ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیے مگر وہ نین کہ تونے تھے جو نشیلے کیے کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے کچھ کرشما بھی ہوتا ہے اور کچھ سریلا پن بھی ہوتا ہے۔ بعض اوقات خوبصورتی اتنی سادہ ہوتی ہے کہ اس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔وہ سادگی اور پرکاری سے آگے نکتہ آفرینی اور تہہ داری بھی ہو سکتی ہے۔ اچھے شعر میں کوئی شے ہوتی ہے جو صاحبان دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور سخن ور کے پائوں پکڑ لیتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آغاز زمستاں میں رات گئے آپ کسی باغ کے چاہے باہر ہی سے گزریں تو دن کے راجے اور رات کی رانی کی مہک آپ کے پائوں کی زنجیر بن جاتی ہے یہ وارفتہ سی خوشی آپ کے مشام جاں کو معطر کر دیتی ہے۔ آپ توجہ دیں نہ دیں یہ ایک خود کار عمل ہے۔ ایسے ہی جیسے خود خوشبو کا معاملہ بہت بے ساختہ ہے: خوشبو دے وس وچ نہیں ہوندا وا چلے تے پھل وچ رہنا میں کل میر کو سن رہا تھا اس کی مشہور غزل جو مہدی حسن نے گائی ہے کہ ’’آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد‘ نہ وہی دشت میں باقی کوئی جا مرے بعد‘ اس غزل کے ایک شعر نے تو مجھے سر سے پائوں تک سرشار کر دیا اور میرکی عظمت میرے سامنے ایک مجسم صورت میں ڈھل کر مسکرانے لگی۔ ویسے ہی جیسے غالب نے کہا تھا’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں، دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا ‘ میر کہتے ہیں: منہ پہ رکھ دامن گل روئیں گے مرغان چمن ہر روش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد میں تو اس شعر کے تلازمات میں کھو گیا‘ اس کی خوبصورتیوں میں ڈوب گیا اور اس انداز پر فدا ہو گیا اسی باعث تو میر نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’پڑھتے پھریں گے میرؔ انہی ریختوں کو لوگ ۔ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں ’’میرا خیال ناصر کاظمی کی طرف بھی گیا اور انہیں ان کے ہمعصر’’میر ثانی کہتے تھے‘ ان کا معروف شعر بھی میر کے اثر میں نظر آیا: بیٹھ کر سایہ گل میں ناصرؔ ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا یہی تو خوبصورت شعر ہوتا ہے جو پھول کی طرح کھلتا ہے اور پھر خوشبو ہر سو پھیلتی چلی جاتی ہے۔ کبھی ہم نے بھی ایسے ہی محسوس کیا کہ پھول کی خوشبو تو اصل میں اس طراوت ،وہی جونمی اس کی پتیوں میں ہوتی ہے، اسے باد صبا لے اڑتی ہے۔ ہائے ہائے پھر درمیان میں میر نے سر اٹھا لیا اور میری طرف جھانکا کہ پھول کی بات کرتے ہوئے کہ ان کے ہوتے ہوئے کس کے پاس وہ نظر کہ کہہ دے: کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے پھر یہ بھی تو کہا تھا: ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے دیکھیے انہی چراغوں سے آگے چراغ جلتے ہیں۔ فراز نے بھی کیا خوب کہا تھا: ان کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی مجھے ایک مشاعرہ یاد ہے جس میں عالیہ امام میرے ایک شعر پر مجھے کہنے لگیں’’سعد تمہارے اس شعر پر فیض ہوتے تو بہت داد دیتے: سخت کافر ہیں وہ جو رکھتے ہیں نشۂ چشم کو شراب کے ساتھ مجھے نہیں پتہ کہ کالم کدھر سے کدھر نکل گیا۔ بس شعر کا ذکر چلے تو پھر بات قابو میں کہاں رہتی ہے۔ میرے قارئین تو مجھے اکثر فون کرتے ہیں کہ آپ کبھی کبھی ادبی رنگ میں لکھا کریں۔ خیر وہ شعر تو درمیان میں رہ گیا جو ہم نے گلاب کی بے بسی دیکھ کر خوشبو میں نہاتے ہوئے کہا تھا: میں نے دیکھا ہے کہ وہ خود ہی بکھر جاتا ہے سعدؔ جب پھول سے خوشبو نہ سنبھالی جائے پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ اس سوال کا جواب استاد الاساتذہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا دے سکیں گے کہ میر ہمیں متاثر کرتا ہے اور غالب سے ہم متاثر ہوتے ہیں۔ دوسرا متاثر ہونا شاید مغلوب ہونے کے معنوں میں آتا ہے اور میر کا متاثر کرنا اسیر کرنے کے معنوں میں ہے۔ شاید وہی بات کہ میر بہت اوریجنل ہے اور غالب استاد فنکار۔ آپ کبھی غور کریں کہ منیر نیازی بھی اپنے کینوس پر یا اپنے رنگوں میں جدا اور منفرد ہے اور مجید امجد کی اپنی اقلیم سخن ہے۔ میرؔ کے ایک شعر نے تو دبستان کھول دیا۔ بقول منیر نیازی کے ’’طبلۂ عطار کھل گیا‘‘ ایک مصرع تو بہت شرارتی ہے ’’چھیڑا جو میں نے یار کو تو یار کھل گیا‘‘ سنا ہے میرؔ ایک کمرے میں قیام پذیر تھے۔ کسی نے توجہ دلائی کہ انہوں نے کمرے کی کھڑکی کافی دن نہیں کھولی جبکہ یہ باغ میں کھلتی ہے۔ میر نے کہا کہ باغ تو ان کے اندر ہے۔ تبھی تو میر نے کہا تھا’’پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے‘‘ایک اور غزل کا ایک مصرع میرے ذہن کے ساتھ چپکا ہوا ہے کہ میرؔ باغ میں جاتے تو دعویٰ کرتے تھے’’پہلے میں جاتا تھا اور باد صبا میرے بعد‘‘۔ گویا میرؔ کو باغ کے ساتھ ایک تعلق خاص تھا: گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میر بلبل پکاری دیکھیے صاحب پرے پرے اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ بات کہاں ختم کرنی چاہیے۔ میرا خیال کہ میرؔ کے ہی ایک خوبصورت شعر سے کالم تمام کرتے ہیں۔ یہ شعر ساری عمر میرے شامل حال رہا اور میرا پسندیدہ شعر ہے: آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے