دُنیا کے عدالتی نظام میں بھارتی سپریم کورٹ کو بہت طاقت ور تصور کیا جاتا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے بڑے اُمور پر آئین کو ازِ سرنو لکھا ہے۔حتیٰ کہ سپریم کورٹ بھارتی پارلیمان کا تیسرا چیمبر بن چکی ہے۔ایودھیا کیس میں اس کے فیصلے کا اسی تناظرمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آئین کے بنیاد گزاروں نے ہمیں ایک روشن خیال آئین دیا،بنیادی قوانین دیے،یہ قوانین محض کوئی کاغذی دستاویز نہیں تھے ،بلکہ ان قوانین کا مقصدیہ تھا کہ ان کے ذریعے ملک میںمعاشی وسماجی تبدیلی لائی جائے۔سیکولرازم بنیادی حقوق کے بنیادی ڈھانچے کا ایک اہم فرمان ہے۔لیکن کئی دیگر شعبوں کی طرح فرمان اور حقیقت کے مابین قابلِ ذکر امتیاز ہے۔قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ آئین ساز اسمبلی لفظ سیکولرازم کی تعریف کرنے میں ناکام رہی ہے،یہ بھی کہ آئین کو سیکولرنہیں کہا جاسکا۔1976ء کی ایمرجنسی کے دوران لفظ سیکولرکو بڑے پیمانے پر متنازعہ 42ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں متعارف کروانے کی کوشش کی گئی ۔اُس وقت تو سیکولرازم کو ایک نیا درجہ مل گیا ،جب سپریم کورٹ کی طرف سے اس کو آئین کا بنیادی حصہ بنایا گیا۔اس طرح جب بھی سیکولرازم کو خطرہ آن پڑتا ہے تو عدالت کے مذکورہ حکم امتناعی کو قبول کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ نے ملک میں طرزِ حکمرانی سے متعلق اپنے فیصلوں کے ذریعے سیکولرازم کو مزید فروغ دینے کی کوشش کی۔خاص طورپرآئین کے آرٹیکل 356 سے متعلق عدالت کے فیصلوں کاحوالہ دیا جاسکتا ہے ، جس نے مرکزی حکومتوں کے ذریعہ اس آرٹیکل کے وسیع اور مسلسل غلط استعمال کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد ممبئی کیس (1993ئ)میں یہ خدشہ تھا کہ جو ریاستیں بی جے پی کے زیرِ اقتدار تھیں ،جیسا کہ ہماچل پردیش ،مدہیہ پردیش اور راجھستان، سیکولرازم کی زیرِ قیادت نہیں چل پائیں گی،یہی جواز ان کے خاتمے کے لیے کافی تھا۔عدالت یہاں تک چلی گئی تھی کہ وہ یہ اعلان کردے کہ ریاستی اُمور میں مذہب کی مداخلت نہیں ؛عدالت کے مطابق’’کوئی بھی سیاسی پارٹی ایک ہی وقت میں مذہبی پارٹی نہیں ہوسکتی۔سیاست اور مذہب کو جوڑانہیں جاسکتا۔کوئی بھی ریاستی حکومت جو غیر سیکولرپالیسیاں یا غیر سیکولرعمل کے غیرضروری طریقہ کار پر عمل پیرا ہے، وہ آئینی مینڈیٹ کے برخلاف کام کرتی ہے اور خود کو آرٹیکل 356 کے تحت کارروائی کرنے پر مائل کرتی ہے‘‘ سیکولرازم کو مضبوط اور برقرار رکھنے کے اس پس منظر کے خلاف،سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا ایودھیا فیصلہ پریشان کن ہے۔یہاں ایک سوال پوچھے جانے کی ضرورت ہے ،اس سوال کا جواب بھی ضرور دیا جاناچاہیے کہ یہ فیصلہ ملک میں سیکولرازم کو مضبوط اور برقرار رکھ پائے گا؟یہ سوال گذشتہ برسوں میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اخلاقی تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔عدالت نے 22 دسمبر 1949ء کو بابری مسجد میں واضح طور پر رام لالہ کے بتوں کو رکھنا غلط قرار دیا تھا۔عدالت کا یہ بھی کہنا تھاکہ 6دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کو گرانا بھی غیر قانونی تھا۔ عدالتی احکام سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ سیکولرازم کو نظر انداز کیا گیا ہے؛درحقیقت یہ مکمل طورپر سیکولرازم کی نفی تھی۔کیامسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے ،عدلیہ کے حکم کے مطابق پانچ ایکڑ متبادل زمین دینا، کوئی مناسب معاوضہ یا متبادل ہے؟عبادت گاہ کے انہدام کے ذریعے مسلمانوں کو جو نفسیاتی تکلیف پہنچی ہے ،اُس کی بابت کیا خیال ہے؟عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ کم ازکم حکومت کو کہتی کہ وہ مسجد کی ازسرنوتعمیر کرے۔نرسمہارائو جو 6دسمبر1992ء میں مسجد کے انہدام کے وقت بھارت کے وزیرِ اعظم تھے ،اُنہوں نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اس طرح کا (مسجد کی ازسرنوتعمیر) اقرار کیا تھا۔اُنہوںنے بعد میں کئی مواقع پر کہا کہ وہ اپنے اقرار پر قائم ہیں اور اپنے وعدے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔حالیہ عرصہ میں تشددکی لہر کے زیرِ اثر کئی چرچ تباہ ہوئے ہیں ۔لہٰذا مَیں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ ایسا قانون بنایا جائے کہ جب کسی عبادت گاہ کو تشدد کے ہاتھوں جزوی طورپر یا مکمل طورپر نقصان پہنچے تو حکومت کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ اُس عبادت گاہ کی مرمت کرے ،دیکھ بھال کرے اور اگر اُس کو دوبارہ بھی تعمیر کرنا پڑے تو تعمیر کیا جائے۔سیکولرازم کا حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے اور اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے یہ ایک راستہ ہوگا۔خاص طورپر عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے میں پانچ ججوں کا اتفاقِ رائے ،ایک پریشان کن امر ہے۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے انڈیا میں سیکولرازم کی حدود متعین کی گئی ہے؟سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک تاثر یہ اُبھرتاہے کہ یہاں تک کہ اگر اکثریتی برادری قانون کو اپنے ہاتھ میں لے اور کسی بھی اقلیتی برادری کی عبادت گاہ کو تباہ اور نقصان پہنچا ہو،اس کا بدلہ مل سکتا ہے اور ریاست لاتعلق ہوسکتی ہے،یہ بہت ہی ناگوار ہے۔ایسے حالات میں متاثر اقلیت کا مایوس ہونا ،مستقبل کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ کسی بھی مہذب ملک میں اقلیتوں کے مفاد کا تحفظ ،اکثریتی برادری کی اولین ذمہ داری بنتی ہے۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد دسمبر 1992ء سے جنوری 1993ء تک فرقہ وارانہ فسادات اور 2002ء میں گجرات کے فسادات نے اس امر کی تصدیق کی ہے۔اقلیتوں میں عدمِ تحفظ کا احساس اُن کو آبای بڑھانے میں مائل کرتا ہے اور شناخت کی سیاست کو تقویت دیتا ہے۔ریاستوں اور مرکز کے مابین اختیارات کی تقسیم کے تحت یہ سارے اُمور ریاستی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔لیکن ان اہم خدشات کے خاتمے کے لیے ایک قومی پالیسی ہونی چاہیے جو اس مقصد کے لیے قانونی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ ترتیب دے۔لیکن بدقسمتی سے وفاقیت کے نام پراور ریاستی حکومتوں کے حقوق کے نام پر ،مذکورہ خدشات کو دور کرنا مشکل ترین عمل بنتا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم ، متعلقہ مرکزی وزراء اور ریاستی وزرائے اعلیٰ پر مبنی مشترکہ ریاستی کونسل کا آئینی فورم بھی ناکارہ ہوچکا ہے۔ تمام تر کمزوریوں کے باوجود جملہ جماعتوں کو اپنے دیرینہ تنازعات کے خاتمہ کے لیے فیصلے کو قبول کرنا ہوگا۔لیکن مذکورہ فیصلے کے جو مضمرات ہیں اُس پر آنے والے وقت میں بحث ہوتی رہے گی۔اس وقت ملک کو استحکام،سالمیت اور ہم آہنگی کا چیلنج درپیش ہے۔ (بہ شکریہ ’’ انڈین ایکسپریس‘‘ترجمہ :احمد اعجاز)