بچی گلی میں کھیل رہی تھی۔ گھر والے بے نیاز تھے۔ آئے دن اغوا کی خبریں پڑھنے اور سننے کے باوجود کسی نے فکر نہیں کی کہ باہر جا کر اسے دیکھے یا واپس گھر بلائے یا کسی بڑے کو، کسی ملازم کو، باہر کھڑا کرے کہ جب تک بچی کھیل رہی ہے، اس کا دھیان رکھے! بچی اغوا ہو گئی۔ ڈھنڈیا پڑی۔ مسجدوں سے اعلان کرائے گئے۔ پھر پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ درج کرائی گئی۔ تھانے پر دبائو ڈالا اور ڈلوایاگیا ۔ فرض کیجئے بچی مل گی۔ اغوا کار پکڑا گیا۔ اب یہاں معاملے کے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ پہلا حکومت کا اور دوسرا گھر والوں کا رویہ! ان دونوں رویوں کا بچی کے مستقبل سے گہرا تعلق ہے۔ اگر حکومت بے نیازی برتتی ہے (یہاں حکومت سے مراد پولیس اور عدالت ہے) تو ملزم چھوٹ جائے گا! اگر بچی کے والدین اس حادثے سے سبق نہیں سیکھتے اور بچی، یا اس کی بہن یا چھوٹا بھائی، یا گلی کی اور کوئی بچی، اسی طرح پھر کھیلتی پائی جاتی ہے اور گم ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلی بچی کے اغوا کے وقت کھڑے تھے۔ کیا حکومت اور بچی کے گھر والے، مستقبل کے لئے پیش بندی کر سکتے ہیں؟ جی ہاں! اگر دونوں فریق عزم کر لیتے ہیں کہ آئندہ ایسا واقعہ رونما نہ ہو تو ان کے رویے یکسر مختلف ہوں گے۔ حکومت اغوا کار کو سخت ترین سزا دے گی۔ اگر قانون میں سخت سزا کی گنجائش نہیں تو حکومت فی الفور قانون سازی کرکے سزا تبدیل کرائے گی۔ فرض کیجئے، نئی سزا، پھانسی ہے اور مختصر ترین وقت میں یہ سزا سنا کر اس پر عمل درآمد کر دیا جاتا ہے، پھر اس سزا کی خوب خوب تشہیر کی جاتی ہے تو حکومت نے اپنا فرض ادا کیا۔ اغواکاروں کی کثیر تعداد پھانسی کے خوف سے یہ دھندا ترک کر دے گی! دوسرا فریق بھی، رویہ بدلتا ہے۔ پورا محلہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسی کم سن بچی یا بچے کو آئندہ گلی میں کھیلنے نہیں دیا جائے گا یا اس کی نگرانی کی جائے گی۔ اہل محلہ یہ بھی طے کرتے ہیں کہ کسی بھی اجنبی سے پوچھ گچھ کی جائے گی کہ وہ کون ہے اور یہاں کیوں پایا جا رہا ہے۔ دونوں فریقوں کی طرف سے یہ ردعمل ، جرم کی مکمل بیخ کنی نہیں بھی کر سکتا تو یقیناً جرم کے صدور کو انتہائی مشکل بنا سکتا ہے! ہمارے سامنے آج کے اخبارات میں شائع شدہ خبر ہے۔ گیارہ سالہ بچی درس کے لئے مسجد جاتی ہے۔ جہاں قاری کے ساتھ والے کمرے میں دو نوجوان بچی کو زبردستی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے، بچی کو چھریاں دکھا کر زبان بند رکھنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ بچی کی والدہ کی مدعیت میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا۔ دو میں سے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا، دو ہفتے ہوئے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک قاری چھوٹے سے بچے کو چھت سے الٹا لٹکا کر تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا اور بچہ مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ پولیس نے اس قاری کو گرفتار کر لیا۔ کچھ عرصہ ہوا، کراچی میں ایک دس سالہ بچہ قاری کے تشدد کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گیا۔ یہ خبر بھی وائرل ہوئی تھی۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے یا کسی نہ کسی طرح میڈیا کے ہتھے چڑھ گئے۔ احمق سے احمق شخص بھی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایسے واقعات کی حقیقی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں پھر دو فریق ہیں۔ حکومت (یعنی پولیس اور عدالتیں) اور والدین! سوال یہ ہے کہ دونوں فریق اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں یا پھر نہیں؟ آئیڈیل صورتحال تو یہ ہونی چاہئے کہ حکومت سخت ترین سزائیں دے۔ بچے کو ہلاک کرنے والے نام نہاد استاد کو اور گیارہ سالہ بچی کی آبرو ریزی کرنے والے دونوں بھیڑیوں کو پھانسی چڑھا کر، پھانسی کے منظر کی ویڈیو وائرل کی جائے۔ جس نام نہاد استاد نے کم سن بچے کو چھت سے الٹا لٹکایا، اسے بھی عبرت ناک سزا دی جائے۔ مگر کیا ایسا ہو گا؟ آپ کو بھی معلوم ہے اور ان سطور کے لکھنے والے کو بھی کہ ایسا نہیں ہو گا! انصاف ہوا بھی تو تاخیر سے ہو گا۔ ہوتا نظر بھی نہیں آئے گا۔ یہ انصاف، یا یہ سزا اتنی برائے نام ہو گی اور سزا کا طریقہ اور سٹائل اتنا بیکار ہو گا کہ کسی کو عبرت نہیں ہو گی! ایسے واقعات صادر ہوتے رہیں گے۔ بچے ہلاک ہوتے رہیں گے۔ بھیڑیے اور کتے، انسانی شکل اختیار کرکے، بچیوں کو بھنبھوڑتے رہیں گے۔ چیرتے پھاڑتے رہیں گے! عبرت ناک سزا دینا اور عبرت ناک سزا کو ممکن بنانے کے لئے قانون سازی کرنا حکومت کا اولین فریضہ ہے۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ بچوں کی قرآنی تعلیم کے لئے جلد ازجلد متبادل انتظام کرے۔ آخر قرآن مجید سکولوں میں کیوں نہیں پڑھایا جاتا؟ پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم مکمل ہو جانی چاہئے۔ رہا حفظ کا معاملہ! تو اگر ایک بار قاری کے ساتھ مدرسہ کے مہتمم کو بھی عبرت ناک سزا دی جائے تو اس وحشت کا سدباب کیا جا سکتا ہے! والدین ان پڑھ ہیں یا غریب، ذمہ داری سے مبرا نہیں قرار دیے جا سکتے۔ اگر خود انہیں احساس نہیں تو حکومت اور معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ والدین کو باور کرانا ہو گا کہ کم سن بچوں اور بچیوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ محلوں میں خواتین بھی قرآن پاک پڑھاتی ہیں۔ بچوں کو ان کے گھروں میں بھیجنا چاہئے۔ وہاں بھی خطرات، ہوں گے تو سہی مگر ظاہر ہے کم ہوں گے۔ یہاں ایک تیسرا فریق بھی ہے اور بدقسمتی سے اس فریق کا رویہ نہ صرف غیرمنصفانہ بلکہ جارحانہ ہے۔ یہ اہل مدرسہ کا، یا دوسرے لفظوں میں مذہبی تعلیم کے علمبرداروں کا رویہ ہے۔ یہ حضرات اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔ اپنی صفوں میں پائے جانے والے اُن بھیڑیوں کی مذمت نہیں کرتے جو بھیڑ کی کھال اوڑھے ہوتے ہیں۔ مذمت تو کیا کریں گے، ان کے جرائم کو ڈھانکتے ہیں۔ چند برس پہلے وفاقی دارالحکومت میں ایک غیر مسلم بچی پر قرآن پاک کے اوراق کی بے حرمتی کا الزام سامنے آیا تھا۔ تحقیق کی گئی تو میڈیا نے بتایا کہ ایک نام نہاد مولوی ملوث تھا۔ کسی کو خبر نہیں کہ اسے سزا دی گئی یا نہیں! یہ حضرات ہمیشہ نہیں تو اکثر، ناروا دفاع کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ایسا کرنے سے ان کی عزت و توقیر کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اس تحریر کے ردعمل میں بھی عجیب و غریب دلائل دیئے جائیں گے مثلاً یہ کے محض ’’لبرلز اور سیکولر‘‘ لوگوں کا پروپیگنڈا ہے اور یہ کہ کم سن بچوں کو قتل اور اغوا گلیوں بازاروں میں بھی کیا جا رہا ہے تو صرف مدارس میں پیش آنے والے واقعات پر تشویش کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے! اگر ایسا کیا گیا تو عذرلنگ کے سوا اس رویے کو کیا کہا جا سکتا ہے! ہمیں یقین ہے کہ ثقہ اور بلند پایہ علماء کرام مدارس اور مساجد میں ہونے والے اس ظلم کو ظلم ہی قرار دیں گے۔ اس کے تدارک کی فکر کریں گے، مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مکروہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کریں گے اور اس ضمن میں قانون کی بھرپور مدد کریں گے۔