کیا کیا لکھا جائے۔جوبھی لکھا جائے ایک نوحے سے کم نہ ہو گا۔میں ابھی ابھی وزیر اعظم کی تقریر سن کر بیٹھا ہوں۔افسوس ہوا کہ ہماری سیاست کس سطح تک جا پہنچی ہے۔اس وقت جو کچھ ہوا وہ نہ ہوتا تو بہتر تھا۔میرا مطلب یہ نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کیوں پیش ہوئی۔مسئلہ تو یہ ہے کہ اس کی نوبت آخر آئی کیوں اور اچھے خاصے سلجھے ہوئے لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس کے سوا ملک کو بچانے کا اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ اس تحریک سے ملک کے بچنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔تاہم یہ ناگزیر ہو گئی تھی۔یہ یقینا تباہ کن صورت حال ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ تحریک اس لئے آئی ہے کہ اس کے پیچھے بین الاقوامی سازش ہے۔ذرا یہ بتا دیا جائے کہ اس ملک میں کون سی ایسی تحریک چلی ہے جس کے بارے میں یہ نہ کہا جائے کہ اس کے پیچھے عالمی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔دوسرا یہ کہ ذرا پتا تو چلے کہ عالمی قوتوں کو کیا تکلیف ہے کہ وہ اس حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔صرف غیر ذمہ دارانہ تقریریں تو اس کا سبب نہیں بن سکتیں اور وہ بھی ایسے شخص کی جس کے ہاتھ پلے کچھ نہ ہو۔جس کے ہاتھ میں اصل فیصلے کرنے کی طاقت ہی نہ ہو اور جسے بہت سی اطلاعات کے مطابق ان طاقتوں نے پالا پوسا ہو۔آخر وہ اتنی جلدی اس سے بدظن کیوں ہو گئیں کیا یہ ان کی توقعات پر پورا نہیںاترا۔کیا وہ اس سے دھوکا کھا گئے۔جو انسانوں کو پرکھنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں‘وہ کرکٹ کے ایک کھلاڑی سے مار کھا گئے۔جس کا دعویٰ ہے کہ اس سے زیادہ مغرب کو کوئی نہیں جانتا۔پھر اس نے مغرب کو کیسے ناراض کر لیا۔اگر ناراض کر لیا تو کیا انہیں نااہل اور بیوقوفی سے یا حد سے بڑی ہوئی چالاکی کے زعم میں۔بہرحال اگر مغرب سچ مچ اس سے ناراض ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی بہت بڑی خطا ہوئی ہے۔یہ چھوٹی موٹی تقریریں تو اس کا سبب نہیں ہو سکتیں۔وہ جانتے ہیں کہ اس کے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے۔ایک سابق وزیر اعظم نے تو ہنستے ہوئے کسی سے کہا کہ یہ کس کے فون کا انتظار کر رہا ہے۔اسے پتا نہیں کہ فون وزیر اعظم کو نہیں آیا کرتا۔ یہ سب اول فول جو میں لکھ رہا ہوں اصل میں اس دکھ کا اظہار ہے جس سے میں بھی گزر رہا ہوں اور پوری قوم بھی گزر رہی ہے۔ پھر ہوا کیا۔کیا ہماری مقتدر قوتوں نے مغرب کی مقتدر قوتوں کو قائل کر لیا کہ آپ سے بھی غلطی ہوئی ہے اور ہمیں بھی مغالطہ ہوا ہے۔ہم بھی اسے غلط سمجھے۔آپ بھی کسی غلط فہمی میں اس کے پشت پناہ بن گئے تھے۔دوسرے لفظوں میں یہ سب کچھ اس لئے نہیں ہو رہا کہ عالمی قوتیں ناراض ہیں بلکہ یہ کہ قومی قوتیں بھی اس سے نالاں ہیں۔انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ اس کا تدارک کرنا چاہتی ہیں۔ چلیے اس سے الٹ سمجھ لیجیے کہ پہلے عالمی قوتیں ناراض ہوئیں اور انہوں نے مقامی مقتدرہ کو بھی قائل کر لیا کہ ہم ہی سے غلطی نہیں ہوئی تھی‘تم بھی مغالطہ کھا گئے آئو اب مل جل کر اس کا تدارک کرتے ہیں۔اگر یہ صورت حال بھی ہے تو پتا یہ چلتا ہے کہ عالمی ہوں یا قومی مقتدرہ سب اپنی غلطی پر پشیماں ہیں۔ اچھا اس سارے بیانیے میں عوام کہاں ہیں۔ویسے ان کا موقف بھی یہی لگتا ہے۔جو لوگ بڑے چائو سے اسے لے کر آئے تھے‘اب ان کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔وہ اسے قوم کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔اچھی بھلی چلتی حکومت کے خلاف وہ اس خیال سے کھڑے ہوئے کہ یہ شخص ملک کا مقدر بدل سکتا ہے۔مگر ہوا یہ کہ ملک کے ساتھ جو ہوا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔پوچھنے والے یہ پوچھتے ہیں کہ آگے کیا ہو گا۔کوئی نہیں جو یہ سمجھتا ہو کہ ملک کو جہاں پہنچا دیا گیا ہے‘وہاں سے نکالنا مشکل ہے‘شاید یہی وجہ ہے کہ کئی دن اس تذبذب میں گزارے کہ یہ بوجھ اٹھایا بھی جائے یا اس سے دور رکھا جائے۔پھر مشورہ ہوا کہ ذمہ داری سے پہلو تہی کہاں کی حب الوطنی ہے یہ تو نری خود غرضی ہے۔پھر بھی خوف کے سائے کم نہیں ہوتے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا۔وزیر اعظم تو ڈٹے ہوئے ہیں۔اس سے فرق نہیں پڑتا۔چھوٹی سی مثال کافی ہے کہ جام کمال بھی آخری روز تک ڈٹے ہوئے تھے۔ان کا خیال ہے کہ ایک کپتان ہر بات کا خیال رکھتا ہے کہ کیا ہوا تو کیا کرے گا۔ٹاس جیت گیا تو کیا ہو گا ہار گیا تو کیا ہو گا۔فاسٹ بالر چلیں گے یا سپنر۔بلّے باز جم سکیں گے یا نہیں۔وہ ہر صورت حال کے لئے تیار رہتا ہے۔ابھی تک کپتان کے مائنڈ سیٹ میں ہیں اور وہ بھی کرکٹ کی کپتانی کے جبکہ ملک چلانا کرکٹ کا کھیل نہیں ہے۔کاش آپ اس سے اوپر اٹھ گئے ہوتے۔ویسے کم از کم سپورٹس مین سپرٹ ہی سیکھ لی ہوتی۔ایک اچھا کھلاڑی کبھی مخالف سے ہاتھ ملانے سے انکار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔کھیل کے میدان میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ دوسرے کے دامن پر تو کوئی داغ نہیں ہے۔کھیل کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔کھیل کو کھیل کی طرح کھیلنا ہوتا ہے جس کی اپنی اخلاقیات ہے۔دنیا ہر کھلاڑی سے اس اخلاقیات کی توقع کرتی ہے۔کوئی نہیںکہتا کہ ہار گیا تو پھر تم سے دیکھنا کیا کروں گا یا یہ بھی کہ اگر جیت گیا تو دیکھنا نشان عبرت بنا ڈالوں گا۔ ہم اس موڑ پر کھڑے ہیں جس میں کسی سے ہمدردی یا کسی کا ساتھ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔وقت کی لہریں خود بخود حالات کو آگے لے جا رہی ہیں اور یہ سب بیک وقت ہو رہا ہے۔یہ وقت بھی آنا تھا کہ وزیر اعظم ایم کیو ایم کے ہیڈ آفس جائیں اور ان کا باہر آ کر ایم کیو ایم کا نمائندہ کہے تحریک عدم اعتماد پر تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ میں رطب و یابس نہیں لکھے جا رہا ہوں‘ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔پیر پگاڑا تو بیمار ہو گئے اور ان کے بھائی خیر پور میں ہیں۔اس لئے ملاقات نہیں ہو سکتی۔پنجاب کی قیادت لندن میں بیٹھی ہے۔سب لندن میں ہیں۔جہانگیر ترین۔علیم خان۔نواز شریف تو پہلے سے ہیں۔کہتے ہیں ملاقات ہو گی۔کہہ دو کہ لندن پلان تیار ہو رہا ہے۔جو کچھ بھی ہو رہا ہے۔سب پریشانی کا سبب ہے۔اللہ میرے ملک کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں ان الجھنوںسے نکال۔بہت برے دن ہیں۔ خدا کرے اچھی خبر آئے۔