شام کے سائے سے ملتا ہوا سایہ تیرا کیا نظر آئے یہاں نقش کف پا تیرا کون بھولے گا تجھے آنکھ سے لے کر دل تک اشک یادیں ہیں تری درد حوالہ تیرا کیا کریں کس رخ سے بات کریں کہ سچ کو ابلاغ مل جائے۔ہر بندہ اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔کیا کریں کچھ کہنے کا یارا نہیں کہ دل کہتا ہے مت شکایت کرو زمانے کی۔یہ علامت ہے ہار جانے کی۔ یقینا مسئلہ یہی درپیش ہے کہ اک بتانی ہے اک چھپانی ہے ۔ منیر نیازی یاد آتے ہیں کہ بعض اوقات آپ خمیرے آٹے سے بات کر رہے ہوتے ہیں کہ بات کھب جاتی ہے واپس نہیں آتی۔لیکن کبھی یگانہ کی سی صورت حال بھی تو پیدا ہو جاتی ہے بات ادھوری مگر اثر دونا۔ ویسے زیادہ سنجیدہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں کہ اتنے غیر سنجیدہ ماحول میں آپ کیوں کڑھتے جائیں۔ جو موجود ہے اس پر اپنا اظہار ضرور کریں کہ بدلنا آپ کے بس کی بات نہیں۔آپ خوشگوار موڈ میں رہیں اور لطف اٹھائیں۔بعض بہت ہی تخلیقی باتیں ہوتی ہیں جو کہ میری بہت بڑی کمزوری ہیں ایک بزلہ سنج کہہ رہا تھا کہ حکومت اور کیا کرے دیکھیے اس نے ہمارا روپیہ کتنا سستا کر دیا ہے اس سے زیادہ غریب کو اور کیا رسائی دی جا سکتی ہے۔ ڈالر اس لئے مہنگا کیا کہ امیر کو زک پہنچے۔ ایک موقف وزیر اعظم صاحب نے بھی دیا تھا کہ کسی دور میں بھی اتنی گاڑیاں نہیں خریدی گئیں ظاہر ہے یہ خوشحالی کی علامت ہے ۔ فواد چودھری صاحب کاکہنا ہے کہ دکانداروں کی آمدن بڑھ گئی ہے اب اس میں کیا غلط ہے: کہتا ہے کون آنکھ میں اترا نہیں تھا چاند سینے پہ ایک داغ ہے اب تک سجا ہوا آپ کو ایک دلچسپ نشست میں لیئے چلتا ہوں کہ اپنے دولت خانے پر غلام عباس صاحب نے ناشتہ پر چند دوستوں کو مدعو کر رکھا تھا غلام عباس نے طارق جمیل صاحب کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی ہر برائی امریکہ پر ڈال دیتے ہیں کیا امریکہ کہتا ہے کہ کرپشن کرو مثلاً دودھ میں پانی ڈالو یا ملاوٹ کرو وغیرہ وغیرہ۔ یہیںسے ایک سماجی معاشرتی اور معاشی مکالمے کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر ناصر قریشی نے کہا کہ ہاں امریکہ ہی اس طرف لے کر آتا ہے۔پھر بات آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک تک پہنچی کہ وہی حکومتوں کو نچوڑتے ہیں اور حکومتیں عوام کی جیبیں خالی کرتی ہیںاور عام آدمی کو اس نہج پر لے آتی ہیں کہ وہ جیسے تیسے یوٹیلیٹی بلز ادا کریں اور اپنا گھر چلائیں۔اس کے لئے جیسے تیسے پیدا کریں۔ پھر ہوتا کیا ہے مرتا تو دیانتدار ہے کہ وہ چومکھی لڑتا ہے اور ہار جاتاہے۔محفل میں دو بہترین مثالیں دی گئیں جو یقیناً آپ کے لئے کوئی حیران کن یا چونکا دینے والی خبر نہیں ہوں گی ایک نے بتایا کہ میرا ڈرائیور ایک دن خوش خوش آیا کہ اسے کسی نے کوٹھی میں الگ سے کمرہ دے دیا ہے اور وہ صرف بجلی کا بل دیا کرے گا۔چند ماہ کے بعد آیا اور کہا کہ وہ کرائے کے کمرے ہی میں بہتر تھا کہ وہاں ان دوستوں نے تاروں پر کنڈی لگا رکھی تھی۔بجلی کا ہیٹر سارا دن چلتا تھا۔کھانا بھی اس پر بنتا تھا اور پانی بھی اسی پر گرم ہوتا تھا اب یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ واپڈا کے کرتا دھرتا نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ یہ جو بجلی چوری ہوتی ہے اس کا نقصان ان لوگوں پرڈال دیا جائے جو باقاعدہ بل ادا کرتے ہیں یعنی چوروں کو نہیں پکڑنا شاید ایک عوامی شاعر کا شعر انہوں نے پڑھ لیا ہے: بوہا کھلا چھڈ کے تے چوراں پچھے نسّی دا نہیں اب دوسرا واقعہ سن لیں کہ ایک آسودہ حال دوست کا بل آیا تو وہ گھر پر نہیں تھے ان کے بیٹے نے ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا بل دیکھا تو چکرا گیا۔لائن مین نے کہا کہ یہ گھبرانے والی بات نہیں ہے جناب دس ہزار روپے میرا طے کریں یہ جو تین میٹر ہیں انہیں اتار کر گھر رکھ لیں۔نئے میٹر میں لگوا دوں گا کچھ عرصہ بعد آپ پرانے میٹر لگا لیں۔ بچے نے اپنے والد محترم کو فون کیا اور سب کچھ بتایا۔اب یہ لوگ جماعت اسلامی میں ہیں تو میٹر ریڈر کو چیل کے گھونسلے سے ماس کیسے مل سکتا تھا۔اسی بات سے مجھے وہ شخص بھی یاد آ گیا جو غالباً فرانس کسی ٹریننگ پر گیا تھا واپڈا سے اس کا تعلق تھا پرائیویٹ طور پر وہاں وہ کام بھی کرنے لگا۔ایک روز اس جگہ بل بہت زیادہ آ گیا تو ہمارا یہ سپوت انہیں بتانے لگا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا میٹر زیرو پر لے جا سکتا ہوں۔یعنی بجلی آپ استعمال کریں بل نہیں آئے گا۔مختصر یہ کہ مالک نے نہ صرف اس شخص کو نکال دیا بلکہ اوپر تک خبر پہنچائی حتیٰ کہ وہ پاکستان کی نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ایسے ہی باقی صدیقی یاد آ گئے: اور جا جا کے تم ملو اس سے لو سلام و پیام سے بھی گئے مولانا حمید حسین صاحب نے بھی اس بات کی تائید کی کہ یہ ایک سلسلہ تو بنتا ہے جو اوپر سے نیچے آتا ہے جس کا گزارہ نہیں ہوتا تو وہ بجلی گیس اور پانی کا بل کدھر سے دے گا۔حالات کا ستایا ہوا شخص زندگی بچانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ہائے ہائے پیارے دوست اسلم کولسری یاد آئے: میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا اس محفل میں محمد شفیق ملک‘خانزادہ‘عبدالغفور ایڈووکیٹ اور ندیم خان صاحب موجود تھے۔ایسی فکری محفلوں میں اچھی باتیں ہوتی ہیں۔ویسے حکومت کے ایک اقدام پر سب حیران تھے کہ اوگرا نے پٹرول کی قیمت ایک روپیہ بڑھانے کی تجویز دی جبکہ حکومت نے پانچ روپے لیٹر بڑھا دی۔حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کو مطمئن کرے کہ یہ کیسے ہوا۔بقول پروین شاکر میں نے ذرا سی بات کی اس نے کمال کر دیا۔ آخر میں وزیراعظم عمران خان کی بات ہو جائے کہ تاجکستان میں ایک پاکستانی نے ان کے سامنے اشعار پڑھنا چاہے تو ایک مصرع سن کر خان صاحب نے کہا کہ شعرو شاعری بعد میں ہو گی پہلے کاروباری باتیں ہو جائیں۔جناب خان صاحب سخن فہم ہیں جو مصرع وہ پڑھ سکا۔اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو‘اینکر نے شعر پڑھ کر اس کا بیڑہ غرق کیا شعر یوں ہے اور یہ میرے عزیز ادریس آزاد کا ہے: اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں