تین بار مملکت خداداد کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف، ان کے مستقبل کی لیڈر صاحبزادی مریم نواز اور داماد ارسٹھ دن کی اسیری کے بعد واپس گھر کو لوٹ آئے، جاتی عمرہ پہنچ کر سابق وزیر اعظم نے پہلی ملاقات اپنی ضعیف والدہ سے کی، جو لمحہ لمحہ اسیروں کی رہائی کیلئے دعا گو رہیں، جن کی مائیں زندہ ہوتی ہیں وہ ہر قسم کے مصائب سے بچے رہتے ہیں ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن حسن مطلق کا نظارہ کرنے کوہ طور پر چڑھ رہے تھے کہ آواز آئی،، موسیٰ ذرا احتیاط سے،، انہوں نے کہا، میرے خدا، میں تو اس پہاڑ پر عرصے سے چڑھ رہا ہوں، پہلے تو کبھی مجھے اس قسم کی ہدایت نہیں کی گئی،،، جواب آیا،،، موسیٰ، پہلے تمہاری والدہ زندہ تھیں اور ان کی دعائیں تمہیں ٹھوکر سے بچا لیا کرتی تھیں آج وہ دعائیں تمہارے ساتھ نہیں ہیں ٭٭٭٭ نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کو بعض لوگ ڈیل قرار دے رہے ہیں، میرا خیال ہے ایسا کچھ نہیں ہوا، یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا آزادانہ فیصلہ ہے، اس سے آگے کسی کو سوچنے کی ضرورت نہیں، کئی دنوں سے دونوں معزز جج صاحبان کے ریمارکس بول رہے تھے کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے، نیب پراسیکیوٹر کے پاس عدالت کے کئی سوالات کے جواب ہی نہیں تھے، نیب کا نمائندہ نواز شریف کے وکیل کے سوالات کے سامنے بھی سرینڈر کرتا ہوا دکھائی دے رہا تھا، بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیب پراسیکیوٹر انڈا لے کر امتحانی پرچہ میں فیل ہو گئے ،کیا ان کے فیل ہوجانے کے پس پردہ کچھ ہو سکتا ہے؟، اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا، تاہم یہ ایک بڑا سچ ہے کہ نواز شریف ان کی صاحبزادی اور داماد کو جیل پہنچانے والی نیب اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے بے بس اورمشکل میں دکھائی دی، ہمیں یہ بھی نہیں کہنا چاہئیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس ڈبل بنچ یا اس میں شامل کسی ایک جج کی سپریم کورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف سے کوئی مخاصمت تھی، ہمیں یہ بھی بھول جانا ہوگا کہ نواز شریف کیخلاف مقدمات کی سماعت بہت عجلت میں کیوں کی گئی، کون سا پہاڑ گرنے والا تھا کہ اس کیس کو سرسری سماعت سے نمٹایا گیا ٭٭٭٭ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، سزا معطلی عارضی ریلیف ہے، نواز شریف کیلئے دھند ابھی چھٹی نہیں ہے، زیر سماعت دوسرے دو ریفرنسز میں مریم نواز کا نام نہیں، سو ایک بات تو طے ہے کہ نواز شریف کو اگلے اقدامات کیلئے کسی شریکے پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا، ن لیگ کے میدان سیاست کی کمان اب ان کی بیٹی کے ہاتھ میں رہے گی، جیل یاترا نے بی بی مریم کے دماغ کے پردے بھی صاف کر دیے ہونگے ،وہ اب کسی ریاستی ادارے کے خلاف مہم چلانے سے پہلے بار بار سوچیں گی، ہزار بار سوچیں گی، سب سیاسی جماعتوں نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ، صرف حکومتی ترجمان اوروفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری ، وکھی ، سے بولے ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا اور معاملہ آگے بڑھے گا، ہمارے خیال میں تو قانون اپنا راستہ بنا چکا اور یہ تین رہائیاں اسی راستے سے برآمد ہوئی ہیں، حکمران پارٹی کیلئے اس سے اچھا دن اور کیا ہو سکتا ہے کہ عدلیہ نے اپنی مکمل آزادی کا ثبوت دیدیا،ہم جس عدالتی نظام پر ہمیشہ شرمندہ رہے، اسی عدالتی نظام کو آج شاباش مل رہی ہے، یہ عمران خان کی حکومت کاایک بڑا کریڈٹ بھی تو ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور دیگر قائدین نے ان رہائیوں کا طنزکے خنجر تھام کر خیر مقدم کیا۔ ’’ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد یہ فیصلہ شریف خاندان کیلئے ریلیف ہے، نواز شریف کو ہمیشہ کی طرح پھر انصاف مل گیا ہے،،،سعد رفیق نے نواز شریف کے جیل جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا،،عدلیہ کیخلاف تحریک چلانا ہماری غلطی تھی،،، اب وہ نواز شریف کی رہائی پر کیا فرماتے ہیں، اس کا انتظار ہے، چوہدری نثاربھی تو کہا کرتے تھے کہ عدلیہ کیخلاف اس حد تک نہ جائیں کیونکہ آپ نے انصاف بھی انہی عدالتوں سے لیناہے، اب دیکھتے ہیں نواز شریف کا سچ بولنے والے چوہدری نثار کے حوالے سے کیا رویہ سامنے آتا ہے؟ بیگم کلثوم نواز کی رحلت پر پیرول پر پانچ دن کی رہائی کے دوران نوازشریف اور مریم نواز نے برد باری کا ثبوت دیا، کوئی بیان بازی کی نہ کوئی اور سیاسی سرگرمی میں ملوث ہوئے، اب لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں،، کیا یہ سب اس لئے تھا کہ وہ جانتے تھے ،، دو دن بعد جیل کے تالے کھلنے والے ہیں؟ سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے، اس وقت تک یا چہلم تک تو نواز شریف ایک شریف آدمی کی طرح اپنے تین ماہ پہلے تک کے ایجنڈے سے دور رہیں گے، اگر ان کی بریت ہوجاتی ہے تو پھر ان کا اگلا طرز عمل بتائے گا کہ رہائی کسی پیکیج یا کسی ڈیل کا نتیجہ ہے یا صرف آزاد عدلیہ کا کمال؟ ضمنی الیکشن اکتوبر میں ہو رہے ہیں ، انہیں جیتنے کیلئے جس جارحیت کی ضرورت درکار ہوگی اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے یا نہیں ،ن لیگ کے وہ تمام لیڈران جن کے لبوں پر ریاستی اداروں کے خلاف زہر موجود رہتا تھا ان سب نے اب عدلیہ کو مکمل آزاد قرار دے کر عدلیہ کے حق میں بیانات دیے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ نواز شریف اگر دوبارہ سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں تو پھر عدلیہ کے بارے میں ان کا رد عمل کیا ہوگا ؟دو دن پہلے کے فیصلے سے ظاہر ہو گیا کہ قانون ابھی زندہ ہے،انصاف ابھی زندہ ہے لیکن مستقبل میں قوم یہ سوال اٹھاتی رہے گی کہ ،، کیا انصاف اور قانون عام آدمی کیلئے بھی زندہ ہے؟ عوام کی زباں بندی کبھی بھی ممکن نہیں رہی، کون ہے جو لوگوں کو یہ سوال اٹھانے سے بھی روک سکے کہ کیا سزاؤں کی ضرورت صرف عام انتخابات کے نتائج اور ان نتائج کے تحت ملک میں تحریک انصاف کی حکومت بننے تک محدود تو نہ تھی؟ نواز شریف اور مریم نواز کی رہائی پر راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں ہی نہیں پورے ملک میں شاندار جشن منایا گیا، بلا شبہ ثابت کیا گیا کہ میاں صاحب ایک مقبول عام سیاسی لیڈر ہیں، لوگ ان کے ساتھ ہیں، ووٹر ان کے ساتھ ہیں مگر کیا کوئی ن لیگی لیڈر اس سوال کا جواب دے گا کہ میاں نوازشریف جب کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو ان کی مقبولیت کہاں چلی جاتی ہے؟انہیں سزا ہوتی ہے، وہ جیل چلے جاتے ہیں وہ ملک بدر ہوجاتے ہیں تو ان سے محبت کرنے والے لاکھوں کروڑوں لوگ کہاں چھپ جاتے ہیں؟ ن لیگی قائدین کوسانپ کیوں سونگھ جاتا ہے؟ کیا ن لیگ صرف رہائی پر جشن منانے والی ہی ایک سیاسی جماعت ہے؟ ٭٭٭٭ حرف آخر ٭٭٭٭ برٹش کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کاہل اور سست لوگ انتہائی ذہین ہوتے ہیں، اگر آپ کا بستر سے باہر نکلنے کو جی نہ چاہے، آپ اگر کسی کام پر سوئے رہنے کو ترجیح دیں تو یقیناآپ کا دماغ کم استعمال ہوگا اور جس کا دماغ زیادہ کام نہ کرے تو اس کا بہت ذہین ہونا تو بنتا ہے ناں۔۔ہمارے خیال میں یہ اصول نشہ بازوں پر بھی لاگو ہوتا ہوگا