کچھ کم نہیں ہے وصل سے یہ ہجر یار بھی آنکھوں نے آج دھو دیا دل کا غبار بھی اپنے نقوش پا کے سوا کچھ نہیں ملا اپنے سوا کوئی نہیں صحرا کے پار بھی آج دل میں ٹھانی تھی کہ کوئی ہلکا پھلکا کالم لکھا جائے کہ روٹین کوتوڑنا بھی اچھا لگتا ہے۔ غالب نے بھی تو کہا تھا کہ کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل۔ انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔ ایک پوسٹ محمد عباس مرزا کی نظر سے گزری جس پر انہوں نے ایک معصومانہ سا سوال کیا کہ کوئی انصاف پسند یہ تو بتائے کہ آخر 20 کلو آٹے کا تھیلا 860 روپے میں کیوں دستیاب نہیں۔ مرزا صاحب بھی شاعر ہی نکلے کہ شاعرانہ باتیں کرتے ہیں۔ لگتا ہے وہ اخبار نہیں پڑھتے۔ آج بھی عثمان بزدار نے کہا ہے کہ بیس کلو آٹا 860 روپے میں دستیاب ہے۔ آدمی کو کسی کی بات کا تو یقین کر لینا چاہیے۔ ایک مرتبہ ملا نصیرالدین سے کوئی گدھا ادھار مانگنے آیا تو ملا نے کہا گدھا تو گھر نہیں۔ اتنے میں گدھا اندر سے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگا۔ آنے والے شخص نے کہا کہ ملا تم تو بہت جھوٹے ہو۔ ملا نے یک دم کہا تمہیں تو گدھا کسی صورت میں نہیں مل سکتا کہ تم نے میری زبان کا اعتبار نہیں کیا اور گدھے پر یقین کرلیا۔ آٹے کے ذکر سے مجھے وہ ادیب بھی یاد آ گیا کہ جس نے بادشاہ کی تقریر لکھتے ہوئے بے خیالی میں لکھ دیا آٹا ندارد۔ بادشاہ پڑھ کر حیران ہوا کہ یہ بے ربط جملہ کدھر آ گیا۔ وزیر باتدبیر نے کہ کہ اس شریف آدمی کے گھر آٹا نہیں ہے لہٰذا آٹا بھجوا دیا گیا۔ بہرحال سرکار تسلسل کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ بیس کلو والا تھیلا کنٹرول ریٹ پر دستیاب ہے۔ اب اللہ ہی جانے کہ یہ کہاں سے ملے گا۔ جب شہبازشریف نے دو روپے کی روٹی کردی تو دکانداروں نے کنٹرول ریٹ پر آٹا اٹھایا اور روٹی کی دستیابی نہ تھی کہ نان بائی جلی ہوئی کچی روٹیوں کا ڈھیر لگا لیتا تھا کہ دو روپے والے اس ڈھیر میں سے اٹھا لیں۔ خمیری روٹی تب چھ روپے کی تھی۔ کچھ ہم بھی تو اس طرح کے ہیں۔ صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں۔ جب ٹرکوں پر 300 روپے کا تھیلا غریبوں کو لائن میں کھڑا کر کے دیا جاتا تھا تو دکانداروں نے مزدور دیہاڑی پر لے کر لائن میں کھڑے کرنا شروع کردیئے۔ اب بتائیے انسانیت کہاں ہے۔ہمیںبھی اپنے رویوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ازہر درانی یاد آئے: گوالا لاکھ کھائے جائے قسمیں مگر اس دودھ میں پانی بہت ہے میرے معزز قارئین! میں نے شروع ہی میں کہا تھا کہ ہلکا پھلکا پروگرام رکھنا ہے کہ ایک عجیب سے خبر میرے سامنے آ گئی کہ میانمار میں ایک لڑکی کی اتنی پتلی کمر ہے کہ دیکھنے والے چکرا جائیں۔ کیسی ستم ظریف ہے اس کمر کی پیمائش بھی کرڈالی جس کا سائز 13.7 ہے۔ لکھا ہے کہ یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ وراثت میں ہے۔ لڑکی کی عمر بائیس سال ہے۔ حیرت کی بات تو یہ کہ ایسی کمر شاعروں کی تو آئیڈیل ہے کہ سنا ہے ان کی بھی کوئی کمر سے۔ کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے۔ مجھے تو دبستان لکھنو اور دبستان دہلی کے دو شاعروں کی لڑائی یاد آ گئی۔ پہلے تو دہلی والے نے لکھنو کے بانکوں کی نازک مزاجی پر چوٹ کی کہ: کیلا کھانے سے مرے دانت ہلے جاتے ہیں فرش مخمل پہ مرے پائوں چھلے جاتے ہیں ویسے لکھنو میں کوچوان تک ایسی ہی زبان بولتے ہیں۔ ایک مرتبہ مجھے حسن رضوی نے بتایا کہ اس نے ایک کوچوان سے کہا کہ گھوڑا بہت آہستہ چل رہا ہے۔ کوچوان نے کہا حضور بس کم خوراکی وجہ سے لاغر ہوگیا ہے۔ آج بھی انہوں نے کچھ تناول نہیں فرمایا۔ خیر بات ہورہی ہے شاعروں کی لڑائی کی۔ دہلی والے نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور جواب لکھ بھیجا: یہ دلی کے شاعر یہ الو کے پٹھے رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں سنا ہے کہ ان کی کمر تک نہیں ہے نہ جانے وہ نالہ کہاں باندھتے ہیں جو بھی ہے کمر تو پتلی ہی پسند کی جاتی ہے جو بعض وقت گزرنے کے ساتھ کمرے میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ دیکھئے کمر ہی سے مجھے ایک مبالغے کا شعر یاد آ گیا: کل رات یاد یار میں رویا میں اس قدر چوتھے فلک پر پہنچا پانی کمر کمر یہ محاوروں میں خوب استعمال ہوتی ہے جیسے کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی یا اکثر حکومت کہتی ہے کہ اس نے دہشتگردوںکی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کمر کسنا بھی محاورہ ہے۔ چیتے جیسی کمر کا بھی ادب میں استعمال ملتا ہے۔ یعنی لچکیلی کمر۔ ویسے آج کل کیسی کیسی خبریں آتی ہیں۔ لکھا تھا کہ میاں بیوی کی لڑائی دیکھتے ہوئے ایک شخص اینٹ لگنے سے چل بسا۔ ظاہر ہے اینٹ ہاتھ سے گئی تو نشانہ خطا بھی ہو جاتا ہے۔ ایک اور خبر ہمیں اچھی لگی کہ انداز شاعرانہ تھا کہ سراج الحق نے قافیہ آرائی کی تھی۔ فرماتے ہیں حکومتی پالیسیوں سے عوام کا جینا محال‘ صنعتکار بدحال اور تاجر کنگال۔ یہ ہوتی ہے نثر میں شاعری۔ تقریر میں ادبیت آ جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ وگرنہ سیاست میں تو جہالت ہی جہالت ہے اور اکثر جہل مرکب۔ سراج الحق نے مزید بات کی تو پھر محاورہ استعمال کیا کہ حکومت عوام کو سبز باغ دکھا رہی ہے۔ بہرحال یہ بات تشویشناک ہے کہ آئندہ باہر کی ادائیگی کے لیے مزید سودی قرضے لینا پڑیں گے۔ ویسے پہلے تو حکومتیں اکٹھے کرتی تھیں۔ اب یہ کام تقریباً آئی ایم ایف نے سنبھال لیا ہے مگر کالم کو بوجھل نہیں کیا جاسکتا کہ آج تو مزے مزے کی باتیں کرنا ہیں۔ ویسے تو عوام بھی بڑے مزے میں ہے۔ ویسے کیا گردش زمانہ ہے کہ ولید اقبال سے ایک صحافی سوال کر رہا تھا کہ آپ لوگوں نے قانون بنانے پر مٹھائیاں بانٹیں۔ ایسا کیوں ہوا۔ ولید اقبال نے جتنی بھی باتیں کیں وہ آئیں بائیں شاہیں کی بہترین مثال تھی۔ جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں میرا خیال ہے کہ ہمارا کالم کنارے لگا اور جاتے جاتے ایک خوبصورت شعر آپ کی نذر: ان کی آنکھوں کو جو دیکھا تو پکار اٹھا میں کیا ضروری ہے کہ ہر شخص کو جادو آئے