کہاں وہ دن تھے کہ ہم بھی اکثر روزے رکھا کرتے تھے اور کہاں یہ دن کہ مدت ہوئی ہے روزے کو مہماں کئے ہوئے۔ حسرت ہے ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو دو بجے دوپہر کے بعد’’ٹچ می ناٹ‘‘ ہو جاتے ہیں یعنی چُھونا نہ‘ چُھونانہ۔ روزہ لگنا شروع ہو گیا ہے اور ہم اس لیے بھی ان لوگوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں کہ یہ وہ خوش نصیب ہیں جو آج افطاری میں دودھ سوڈا پئیں گے ۔ پکوڑے ‘ سموسے چاٹ اور کباب کھائیں گے اور پھر پراٹھے تناول فرمائیں گے اور ہم روزہ خور ان کا منہ دیکھیں گے اور بچپن کی وہ کہاوت یاد آئے گی کہ راجے راجے کھاندے بلیاں بلیاں ویکھدیاں۔ یعنی راجے کھا پی رہے ہیں اور بلیاں ان کا منہ دیکھتی ہیں۔ یقین کیجیے ہم ہمیشہ سے تو بلیاں نہ تھے۔ ہم بھی راجے بلکہ مہاراجے ہوا کرتے تھے۔ خاصی باقاعدگی سے روزے رکھا کرتے تھے اور ثواب کے سوا بھی روزہ رکھنے کے مختلف فوائد تھے۔ یوں بھی ان دنوں یعنی ہماری نیم جوانی کے دنوں میں روزے رکھنا ہمارا کلچر تھا۔ یہ ہمارے گھریلو نظام کا ایک جزولاینفک وغیرہ تھا۔ اچھا روزہ رکھنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا تھا کہ سحری کے وقت گھر میںاتنا ’’کھڑاک‘‘ ہوتا تھا کہ سونا مشکل ہو جاتا تھا اور بیدار ہونا ہی پڑتا تھا۔ چونکہ ہم ذات کے جاٹ تھے اس لیے آپ جانتے ہی ہیں کہ ’’جٹ کا کھڑاک‘‘ بھی کھڑکی توڑ ہوتا ہے۔ جاٹ تو بے شک تھوڑے بہت اب بھی ہیں لیکن ’’کھڑاک‘‘ ہر قسم کے قابل نہیں رہے اور اگر زبردستی سونے کی کوشش کرتے تھے تو بھی امی جان کے ان تہہ در تہہ دیسی گھی کے لہریئے لیتے‘ توے پر سلگتے‘ پلٹتے یعنی جو جل اٹھتا تھا یہ پہلو۔ ایسے پراٹھوں کی مہک آتی تھی تو ہم ان کی خوشبو سے مخمور ہو کر آدھے سوئے آدھے جاگتے باورچی خانے میں پہنچ جاتے تھے۔ پیڑھی پر براجمان ہو کر چنگیر میں اترتے ذائقے کی دھوم برابر دھوم پراٹھوں کو ذہن میں اتارتے خمار سے جھومنے لگتے تھے اور پھر جب لسی کے ایک پورا کمنڈل پی کر اٹھنے کی کوشش کرتے تھے تو اٹھا نہ جاتا تھا چنانچہ ہم ایسے روزے رکھتے تھے اور پھر سارا دن امی جان ہمارا اترا ہوا چہرہ دیکھ دیکھ ہماری بلائیں لیتی رہتی تھیں۔ ہائے ہائے میرے لال کا منہ اتنا سا رہ گیا ہے حالانکہ منہ اتنا ہی ہوتا تھا جتنا کہ عام حالات میں ہوا کرتا تھا اور میرے بیٹے کا رنگ کیا ہو گیا ہے۔ حالانکہ حسب سابق مشکی ہی ہوا کرتا تھا۔ ہونٹ کیسے سوکھ رہے ہیں‘ بس میرے چاند افطاری ہوا ہی چاہتی ہے۔ اچھا یہ جو مائیں ہوتیں ہیں بہت جھوٹ بولتی ہیں۔ میرے جیسے کالے شاہ کالے لال کو بھی چاند کہتی ہیں اور ستم یہ کہ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا سچ کہہ رہی ہیں۔ میری ایک چھوٹی سی بات کچھ یوں تھی کہ اگر کوئی آپ کو چاند کہے تو یقین جانئے اس نے کبھی چاند دیکھا ہی نہیں سوائے تمہاری ماں کے‘ تو اب ہماری ماں مر گئی تو میں نئے کپڑے پہنوں کس کے لیے ‘ بال بنائوں کس کے لیے اور روزے رکھوں کس کے لیے۔ کوئی بلائیں لینے والا ہی نہیں رہا اور نہ ہی کوئی چاند کہنے والا رہا۔ ’’مائے نیں میں کنّوں آکھاں درد وچھوڑے دا ایہہ حال نیں‘‘ روزے ہم نے بے شک ماں کی رخصتی کے بعد بھی رکھے پر ان میں وہ لطف نہ تھے اور مجھے یہاں ایک پرانا قصہ یاد آتا ہے۔ بیان کر لینے دیجیے۔ ناشتے کے وقت امی جان دھڑا دھڑ اپنے چھ عدد بچوں کے لیے پراٹھے بنا رہی ہوتیں تو ابا جی یونہی مسکراتے ہوئے کہتے کہ کاش کہ میری ماں بھی ہوتی اور وہ سب سے پہلے میرے لیے پراٹھا بناتی تو امی جان ناک چڑھا کر کہتیں اور ان زمانوں میں اپنے خاوند کو ’’آئی لو یو ٹو‘‘ کہنے کا رواج ہرگز نہ تھا۔ بلکہ خاوند سے ذرا درشت لہجے میں ہی بات کی جاتی تھی تو امی جان کہتیں ‘’’آپ کی ماں نے ہمیشہ کے لیے بیٹھے تو نہیں رہنا تھا۔ آپ بوڑھے ہو گئے پر ماں کے خیال سے بچے ہو جاتے ہو‘‘ اب ذرا فلمی تکنیک کے مطابق فلیش فارورڈ کر کے آئندہ زمانوں میں چلے جاتے ہیں اور میں کچھ مبالغہ نہیں کروں گا کہ میری بیگم ناشتے کے لیے بچوںکے واسطے پراٹھے بنا رہی ہیں اور میں نے اپنے باپ کی طرح مسکرا کر کہتا ہوں کہ کاش کہ میری ماں بھی ہوتی اور وہ سب سے پہلے مجھے پراٹھا کھلاتی۔ تو یقین مانئے‘ میمونہ نے بھی ناک چڑھا کر مجھے وہی جواب دیا’’آپ کی ماں نے ہمیشہ کے لیے بیٹھے تو نہیں رہنا تھا‘ جانا ہی تھا۔‘‘ ایک موہوم سی یاد ہے جب میں نے اپنا پہلا روزہ رکھا۔ اپنی نانی جان کے گھر گکھڑ منڈی کے ایک کچے گھر کے کچے صحن میں رکھا۔ یہ مت پوچھئے کہ میں کتنے برس کا تھا۔ یوں جانئے کہ دل تو بچہ ہے ‘ تھوڑا کچا ہے۔ بقول میرے بہت من پسند پنجابی شاعر’’ساوے پتّر‘‘ کے شاعر موہن سنگھ کہ ’’بچے جیسا کوئی پھل نہ دیکھا۔ جتنا کچا اتنا میٹھا دیکھا‘‘۔تو میں ایسا بچہ تھا آپ جانتے ان زمانوں کی گائوں کی سویریں‘ ایک مدت تک سویر رہتی تھیں۔ دوپہر ہوتی تھی تو گزرتی ہی نہ تھی۔ ٹھہر جاتی تھی۔ وقت حنوط ہو جایا کرتا تھا۔ تو جب دوپہر ڈھلی تو میں بھی ڈھل کر نڈھال ہو گیا۔ میری نانی جان جنہیں میں بے بے جی کہتا تھا کہنے لگیں‘ تنسی‘ تم پانی پی لو۔ بچوں کے لیے جائز ہے۔ دودھ پی لو‘ پر میں تو ایک اڑیل بچہ تھا اڑ گیا‘ تب نانی جان نے ایک کچے کٹورے میں بھگوئے ہوئے بادام میرے سامنے رکھ دیے کہ اچھا تم ان باداموں کے چھلکے اتارو۔ انہیں گھوٹ کر دودھ ملا کر تمہاری افطاری کا مشروب تیار کروں گی چنانچہ میں باداموں کے چھلکے اتارنے میں مشغول ہو کر بھوک پیاس بھول گیا اور جب بمشکل سورج ڈھلا تب محلے کی مسجد میں نوبت باجی اور اس کی آواز پورے گائوں میں گونجی اس نوبت میں ایسی ردھم تھی کہ گھروں کو لوٹتے سرشام مویشی بھی سرہلانے لگے اور باداموں والوں گھنے دودھ سے میں نے اپنا پہلا روزہ افطار کیا اور مجھے آج تک اپنی نانی جان کا جھریوں بھرا وہ چہرہ یاد ہے جس کی ہر جھری میں فخر کے دیے روشن ہوتے تھے کہ آج میرے نواسے تنسی نے پہلا روزہ رکھا تھا۔ ابھی تک ستر برس کے پار ہونے تک اگرچہ باقاعدگی سے تو نہیں لیکن اکثر روزے رکھتا چلا آیا تھا۔ثواب کے لیے نہیں بلکہ ماں کے پراٹھوں کی یاد میں۔ پھر یہی دو ڈھائی برس پیشتر میرے بدن کی کچھ چیڑ پھاڑ ہوئی۔ متعدد آپریشن وغیرہ ہوئے تو بعدازاں روزہ رکھنا قدرے محال ہو گیا۔ میں بہانے نہیں کرتا۔ مجھ سے کہیں زیادہ عمر رسیدہ اور علیل لوگ باقاعدگی سے روزے رکھتے ہیں۔ مجھ میں شائد ایمان کی کچھ کمی ہے پچھلے برس ایک ٹیلی ویژن چینل کی جانب سے درخواست کی گئی کہ تارڑ صاحب کوئی ایک شام عنائت کیجیے۔ ٹیلی ویژن کا براہ راست نشریاتی سٹوڈیو آپ کے گھر کے باہر تعینات ہو جائے گا اور ہم لائیو کوریج کریں گے کہ آپ اور آپ کے اہل خانہ روزہ کیسے افطار کرتے ہیں تو میں نے نوجوان اور مجھ سے ازحد الفت رکھنے والے پروڈیوسر سے کہا کہ برخوردار میں تو روزے نہیں رکھ رہا تو ہمارے ہاں افطار کا بندوبست کہاں ہو گا تو اس برخوردار نے کہا ’’تارڑ صاحب۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم جتنی بھی مشہور شخصیات کی افطار کی لائیو کوریج کرتے ہیں کیا وہ سب روزے سے ہوتی ہیں آپ بھی ان کی مانند اداکاری کر دیجیے گا۔تو میں نے معذرت کے ساتھ کہا تھا کہ سوری میں اتنا بڑا اداکار نہیں ہوں۔ میں ان دنوں حسرت سے ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو روزے سے ہوتے ہیں یقینا یہ تو مائوں والے ہوں گے اپنی مائوں کے ہاتھوں کے پراٹھے کھا کر روزہ رکھتے ہوں گے۔ ایک تو میں اسی کے پیٹے میں ہوں۔ میرے بیشتر ہم عصر آس پاس سے چپکے سے گزرتے جاتے ہیں اور پھر میری ماں بھی تو نہیں ہے جو مجھے سحری میں پراٹھے کھلائے اور سارا دن میری بلائیں لے۔ تو میں روزے رکھوں کس کے لیے۔ اگرچہ خواہش بہت ہے بلکہ ہوس ہے کہ روزے رکھوں پر سکت نہیں ہے۔ غالب مے خوار تھا اور میں روزہ خور ہوں تو شرمندگی بہت ہے ؎ مائے نیں میں کنّوں آکھاں درد وچھوڑے دا ایہہ حال نیں