برخوردار حسین حقانی نے ایک دن بڑے مزے کی بات کی۔ جانے وہ نواز شریف کا دور تھا یا آصف زرداری کا۔ یہ سانحہ ان کے ساتھ دونوں زمانوں میں ہوا تھا کہ انہیں اہم مناصب سے ہٹا کر ذرا کم اہم جگہوں پر لگا دیا گیا۔ ایسی ہی کسی صورت میں ان سے ملاقات ہوئی تو ازخود ایسا تبصرہ کیا جو ایسے ذہنوں کا بہترین عکاس ہے۔ کہنے لگا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ملا دو پیازہ ہیں یا بیربل‘ آپ کو بہرصورت دربار میں ہونا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ دربارمیں موجود ہیں۔ یہ بات مجھے یوں یاد آئی کہ میں اس بات پر غور کر رہا تھا کہ کسی بھی حکومت کی اصل طاقت وہ ٹیم ہوتی ہے جو معاملات حکومت چلاتی ہے۔ وہ چاہے اکبر کے نورتن ہوں یا ہمارے وفاق کے کسی سربراہ کی کابینہ یا کچن کابینہ کے ارکان۔ پھبتی کسنے والے تو کچن کابینہ کی جگہ آج کل کنٹینر کابینہ کی دلچسپ اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہو گی جب دربار میں رہنے کی خواہش میں لوگ سب کچھ کر گزرنے سے نہ چونکتے ہوں۔ اب یہ بادشاہوں کا زمانہ نہیں‘ اگرچہ ان کے زمانے میں بھی اہل دانش نے حکمرانی کے بڑے بڑے اصول وضع کر رکھے تھے جو آج تک حکمرانوں کے کام آتے ہیں۔ ان بادشاہوں کی بھی اصل طاقت یہ ہوتی تھی کہ ان کے نورتن یا ان کی کچن کیبنٹ کیسی ہے۔ موجودہ حکومت جب برسر اقتدار آئی تو بتایا گیا کہ کوئی دو سو ماہرین معاشیات سر جوڑے بیٹھے ہیں اور آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ادھر تاج پوشی ہوئی‘ ادھر پلک جھپکتے ہی کایا پلٹ دی جائے گی۔ ان میں سے بس ایک پر اعتراض ہوا تھا‘ اس کے ہٹنے سے ساری عمارت تو ڈھے نہیں گئی ہو گی۔ کہیں نہ کہیں تو عقل کا شرارہ موجود ہو گا۔ پھر پاکستانی ریاست کا اپنا انتظامی ڈھانچہ بھی اتنا بانجھ نہیں ہو گیا ہو گا کہ اسے کوئی بات سمجھ نہ آئے۔ ایسے لگتا تھا کہ حکومت کے پاس کوئی وژن ہی نہیں ہے۔ ہم چیختے تھے کہ ہماری شرح نمو جو 5.8فیصد تھی اور اسے اب چھ سے آگے نکل کر 6.2ہونا تھا۔ وہ 4فیصد سے بھی کم جا رہی ہے۔ اگر شرح نمو یوں گرتی رہی تو نہ بے روزگاری ختم ہو گی نہ غربت۔ ان دو چیزوں کے خاتمے کا تعلق شرح نمو سے ہے۔ منصوبہ بندی کے مطابق 2020ء میں ہماری شرح نمو کو سات فیصد تک پہنچنا تھا۔ اسی صورت میں ہم بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری کے قدم روک سکیں گے۔ اس کے بعد بھی ہم کو رکنا نہ تھا۔ مزید آگے بڑھنا تھا۔ کیونکہ ہم بہت وقت اور مواقع ضائع کرنے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ اتنی سیدھی سی بات تھی کہ مجھ جیسا ادبیات کا طالب علم بھی اس اقتصادی حقیقت سے واقف تھا اور بار بار اس کا اظہار کرتا رہا تھا۔ دوسری طرف نورتنوں میں سے بعض کمال بے نیازی سے کہتے تھے‘ تمہیں کیا خبر‘ اب تو دنیا میں اقتصادیات بہت آگے نکل چکی ہے۔ اب شرح نمو اہم نہیں ہوا کرتی۔ نورتنوں میں بیربل ہی نہیں‘ ملا دو پیازہ بھی ہوا کرتے ہیں۔ ان کا اپنا کردار اور مقام ہے۔ وہ تو اللہ نے کرم کیا کہ کسی نے یہ عقل دے دی کہ شرح نمو کا نیچے جانا خطرناک ہے۔ اسے روکنا ہو گا۔ اس پر بھی کام ہوا (ہو گا۔ اعلان کیا گیا کہ اس حکومت کا دور اقتدار ختم ہونے تک ہماری شرح نمو سات فیصد ہو گی۔ بہت اچھی خبر ہے۔ مگر اس کا مطلب سمجھ آیا؟ مطلب یہ ہوا کہ جو شرح نمو ہم 2020ء میں حاصل کر رہے تھے وہ اب 2023ء میں حاصل کریں گے۔ گویا پوری طاقت اور یکسوئی سے کام لیا گیا تو ہم تین سال کی تاخیر سے وہاں پہنچیں گے۔ جہاں ہم اس عشرے کے اختتام تک پہنچ پا رہے تھے۔ ملکی معیشت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا۔ یہاں سے وہ پکا راگ الاپا جا سکتا ہے کہ جانے والے یہ بوجھ موجودہ حکومت پر چھوڑ کر گئے ہیں اور آج وہی بوجھ ہمارے آڑے آ رہا ہے۔ اصل صورت حال یہ بھی نہیں ہے۔ میں اس پر بحث نہیں کروں گا کہ جانے والے شرح نمو کو 5.8پر چھوڑ کر گئے تھے۔ اصل خرابی یہاں ہے ہی نہیں۔ خرابی اس وقت شروع ہوئی تھی جب ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا یا پیدا کیا گیا۔ جو جو اس کا ذمہ دار ہے‘ معیشت کی تباہی میں اس کا بھی ہاتھ ہے ہم نے مل جل کر سیاست کھیلتے کھیلتے ملک کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب بھی دربار میں ایسے لوگ ہیں جن کی زندگی کا محور مرکز ہر دور میں یہ ہوا کرتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے دربار سے چمٹے رہو۔ ایک دن آئے گا جب تم اس کا پھل پائو گے۔ دربار میں رہنے کے لئے وہ طرح طرح کے راگ الاپتے ہیں۔ تاہم اس بات سے ذرا اطمینان ہوا ہے کہ ابھی ریاست پاکستان زندہ ہے۔ درست سمت کی طرح بڑھنے کے امکانات پیدا ہونے لگے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ ہم تین سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان تین سال کے اثرات ختم ہونے میں کتنا وقت لگے گا یہ الگ بحث ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اگر ہم 2020ء میں سات فیصد تک جا پہنچے ہوتے تو 2023ء تک تین برس تک کتنے لوگوں کو روزگار دے چکے ہوتے اور کتنے لوگوں کو حد غربت سے باہر نکال چکے ہوتے اور اس وقت میں ہم شرح نمو کے کس مرحلے پر ہوتے۔ ایک نسل کے گناہوں کا بھگتان جانے کتنی نسلیں بھگتتی ہیں۔ اس وقت بھی میری اہل دربار سے درخواست ہے کہ وہ معیشت میں تیزی لانے کا بندوبست کریں۔ کوئی بھی شخص کوئی کام ہی نہیں کر رہا۔ بنیادی سبب ڈر ہے۔ لوگوں کو اپنے دستخطوں سے خوف آنے لگا ہے۔ جانے کب دھر لئے جائیں۔ کون وضاحتیں کرتا پھرے گا۔ مارکیٹ ٹھپ ہو گئی ہے۔ ایک تذبذب اور گومگو کا عالم ہے۔ ہم نے روپے کی شرح کم کی تھی کہ اس سے برآمدات بڑھیں گی اور درآمدات کم ہوں گی۔ اس طرح خسارہ کم ہو گا۔ اس قوت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں نہ برآمدات بڑھی ہیں نہ درآمدات کم ہوئی ہیں۔ پتا چلا‘ صرف کرنسی کی قیمت کم کرنے سے یہ معجزہ نہیں ہوا کرتا۔ نیا تخمینہ یہ آیا ہے کہ معیشت میں عالمی سست روی کی وجہ سے پاکستانی برآمدات میں 20فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں درآمدات کی مد میں زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اگر امپورٹ اور ایکسپورٹ کا یہ گیپ مزید بڑھ گیا تو ہم کہاں جائیں گے۔ آج کل تو یہ ہو رہا ہے کوئی دوست ملک ایک ارب ڈالر دیتا ہے‘ چند دن میں ہم وہ خرچ کر کے فارغ بیٹھ جاتے ہیں اور نئے ڈالر آنے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ دوست ممالک کی مدد بلا سود نہیں ہے۔ قوم پر مزید قرضوں کا بوجھ چڑھتا جا رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے امپورٹ بھی تو بڑھ جائے گی اور اگر ایکسپورٹ میں اضافہ نہ ہوا‘ تو کیا نقشہ بنے گا۔ یہی نہیں ‘ ہمیں بڑے دعوے تھے کہ جب اطراف و اکناف عالم میں یہ ڈنڈیا پیٹے گی کہ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ ہو گیا اور وہاں ایک دیانت دار حکومت آ گئی ہے تو لوگ ڈالر لے کر بھاگے آئیں گے اور تو اور ہماری ترسیلات زر میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ باہر بیٹھے ہوئے پاکستانیوں نے بھی اپنے محبوب وطن کی خاطر اپنی پسندیدہ قیادت کی کوئی مدد نہ کی۔ ترسیلات زر کم‘ امپورٹ زیادہ‘ ایکسپورٹ کم۔ کون پورا کرے گا یہ خلیج۔ اس وقت ایک ریٹنگ ایجنسی نے کہا ہے کہ شرح نمو 4.4فیصد تک ہو جانی ہے۔ اسی ایجنسی نے دو تین ماہ پہلے یہ شرح نمو 4.7بتائی تھی۔ لمحہ موجود میں یہ شرح 3.8فیصد بتائی جاتی ہے اور بعض معیشت دانوں کے مطابق یہ 3.5سے بھی نیچی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف مہنگائی پہلے ہی 7فیصد بڑھ چکی ہے ۔روپے کی قیمت میں کمی سے اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ عالمی ایجنسی نے کہا ہے کہ ہمارا سٹیٹ بنک اب سود کی شرح مزید کم نہیں کرے گا۔ پہلے ہی وہ ساڑھے چار فیصد کم کر چکا ہے۔ یہ اب دس فیصد ہے۔ مجھے منی بجٹ اور آئی ایم ایف سے معاہدے کا انتظار ہے۔ ایک بری خبر یہ آئی ہے کہ منی بجٹ تو ہم ابھی دے دیںگے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی کر لیں گے‘ مگر اس کے نتائج مارچ میں ظاہر ہوں گے۔ آئی ایم ایف سے بات اس وقت مکمل ہو گی یہ سال تو نکل گیا نا۔ ضائع ہی نہیں ہوا۔ ہم مزید دلدل میں پھنستے گئے ہیں۔ بہت سے اقدامات اس طرح کئے گئے ہیں کہ صاف نظر آتا ہے شرح نمو کو کم کرنا مقصود ہے۔ یہ جو اورنج لائن کا منصوبہ ہے‘ آج ہی اس پر سپریم کورٹ میں بحث ہوئی ہے۔ یہ کیوں کھڑا ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ یہ تو چینی بنکوں کے قرضے سے بن رہا تھا۔ آخر تاخیر کیوں ہوئی ہے کیا ہم سابق حکومت کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں یا پیچھے سے پیسے روک دیے گئے۔ اس منصوبے پر 22 ماہ سے مقدمہ بازی ہوئی۔ سات آٹھ ماہ تو سپریم کورٹ نے صرف فیصلہ محفوظ رکھا اب توقع تھی دسمبر سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ ویسے 31دسمبر کے بعد ہم پر جرمانہ بھی پڑنے لگ گیا ہے۔ ہم نے اس میں مزید تاخیر کر دی ہے۔ 50لاکھ گھروں کی تعمیر سے معیشت میں تیزی لانے کا سوچنے والے ذرا یہ تو حساب دیں‘ اس منصوبے کے رکنے سے کتنے لوگ بے روزگار بیٹھے ہیں۔ تجاوزات کے نام پر ہم نے کتنے کاروبار مسمار کئے۔ ہم بچپن سے یہ بات سنتے آئے ہیں کہ جب کوئی اسلامی تعزیرات سے ڈراتا تو اس سے کہا جاتا پہلے اسلامی فیوض و برکات کو ظاہر کرو‘ پھر تعزیرات پر آنا۔ مدینہ کی ریاست بنانے والوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ پہلے اس فلاحی ریاست کی برکتیں عام کرو‘ پھر اس کی تعزیرات پر آنا۔ کرپشن کا خاتمہ ضروری‘ مگر اس کے لئے کیا غریبوں کے منہ سے نوالا چھیننا ضروری تھا۔ ساری معاشی سرگرمی بند پڑی ہے اور ہم صرف ایک راگ الاپ رہے ہیں کہ ہم کرپشن کے خلاف مینڈیٹ لے کر آئے ہیں۔ یہ مینڈیٹ تو آپ کو نہیں ملا تھا کہ اس کی قیمت عوام سے وصول کرو اور حد یہ ہے کہ کرپشن کا ایک پیسہ بھی خزانے میں نہ آئے۔ الٹا اس سے عوام کی جیبیں خالی ہونے لگیں۔ خدا کے لئے عقل کے ناخن لیجیے۔ ہم ڈھلوان پر پھسلے جا رہے ہیں۔ آگے چپ ہی اچھی ہے!