دل تو کہہ رہا تھا کہ کالم کا عنوان رکھوں۔ آؤ بچو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی، مگر عقل نہ مانی،کیونکہ سارے پاکستان اور سارے پاکستانیوں کو ایک ہی تکڑی میں نہیں تولا جا سکتا، آج میں ان لوگوں کی توجہ بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں جو اخبارات اور چینلز پر بڑے انہماک اور توجہ سے خبریں پڑھتے اور سنتے ہیں اور پھر اگلی خبریں شروع ہونے سے پہلے پچھلی ساری خبریں بھول چکے ہوتے ہیں، ہماری سماجی بے حسی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، ہم سب صرف اپنے اپنے لئے جی رہے ہیں اور دوسروں کا تماشہ دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہیں، ہم جس معاشرت میں زندہ ہیں اس کی اہمیت اور حیثیت کسی دو گھنٹے کی فلم سے زیادہ نہیں۔ آٹھ مارچ کو ساری دنیا بشمول پاکستان میںعورتوں کا عالمی دن منایا گیا، اس دن کو کم از کم پاکستان میں عورتوں سے زیادہ مردوں نے منایا، کچھ میڈیا ہاؤسز نے چند گھنٹوں کے لئے مرد کارکنوں کی کرسیوں پر خواتین کو بٹھا کر اپنی قومی ذمہ داری پوری کی، اور کئی کام کرنے والے مقامات پرخواتین سے ہی منگوائے گئے کیک انہیں سے کٹوا کر خواتین کی تکریم کی گئی۔ کسی کو بھی یاد نہ تھا کہ اس عالمی دن کے انعقاد سے صرف دو دن پہلے یعنی چھ مارچ کو خواتین کے اس عظیم وکیل کو قتل کیا گیا جس نے سن دو ہزار بارہ میں پانچ معصوم اور بے گناہ عورتوں کو غیرت کے نام پر ذبح کئے جانے کی شہادت دی تھی اور اس نے اپنی اس جرأت کے بدلے میں پہلے اپنے تین بھائیوں کو قتل ہوتے دیکھا مگر وہ یہ جاننے کے باوجود کہ تین بھائیوں کے بعد مرنے کی باری اس کی ہے، مکمل استقامت کے ساتھ کھڑا رہا اور عورتوں کو فرسودہ اور ظالمانہ رسموں کی بھینٹ چڑھتے رہنے سے بچانے کی جنگ لڑتا رہا، عورتوں کے عالمی دن پر افضل کوہستانی کو بھی سماج اور میڈیا میں خراج عقیدت پیش کیا جانا بہت ضروری تھا کیونکہ خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں وہ پہلا مرد تھا جس نے غیرت کے نام پر صدیوں سے جاری قتل عام پر نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ خود اپنے نام اور شکل کے ساتھ سامنے بھی آیا ، سات سال پہلے وائرل ہونے والی اس ویڈیو کو میں نے بھی بار بار دیکھا تھا۔۔ جس میں نظر آ رہا تھا کہ کسی عام سے گھرانے میں شادی کی تقریب ہو رہی ہے اور اس تقریب میں دو نوجوان روایتی سرحدی رقص کر رہے ہیں، شادی میں آئے ہوئے مہمان اور گھر والے زمین پر بیٹھ کر ان دو بچوں کا روایتی رقص دیکھتے ہوئے تالیاں بجا رہے تھے، زمین پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں چار عورتیں ایسی بھی نظر آرہی تھیں جنہوں نے اپنے چہروں سمیت سارے جسم کو ٹوپی برقعہ سے ڈھانپ رکھا تھا، ان چار عورتوں جن کے نام بیگم بازغہ، بیگم سرین ،بیگم جان اور آمنہ بی بی تھے کے ہمراہ ایک چھوٹی عمر کی بچی بھی بیٹھی تھی جس کا نام تھا شاہین، وائرل ہونے والی ویڈیو میں ان خواتین کو ایک بار تالی بجاتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا، شادی میں موجود کسی مہمان نے اپنے موبائل سے اس تقریب کی ویڈیو بنائی اور نیٹ پر چڑھا دی تھی، یہ بات کوہستان کے وڈیروں تک پہنچ گئی جنہوں نے ان چاروں عورتوں اور پانچویں بچی کو بھی جرگے میں طلب کر لیا، جرگے نے ان پانچوں کو سزائے موت سنادی۔ فیصلے کے بعد ان خواتین کو ایک کھلے میدان میں لیجایا گیا اور انہیں ذبح کرکے ان کی گردنیں تن سے جدا کردی گئیں۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ چار دن پہلے کوہستان میں قتل ہوجانے والے افضل کوہستانی نامی شہری نے شادی کی اس ویڈیو کو اس خبر کے ساتھ دوبارہ وائرل کیا کہ اس میں نظر آنیوالی چاروں عورتوں اور پانچویں بچی کو تالیاں بجانے کے جرم میں سزائے موت دیدی گئی ہے، ان دنوں جسٹس افتخار چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان تھے انہوں نے اس واقعہ پر تحقیقاتی کمیشن قائم کیا کہ وہ کوہستان جائے اور اس سانحہ کی انکوائری رپورٹ پیش کرے، چند دنوں کے بعد سپریم کورٹ میں انکوائری رپورٹ جمع کرا دی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ کوہستان میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں، اس رپورٹ میں یہاں تک من گھڑت جھوٹ لکھ دیا گیا کہ جن عورتوں کے قتل کئے جانے کی بات کی جا رہی ہے ان میں سے ایک زندہ عورت کی ان سے بات بھی ہوئی ہے۔ اسکے بعد افضل کوہستانی کی کاوشوں سے ایک اور تحقیقاتی کمیشن بنا جس کی رپورٹ یہ تھی کہ تین عورتوں کو قتل کیا گیا تھا دو ابھی زندہ ہیں، افضل کوہستانی کا پھر بھی اصرار رہا کہ تین نہیں پانچ عورتیں قتل کی گئیں ۔ اس رپورٹ کے بعد درج شدہ مقدمے کی روشنی میں چھ ملزم گرفتار ہوئے، ڈسٹرکٹ سیشن جج نے ایک ملزم کو سزائے موت اور باقیوں کو عمر قید اور جرمانوں کی سزائیں سنائیں لیکن بعد میں پشاور ہائی کورٹ سے ملزم بری ہو گئے۔ افضل کوہستانی نے پھر بھی ہمت نہ ہاری ،وہ ان بے گناہ اور معصوم عورتوں کے قاتلوں کو سزا اور سزاؤں پر عمل درآمد ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا، اس کی کوششیں رنگ لا رہی تھیں ،اب پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک خاتون فرزانہ باری نے اس رپورٹ کو چیلنج کر دیا،اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری ریٹائر اور جسٹس ثاقب نثار نئے چیف جسٹس پاکستان بن چکے تھے، فرزانہ باری نئی تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ کے پی کے کے ضلع کوہستان کے اس پسماندہ گاؤں پہنچیں جہاں یہ سانحہ رونما ہوا تھا، فرزانہ باری اور ان کے ساتھیوں کو اس واقعہ کی سچائی میں کئی شہادتیں اور ثبوت مل گئے، یہاں تک کہ ایک ماری جانے والی عورت کے رشتہ دار کا ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کیا گیا،،،، نئی تحقیقاتی ٹیم نے جو رپورٹ سپریم کورٹ کو دی وہ ناقابل تردید تھی، عدالتی حکم پر چھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے اعتراف جرم بھی کر لیا،اب جبکہ افضل کوہستانی اپنی سات سالہ جدوجہد اور تین بھائیوں کے قتل کی قربانی کے بعد سرخرو ہو رہا تھا اسے قتل کر دیا گیا ہے، پولیس نے اس کے قتل کے الزام میں اسی کے ایک بھتیجے کو گرفتار کرلیا، کوہستان میں احتجاج شروع ہوا تو پولیس نے اعلان کر دیا کہ افضل کوہستانی کے قتل کا مرکزی ملزم معصوم خان پکڑ لیا گیا ہے باقی مفرور ہیں۔ یہ جو ساری داستان میں نے آپ کو سنائی ہے اس کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا پہلو یہ ہے کہ سات سال پہلے پانچ عورتوں کے قتل کے موقع پر مقامی تھانے کا جو انچارج تھا وہی آج بھی اس تھانے کا سربراہ ہے۔۔ افضل کوہستانی کے قتل کے بعد اس کے کسی دوست نے اس کی حال ہی میں ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو وائرل کی ہے جس میں افضل بتا رہا ہے کہ اسے تھانہ سٹی ایبٹ آباد میں بہانے سے بلوایا گیا جہاں اس پر بے پناہ تشدد کیا گیا، اسے ایک دو نہیں تھانیدار سمیت کئی اہلکاروں نے تختہ مشق بنایا، اس سے ایک تحریر پر دستخط کرائے گئے اور قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں، پتہ چل رہا ہے کہ یہ ویڈیو اس نے اپنے قتل سے ایک دو دن پہلے ہی ریکارڈ کرائی تھی، اس ویڈیو میں وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ میں سات سال سے موت کے شکنجے میں ہوں، مجھے عمران خان کی حکومت سے انصاف کی توقع تھی مگر یہ میری خام خیالی ہی نکلی۔ افضل کوہستانی کے دو بھائی اور بھی تھے جو سن دو ہزار بارہ کی اس خونی شادی میں شریک تھے، افضل نے انہیں روپوش کرا دیا تھا وہ نہ جانے کہاں زندگی کے کٹھن دن گزار رہے تھے، افضل کے قتل کے بعد وہ دونوں واپس اپنے گاؤں آ گئے ہیں اور وہاں ہونے والے احتجاج میں بھی شریک ہوئے اب اللہ ہی جانے کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا؟ ٭٭٭٭٭ سن دو ہزار بارہ میں جب یہ واقعہ ہوا تھا ان دنوں افضل کوہستانی ایک وکیل کے ساتھ کلرکی کر رہا تھا اور خود بھی وکالت پڑھ رہا تھا،اس کا خاندان علاقے کا ایک بڑا زمیندار گھرانہ سمجھا جاتا تھا لیکن جب افضل قتل کی جانے والی پانچ عورتوں کا مقدمہ لے کر سامنے آیا تو اس کے خاندان کو جبری طور پر علاقہ بدر کر دیا گیا تھا، جس کے بعد یہ خاندان پیسے پیسے کو ترس گیا، مقتول کی دو بیویوں سے پانچ بچے تھے اور وہ اپنے مشن کے دوران قتل ہوجانے والے تین بھائیوں کے تیرہ بچوں کا بھی کفیل تھا، قتل سے تین چار دن پہلے اس نے اپنے دوستوں کو فون کرکے ان سے درخواست کی تھی کہ اسکا گھرانہ کھانے کیلئے دال روٹی سے بھی محروم ہو چکا ہے، ہم لوگ کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے، اس کی نوکری کا بندوبست کریں چاہے وہ دس ہزار روپے کی ہی ہو، میں برتن بھی دھو سکتا ہوں، میں لوگوں کے کپڑے بھی دھو لوں گا…