گزشتہ بدھ کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ’’ ہم ایک ہیں‘‘ کے عنوان سے تقریب ہوئی جس کا بنیادی مقصد، گزشتہ سال پلوامہ حملہ اور اسکی آڑ میں بھارت کی طرف سے فضائی حملے کی کوشش اور اسکا نپا تلا لیکن مؤ ثر جواب دیا، اس حوالے پاکستان کے تمام طبقہ ہائے فکر ، حکومت اور فوج نے جو کردار ادا کیا انکو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان کی طرف سے بھارت کی ہر قسم کی انگیخت کے باوجود ایک میچور رسپانس کا ذکر کرتے ہوئے جہاں فوج اور میڈیا کی تعریف کی وہیں انہوں نے سیاسی جماعتوں کے کردار کو بھی سراہا کہ تمام تر اختلافا ت کے باوجود انہوں نے اس موقع پر یکجا ہو کر بھارت کو خصوصاً اور دنیا کو عموماً ایک بھرپور یکجہتی کا پیغام دیا۔ بھارت کی طرف سے جنگی ماحول پیدا کرنے کی پوری کوشش کے باوجود پاکستان نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا اور اسکو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔ وزیر اعظم کے بقول اگر آج صدر ٹرمپ بھارت میں کھڑے ہو کر پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں تو اسکی وجہ یہی ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنا تشخص بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے پوری دنیا کو یہ بتاتے سنا ہے کہ پاکستان کو اس طرح کرنا چاہئے، یہ کیوں کر رہا ہے ، وہ کیوں نہیں کرتا۔کبھی داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں کہ روس کے ٹکڑے کر دئیے کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میںہمیں دنیا کی فرنٹ لائن سٹیٹ ہونے کا مثردہ سنایا جاتا ہے اور پھر ہمیں طالبان کو تخلیق کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔امریکہ اور اسکے حواریوں نے روس کے خلاف جنگ کے وقت اسلام کا جو تصور جہاد کی آڑ میں تشکیل دیا اس میں پاکستان کا کبھی کوئی کردار نہیں رہا، یہ تو اولیاء کی سرزمین رہی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ محبت سے یہاں پر اسلام نے فروغ پایا۔ ہم سے یہ غلطی ضرور ہوئی کہ ہم نے برادر اسلامی ملک کی محبت میں اسلام کے اس تصور کو پنپنے دیا جس کے نتیجے میں مسلح جتھے بنے جو پہلے پہل تو افغان جہاد میں شامل رہے پھر وہ طالبان کا حصہ بن گئے۔ نائن الیون کے بعد دنیا تبدیل بھلے نہ ہوئی ہو لیکن پاکستان تبدیل ہو گیا۔ ہم دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کیا بنے کہ آگ و بارود میں لپٹ کے رہ گئے۔گزشتہ سترہ سال میں، عزم، ہمت، حوصلے صبر اور شجاعت کی پاکستان کی قوم نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ دنیا میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ اگر پاکستان کی قوم اسکے سکیورٹی اداروںاور سب سے بڑھ کر فوج میں یہ طاقت اور استطاعت نہ ہوتی تو آج افغانستان امریکہ اور مغربی دنیا کے لئے ایک اور ویتنام بن چکا ہوتا۔ نہ کوئی امن مذاکرات ہوتے جس کے نتیجے میں کل امریکہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے جا رہا ہے۔ یہ نہ ہوتا تو کبھی امریکہ افغانستان سے باعزت نکلنے کی خواہش پوری کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ ہم یہ جنگ تقریباً جیت چکے ہیں، ہم نفرتوں کو ختم کر رہے ہیں، محبتوں کا سلسلہ شروع کرنے کو ہیں جہاں سے جنرل ضیاء کے زمانے میں اسے توڑا گیا تھا۔ہم دہشت گردوں اور دہشت گردی کو پچھاڑ چکے ہیں۔اب اس نفرت کے زہر کو معاشرے سے نکالنے کا کام شروع کر چکے ہیں جو اس ساری خرابی کا باعث بنا۔ہم نے بہت کچھ سن لیا، ڈو مور سے لے کر، ناکام ریاست کے طعنے، ہماری بہادر اور پیشہ ور افواج کے خلاف ہرزہ سرائی، پاکستان کو توڑنے کی مختلف سازشیںہم دیکھ چکے ہیں۔لیکن اب بس، بہت سن لیا بہت برداشت کر لیا۔ اب دنیا کو ہماری بات سننی ہے۔سچی بات۔ سچی بات یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے کاسہء لیسوں نے انکی بہت خدمت کر لی۔ انکے کرتوتوں کو مٹاتے مٹاتے ہم خود مٹنے تک پہنچ چکے تھے وہ تو بھلا ہو ان بہادروں کا جنہوں نے اس صورتحال میں ہار نہیںمانی اور بازی پلٹ دی۔ جب ملک صحیح سمت میں بڑھ رہا ہے تو پھر ان لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے جو ہمیں دوسروں کا دست نگر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور وہ انٹر نیشنل کھلاڑی جو ہمیں کشکول لئے اپنے سامنے دست بستہ دیکھنا چاہتے ہیں۔آ خری ہتھیار کے طور پر انہوں نے ہمارے پڑوسی نریندر مودی کو داغا ہے ۔ لیکن یہ ہتھیار بھی کارگر ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ سازش کرنے والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب کسی سازشی کی دال یہاں نہیں گلنے والی۔ہم جس راستے پر چل نکلے ہیں اس میں ہمیں ایسی قیادت میسر ہے کہ ہمارا راستہ کھوٹا کرنے والوں کے دانت کھٹے ہوں گے۔ پاکستان کی قوم ، سیاسی اور فوجی قیادت میں اس بات پر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ ہم نے ملک سے، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔یہ بات دعووں کی حد تک نہیں بلکہ عملی اقدامات کی صورت میں عیاں ہو رہی ہے۔ نئے پاکستان کی سنو، کیونکہ ہم امن کے دعویدار ہیں، ہم سچائی اور انسانیت کی بھلائی کے دعویدار ہیں۔ ہم منزل کا تعین کر چکے ہیں اور دنیا ہمارے ٹیررازم سے ٹورازم تک کے سفر کو تسلیم کر رہی ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد، سری لنکا اور پھر بنگلہ دیش کرکٹ ٹیموں کا دورہ اور 20فروری سے شروع ہونے والا پاکستان سپر لیگ ٹورنامنٹ جس میں بیشمار غیر ملکی کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک میں امن قائم ہو چکا ہے۔ ہر اس شخص یا تنظیم کا ناطقہ بند ہو چکا ہے جو پاکستان کو کسی نہ کسی طور دہشت کا نشانہ بناتے رہے اور ہماری ساکھ دنیا بھر میں خراب کرنے کا باعث بنے۔ایف اے ٹی ایف نے اپنے گزشتہ دو اجلاسوں میں پاکستان کی طرف سے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنڈنگ کو روکنے کی کاوشوں کو تسلیم کیا ہے ۔ امید رکھنی چاہئے کہ جون میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے جائزہ اجلاس میں ہم ان تمام معیارات پر پورا اتر چکے ہونگے جو گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے ضروری ہیں۔