجی ہیں انہوں نے ایک بھرپور فوجی کیرئیر گزارا ہے ،کراچی میںایم کیو ایم کے فسطائیت اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کی شیطانیت کے خاتمے میں بریگیڈئیر صاحب نے عملی کردار ادا کیا یہ اس وقت کے ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر کی ٹیم کے فعال ترین رکن اور سیکٹر کمانڈر تھے ،چودہ فروری 2014ء کی صبح ان پر خودکش حملہ بھی کیا گیا لیکن یہ محفوظ رہے اوراسکے بعد بھی کراچی ہی میں جمے اور ڈٹے رہے بلکہ پہلے سے زیادہ تندہی سے متحرک ہو کر کام کرتے رہے تھے ۔ نظم و ضبط میں بندھی بھرپور فوجی زندگی گزارنے کے بعد یہ آجکل کچھ فرصت میںہیں اس لئے سوشل میڈیاپر بھی تانک جھانک کرلیتے ہیں اور انکی یہ تانک جھانک ہی ان کا بلڈپریشر بنانے کا سبب بن رہی ہے۔ میں انکا بلڈ پریشر کم کرنے کے لئے کچھ عرض کرنا چاہ ہی رہا تھا کہ کہنے لگے’’سب کو اکہتر یاد ہے لیکن کسی کو یہ یاد نہیں کہ کتنی بار بھارت نے پاکستان کی طرف پیش قدمی کرنی چاہی کتنی بار سرحدوں پر جنگ کی صورتحال رہی کتنی بار فوج نے mobilisation کی ،پرانی باتیںتو جانے دیں جب سے میں نے وردی پہنی ہے سات بار جنگی صورتحال پیدا ہوئی لیکن آپکے آپ سے پانچ گنا بڑے دشمن کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ سرحد پارکرسکے،80ء کی دہائی میں تین بار جنگی صورتحال بنی ،1984ء پھر1986ء اور پھر1990ء میں سرحدوں پر شدیدتناؤ تھا،2002ء اور پھر 2008ء میں تو یہ کیفیت تھی کہ جنگ ابھی چھڑی کہ ابھی چھڑی،2002ء میں ہم پورا سال سرحدوں پر چوکس رہے،کارگل جھڑپوں میں بھی سرحدوں پر ایسا ہی سخت تناؤ تھا اور ابھی جو فروری میںہوا ہے اگر ہم تیار نہ ہوتے تو کیاابھی نندن ہاتھ آتا؟ باسط صاحب کا غصہ اپنی جگہ بجا تھا ناراضگی اپنی جگہ حق تھی یہ طعنے پھبتیاں طنز رشتے کمزور کرنے اور فاصلے کاشت کرنے کے علاوہ کرتی ہی کیا ہیں یہ فوج اور عوام میں فاصلے ہی تو تھے جو مشرقی پاکستان کو دور لے جا کر بنگلہ دیش بنا گئے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک کو دو لخت کر دیالیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے اس سانحے سے کچھ نہ سیکھنے کی روائت برقرار رکھی ہے ہمارے اداروں نے خوااہ مخواہ اپنا کام بڑھا رکھا ہے غیر ضروری طور پر دخیل ہونے لگے جب بات بات پر ترجمان کے ٹوئٹ آئیں گے،کرکٹ ٹیم کی کامیابی سے لے کر اندرون سندھ کچے کے علاقے میں کسی ڈاکو کے خلاف کارروائی پر بیانات اخباروں اور ٹیلی وژن کی اسکرینوں کی زینت بنیں گے تو پھروہ ڈسکس بھی ہوں گے بدقسمتی سے سوشل میڈیا کی صورت میں یہاں ایک ایسی ہائیڈ پارک میسر آچکی ہے جہاں کوئی بھی کسی بھی قسم کی آواز لگا سکتاہے،ابے تبے ہنسی ٹھٹھول سے مجمع لگا سکتا ہے سوشل میڈیا کے یہ بے لگام شہسوار بس دوڑتے چلے جارہے ہیں انہیں لگام دینے کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کے ترجمان ادارے کو بھی لازمی ضروری فاصلے کا خیال رکھنا ہو گا جہاں یہ فاصلہ کم یا ختم ہو گا ابے تبے کی آوازیں بھی سنائی دیں گی اور طنزطعنوں پھبتیوں کی بوچھاڑ بھی ،ہائبرڈ وار لفظوں لہجوںاور جھوٹ پرسوار ہو کر ذہن کی فصیلوں میں شگاف ڈالنے ہی کا تو نام ہے،ہمیں اس میدان میںبھی دشمن کی چالوں کو سمجھنا اور جالوں سے بچنا ہوگا۔