منیر نیازی نے کہا تھا: سیاہ شب کا سمندر سفید دن کی ہوا انہی قیود کے اندر فریب ارض و سما مگر ان حدود میں زندگی کے سینکڑوں رنگ ہیں اور جب یہ دل کی صورت دھڑکتی ہے تو یہ جہان آب و خاک مکالمہ کرتا محسوس ہوتا ہے۔ شب و روز کی صورت کائنات کی جلتی بجھتی آنکھیں اور ان میں جگ مگ کرتے ستارا نما آنسو ہمیں کیسے لبھاتے ہیں اور پھر تخلیق سے لبریز لمحے ہمیں گدگداتے ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ ہم زمان و مکاں کی قید میں ہیں مگر اس کے اندر رہتے ہوئے ہم آزاد بھی تو ہیں اور ایک احساس کہ ہم اردگرد سے حفاظت میں ہیں کہ چاروں اور آسمان جھک کر ہمیں آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ اصل میں، میں اپنے بیٹے عمیر بن سعد کے ولیمے کا ذکر کرنے بیٹھا تھا کہ یادوں نے گھیر لیا اور لمحے سے لمحہ نکل کر ایک زنجیر بن گیا۔ میرا بیٹا عمیر بن سعد 1988ء کی آٹھ جنوری کو پیدا ہوا تو میں مٹھائی لے کر منیر نیازی کی طرف گیا کہ روز و شب انہی کیساتھ گزر رہے تھے۔ انہوں نے مٹھائی کا ڈبہ لے کر ایک آہ سی بھری اور کہا ’’سعد مجھے احساس ہوا ہے کہ میرا بیٹا ہونا چاہیے تھا۔‘‘ مجھے ایک احساس نے گھیرا کہ مجھے ڈبہ نہیں لانا چاہیے تھا مگر نیازی صاحب اپنے مکان کے پچھواڑے میں چلے آئے اور کہنے لگے، چلو دعا کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ میرے گھر آئے میری بیوی کوپیار دیا اور میرے بیٹے کو دس روپے کا نوٹ دیا۔ میرے سسرال والے مذاق کرنے لگے کہ سب سے بڑا شاعر اور دس روپے کا نوٹ۔ میں نے کہا، یہ منیر نیازی کا نوٹ ہے، اسے فریم کروالیں۔ آج جب عمیر کی شادی پر اتنے سارے نامور شعرا آئے تو مجھے منیر نیازی یاد آ گئے کہ وہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے کہ ایک ادبی کہکشاں ان کے اردگرد ہوتی۔ اس موقع پر مجھے اپنی دو اور محبوب ہستیاں آئیں۔ جناب شہزاد احمد اور اختر حسین جعفری۔ مجھے کتنا اچھا لگا کہ توصیف احمد اور امیر حسین جعفری میرے بیٹے کی شادی پر آئے تو میں نے ان کو چوم لیا۔ یہ بڑے لوگ تعلق نبھاتے ہیں۔ میرے بیٹے عمیر بن سعد کے استاد اور پرنسپل شیخ مختار بھی تشریف لائے۔ عمیر انجینئرنگ یونیورسٹی سے ٹاپ کرتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایل ڈی اے بن گیا۔ دی ٹرسٹ میں سید ارشاد احمد عارف کا بیٹا حسن بھی عمیر کا کلاس فیلو تھا اور وہ ولیمہ پر آیا۔ شاہ صاحب ہی مجھے نوائے وقت میں لے گئے تھے اور وہی مجھے 92 نیوز میں لائے۔ شاہ صاحب تشریف لائے، ساتھ ہی معروف کالم نگار اور کتب سے رس کشید کرنے والے عامر خاکوانی، اشرف شریف بھی 92 نیوز سے تشریف لائے۔ معزز قارئین! آپ کی غمی اور خوشی میں آنے والے ہی اصل میں آپ کی زندگی کا حاصل ہوتے ہیں۔ کسی کی خوشی میں شریک ہونا آسان نہیں ہوتا۔ میں اپنے تمام مہمانوں کو جو میرے بیٹے کے ولیمہ پر آئے اپنا اثاثہ سمجھتا ہوں۔ میرے والد محترم کی آنکھوں میں خوشی جھلملا رہی تھی۔ میرے ماموں جو کہ معروف سکالر ہیں ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی وہاں مرکزی اہمیت کے حامل تھے۔ میرے محترم جناب حمید حسین تشریف لائے۔ ان کے درس میں، میں روزانہ بیٹھتا ہوں۔ساتھ ہی جناب ڈاکٹر ناصر قریشی تھے اور عزیز دوست ڈاکٹر محمد امجد، توقیر احمد شریفی، جہاں تک ادیبوں، شاعروں کا تعلق ہے تو انہوں نے میری ایسی عزت افزائی کی کہ ان کی بدولت یہ ولیمہ کوئی ادبی کانفرنس یا مشاعرہ محسوس ہورہا تھا۔ ظاہر ہے جہاں ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، نذیر قیصر، اقتدار جاوید، باقی احمد پوری اور اختر شمار جیسے لوگ آئے ہوں تو وہاں کیا کمی رہ جاتی ہے۔ وصی شاہ آیا تو نوجوانوں کی مراد پوری ہوئی۔ میں کہا کرتا ہوں کہ اس کے انکسار اور اس کی اپنی ماںسے محبت نے اسے نوازا ہے۔ بشریٰ رحمن اور آمنہ الفت تشریف لائیں تو خلوص کی ایک مہک میں نے محسوس کی۔ بشریٰ رحمن کو تو ان کی خواتین مداحوں نے گھیر لیا۔ اسی طرح آمنہ الفت کے ساتھ بچیاں سیلفیاں بناتی رہیں۔ مزے کی بات یہ کہ عمیر کی شادی بھی ادبی خاندان میں ہوئی ہے۔ انور علیمی پیپلزپارٹی کے فائونڈر ممبر اور انقلابی شاعر ہیں ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر شاہد مسعود ہاشمی جوکہ خود بھی شاعر ہیں کی بیٹی عفیفہ ہاشمی میری بہو بنی ہیں۔ شاہد صاحب میرے ہم زلف بھی ہیں۔ علیمی صاحب کے والد ولایت شاہ ہاشمی نے تو مثنوی مولانا روم کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ ایک اور ادبی جوڑا سجاد بلوچ اور عنبرین صلاح الدین کا تھا۔ دونوں بہت سنجیدہ اور باصلاحیت ہیں۔ نادرا فضل وٹو ہمیشہ کی طرح خلوص دل سے ہماری خوشی میں شریک ہوئیں۔ میرے کالج اسلامیہ کالج سول لائنز سے پرنسپل رانا اسلم پرویز اور میرے کلیگ اعجاز احمد، عمرالدین، خالد محمود، رحیم الدین اور مرزا غلام علی تشریف لائے۔ پھر طارق چغتائی، افتخار شوکت اور پروفیسر فرخ محمود کو کون بھول سکتا ہے۔حاجی عبدالستار اور ثناء اللہ شاہ خاص طور پر چشتیاں سے آئے۔ میرے دوست ڈاکٹر محمد اکرم بھی آئے۔ ذوق نے کہا تھا: اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے شعیب بن عزیز کی وضعداری کہ ایمرجنسی کے باوجود مجھے فون کیا اور تحفہ بھیجا۔ کچھ باتیں بظاہر معمولی ہوتی ہیں مگر آپ کے دل میں گھر کرلیتی ہیں۔ ایک سفر مجھے یاد ہے۔ وصی کے ساتھ ہم مشاعرہ پڑھنے جا رہے تھے۔ اوکاڑہ، پٹرول ڈلوانے رکے تو ایک شخص وصی شاہ سے آٹو گراف لینے آیا تو وصی نے کہا، نہیں بھئی۔ سعداللہ شاہ کے ہوتے میں آٹوگراف نہیں دے سکتا۔ آٹو گراف وہی دیں گے۔ میرا خیال ہے ولیمہ پر آئے ہوئے تین سینئر شعرا کے تین شعروں کے ساتھ کالم ختم کیا جائے: میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت کا یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے (ڈاکٹر خورشید رضوی) دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے (امجد اسلام امجد) تمہارے شہر کا موسم بہت سہانا لگے میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے (نذیر قیصر) اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر جس نے اپنے کرم سے یہ خوشی کا موقع ہم سب کو فراہم کیا۔