ہر نسل پرست و قوم پرست تحریک کا حتمی مرحلہ تشدد اور دہشت گردی ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ نسل پرست تحریکیں اٹھیں پہلی پختون، دوسری بلوچ، تیسری مہاجر، چوتھی سندھی اور پانچویں سرائیکی نسل پرست تحریک۔ ان میں سے پہلی تین کو باقاعدہ تحریک بننے کا موقع ملا سو ان تینوں نے ملکی تاریخ کی بڑی خونریزیاں انجام دی ہیں، سندھی نسل پرستوں نے بھی دہشت گردی کی راہ اختیار کی لیکن انہیں کچلنا بہت ہی آسان رہا، کسی بڑی فوج کشی کے بجائے انہیں خفیہ انٹیلی جنس آپریشنز میں ہی نمٹایا جاتا رہا ہے۔ سرائیکی نسل پرست تحریک کو نہ مقبولیت ملی اور نہ ہی سرپرست سو یہ باقاعدہ شکل ہی اختیار نہ کرسکی اور اس کی اجنبیت کا یہ عالم ہے کہ عوام کی اکثریت اس کے منتظمین سے ہی ناواقف ہے۔ میں قائدین کی جگہ منتظمین لفظ اسی لئے استعمال کر رہا ہوں کہ یہ تحریک اسقدر کمزور رہی ہے کہ اس کے ناتواں کاندھے ’’قائدین‘‘ جیسا بھاری بھرکم لفظ اٹھا ہی نہیں سکتے۔ نسل پرستی کا حتمی نتیجہ خونریزی کی صورت صرف پاکستان میں ہی نہیں نکلا بلکہ پوری دنیا میں ہی اس کا نتیجہ خون ریزی کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یہ اپنی بدترین شکل میں ہندوؤں کے ہاں ہے اور وہاں اس کی جڑیں مذہبی تعلیمات میں ہیں سو نتیجہ یہ کہ اس نے بدترین خونریزیاں بھی وہیں رونما کی ہیں۔ آج کا بھارت نریندر مودی کی قیادت میں برہمن راج کی جانب ہی تو پیش قدمی کر رہا ہے اور اس پیش قدمی سے سب سے زیادہ وہ ہندو اکثریت خوفزدہ ہے جو نچلی ذات سے تعلق رکھتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کے بعد اگر آپ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ جمہوریہ امریکہ کا حال دیکھیں تو مارٹن لوتھر کنگ، مالکم ایکس اور محمد علی جیسے بڑے لوگ اس نسل پرستی کے خلاف اپنی تاریخی جد و جہد سے ہی پہچانے جاتے ہیں جو سفید فام امریکیوں نے ان پر مسلط رکھی اور جس نے سیاہ فاموں کو تاریخ کے بدترین تشدد سے گزارا۔ غرضیکہ نسل پرستی جہاں بھی جنم لے گی حتمی نتیجہ اس کا تشدد اور دہشت گردی کی صورت ہی نکلے گا۔ نسل پرستی کا منطقی نتیجہ تشدد اور دہشت گردی اس لئے نکلتا ہے کہ اس کا سبق ہی اپنی عظمت اور دوسروں کو تحقیر پر مشتمل ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ہم بہادر اور دوسرے بزدل ، ہم عظیم اور دوسرے نیچ ہیں۔ اس ذہنیت کا سیاسی نچوڑ پھر یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ساری عظمتیں ہمیں ہی حاصل ہیں لھذا سیاسی بالادستی بھی ہماری ہی رہنی چاہئے۔ اگر اتفاق سے یہ بالادستی پہلے سے ہی اس نسل پرست اکائی کو میسر ہو تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ جو اس اکائی سے تعلق نہیں رکھتے وہ اپنے حقوق کے لئے ترستے رہ جائیں گے۔ اور اگر بالادستی ابھی میسر نہ تھی تو یہ اس کے حصول کے لئے حقوق کے نام پر ان اکائیوں کے خلاف پرتشدد کار روائیوں میں مصروف ہوجائیں گے جنہیں یہ پہلے ہی بزدل اور نہ جانے کیا کیا ڈیکلیئر کر چکے ہیں۔ نسل پرستی کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ ایک بار یہ وہ کامیابیاں سمیٹنے لگے جن کے لئے یہ برپا کی گئی تو پھر رکے گی نہیں مزید آگے بڑھے گی۔ چونکہ میں پختون ہوں لھذا مناسب یہی ہوگا کہ پختون مثال سے ہی بات آگے بڑھاتے ہوئے عرض کروں کہ بالفرض پختون نسل پرست بالادستی حاصل کر لیتے ہیں تو بہت جلد ان کے اندر بھی ’’بالاتر پختون‘‘ سر اٹھانے لگیں گے اور ان کا دعویٰ ہوگا کہ چونکہ پختونوں کا سب سے عظیم قبیلہ ہم ہیں لھذا پختونوں کے معاملات ہمیں ہی سونپے جائیں۔ اور پھر فرض کیجئے کہ یہ دعوی یوسف زئی قبیلہ کردیتا ہے تو کیا باقی پختون قبائل اسے مان جائیں گے ؟ نتیجہ ایک ایسی خونریزی ہوگا جو اب پختونوں کے ہی مابین نسلی امتیاز کا نتیجہ ہوگی۔ اب فرض کیجئے یوسف زئی بھی کامیاب ہوجاتے ہیں اور انہیں بھی بالادستی میسر آجاتی ہے تو بہت جلد خود یوسف زئی قبیلے کے اندر بھی یہی فتنہ سر اٹھائے گا کیونکہ یوسف زئی قبیلے کے بھی پانچ ذیلی قبیلے ہیں اور ان میں بھی عظمت اور تحقیر کے بخارات کسی نہ کسی درجے میں موجود ہی ہیں لھذا اب یہ پانچ بھی بالادستی کے لئے لڑیں گے۔ خلاصہ یہ کہ یہ سلسلہ تب تک رکے گا نہیں جب تک ایک ہی خاندان میں ایک ہی باپ کے پانچ پختون بیٹے آپس میں ہی خبط عظمت کے چکر میں نہ الجھ پڑیں۔ ہماری پانچوں نسل پرست تحریکیں اپنا ہی نقصان کرنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ ان میں سے الطاف حسین اور اس کی تحریک تو پینتیس سال بعد ہماری نظروں کے سامنے بکھر رہی ہے اور وہ الطاف حسین پہلے فیس بک کا ایک کامیڈین بن کر رہ گیا جس کے در پر طاقتور لوگ سر جھکانے جاتے تھے، اور اب اسے سوشل میڈیا پر "پردے میں رہنے دو، پردہ نہ اٹھاؤ" گانے کی بھی اجازت نہیں۔ اور یہ پابندی اس پر کسی اور نے نہیں بلکہ برطانیہ کے جج نے لگائی ہے جو اسے تیس سال سے پال رہا تھا۔ نسلی امتیاز ہو خواہ قوم پرستی، یہ ایسی لعنت ہے جو اقوام اور قبیلوں کے اجتماع میں آپ کو تنہاکرکے رکھ دیتی ہے۔ تنہا فرد ہو خواہ قوم اور قبیلہ خسارے میں رہتا ہے۔ ذرا ایک لمحے کو تصور کیجئے اگر پختون، بلوچ، مہاجر اور سرائیکی قوم پرست نسل پرستی اختیار کرنے کے بجائے پاکستان کی دیگر اقوام کے پاس اپنا مقدمہ لے کر جاتے اور وہاں کی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرتے تو اس کا انہیں زبردست فائدہ نہ ہوتا ؟ کیا پچھلے چالیس سال کے دوران کسی نے سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب اکبر خان بگٹی اور نواب مری کو کراچی لاہور پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں جلسہ کرتے دیکھا ؟ کیا کسی نے اسی عرصے میں الطاف حسین کو ان بڑے شہروں میں جلسہ چھوڑ وفقط دورہ بھی کرتے دیکھا ؟ نہیں ! کسی نے نہیں دیکھا اور اس لئے نہیں دیکھا کہ یہ قوم پرستی کی راہ اختیار کرکے خود کو تنہاکرچکے تھے۔ لندن کی عدالت میں نفرت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ بھگتنے والے الطاف حسین کے انجام سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف الطاف حسین نامی شخص کا نہیں بلکہ ایک قوم پرست کا عبرتناک انجام ہے۔ کوئی ہے جو عبرت پکڑے ؟