امریکہ سے پہلا کالم آنے کے بعد پھر ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ بات جو شروع کی تھی وہ وہیں کی وہیں رہ گئی آگے نہ بڑھی۔ بالکل منیر نیازی کی اس نظم کی طرح جس میں وہ اظہار کرتے ہیں کہ۔ پہلی بات بھی آخری تھی۔ اس سے آگے بڑھی نہیں۔ ڈری ہوئی اک بیل تھی جیسے۔ پورے گھر پر چڑھی نہیں!اور بات آگے۔ بڑھنے کی پوری جو بات موجود تھیں۔ امریکہ کی مختلف ریاستوںمیں تین ہفتوں کے قیام کے دوران مصروفیت اس قدر تھی کہ لکھنے کا وقت نہ مل پاتا۔ صبح سے سہ پہر اور کبھی شام تک دن ’’سرکاری مصروفیات‘‘ میں گزرتا اور باقی کا وقت حلال کھانے کی تلاش میں۔ پھر مسلسل سفر ‘ریاست در ریاست۔ شہر در شہر۔ قیام کے آخری دنوں میں ہم گھر کو یاد کرنے والی بیماری جسے انگریزی میں ہم بڑی سہولت سے ہوم سک نیس کہتے ہیں کا شکار ہو گئے اور باقاعدہ دن گنتے کہ کون سی تاریخ ہو گی اور ہفتے کا کون سا شبھ دن ہو گا ہم اپنے وطن پہنچیں گے۔ لیکن وطن اور گھر کی یاد سب کے دلوں پرایسے دستک نہیں دیتی تھی۔ کچھ دل ایسے بھی تھے جو دیار غیر میں طویل قیام کے خواب بنتے اور آہیں بھرتے تھے۔جبکہ ہمارے دل سادہ کو اس خیال سے ہی وحشت ہوتی۔ دیار غیر میں جب بھی کسی پاکستانی سے ملے‘ پاکستانی گھرانے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے ایسا لگا کہ برسوں گزارنے کے باوجود بھی آپ غیر ملک میں پردیسی اور اجنبی ہی رہتے ہیں۔ پردیسی ہونے کی ایک مسلسل تھکن بالآخر آپ کی روح کو بوجھل کر دیتی ہے۔ کبھی کا پڑھا ہوا ایک شعر وہاں مجھے بارہا یاد آتا رہا: قسمت کی ریکھائیں سیدھی کرنے کو کچھ لوگ زمیں کی الٹی جانب آن بسے یہی پردیسیوں کا نصیب ہے کہ قسمت کی ریکھائیں سیدھی کرنے میں عمر بیت جاتی ہے۔ دیس میں انتظار کرتے رشتے۔ زرد پتوں کی طرح ٹوٹنے‘ بکھرنے اور مٹی میں ملنے لگتے ہیں۔ پردیسی ہونے کی تھکن روح پر الگ قیامت ڈھاتی ہے۔ ساری عمر دے کر بھی پردیسی اپنوں کا قرض دار رہتا ہے۔ خیر میں واپس آتی ہوں اپنے تین ہفتوں کے قیام پر جو ہم نے امریکہ کی چار مختلف ریاستوں میں کیا۔ یکم دسمبر سے سات دسمبر تک امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں رہے۔ آٹھ دسمبر کو ہم نے اگلی ریاست کولو راڈو کی جانب سفر کیا جس کے شہر ڈینور میں ہمارا قیام 12دسمبر تک رہا۔13دسمبر کو ہم اگلی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس کے لئے روانہ ہوئے۔ جہاں ہم 13دسمبر سے 18دسمبر کی صبح تک رہے۔ اور 18دسمبر کو ہم اپنے پروگرام کی آخری منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ جو ریاست فلوریڈا کے خوب صورت ساحلی شہر پنساکولا تھا چار دن یہاں قیام کے بعد ہم 22دسمبر کو پنساکولا سے ڈومیسٹک فلائٹ سے شارلٹ پہنچے۔ شارلٹ سے لندن کے لئے روانہ ہوئے۔ پھر لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ سے دوحہ کی فلائٹ ملی اور دوحہ سے بالآخر لاہور کی فلائٹ لے کر IVLPکا لاہور گروپ اپنے اپنے گھروں کو پہنچا ۔اس پروگرام میں ہمارے ساتھ کراچی‘ حیدر آباد‘ کوئٹہ‘ پشاور کی صحافی خواتین بھی شامل تھیں جو الگ الگ فضائی روٹس سے واپسی کے سفر کے لئے روانہ ہوئیں۔ امریکہ میں تین ہفتوں کا یہ قیام تجربات اور مشاہدات سے بھر پور تھا۔ ہر قدم پر تجربے کا ایک نیا رنگ اور مشاہدے کا ایک نیا ڈھب ہمارے سامنے تھا۔ امریکہ ایک دنیا کا نام ہے اور نئی دنیا کا یہ سفر حیران کر دینے والا اور بہت کچھ سیکھنے والا تھا۔ اس وزٹ کا اہتمام امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کیا گیا تھا جو سال بھر میں ایسے کئی پروگرام کرتا ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز کو اپنے ہاں بلاتا ہے اور انہیں موقع دیتے ہیں کہ وہ امریکی اداروں‘ یونیورسٹیوں میں جائیں۔ عام لوگوں سے ملیں اور امریکی عوام کو اور امریکہ کو اپنے انداز کے ساتھ دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کریں۔ یہ سوال بارہا ذہن میں آتا ہے کہ آخر امریکہ اس بات پر اتنی انوسٹمنٹ کیوں کرتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے لوگ آ کر یہاں کے نظام کو دیکھیں اور امریکہ کے بارے میں جو نظریات اور خیالات دور بیٹھ کر قائم کر رکھے ہیں ان میں اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے کو شامل کر کے پہلے سے موجود پرسیپشن(Perception)کو تبدیل کریں۔فطری طور پر یہ سوال سب کے ذہن میں آتا ہے۔ لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب کئی امریکی خواتین و حضرات نے یہ ہم سے پوچھا مثلاً ہم واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سائوتھ اور سنٹرل ایشیائی امور کو ڈیل کرنے والے ہائی آفیشل کے ساتھ ایک میٹنگ میں تھے۔ دونوں اطراف سوال و جواب ہو رہے تھے کہ ایک امریکی خاتون نے سوال کیا آپ کے خیال میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے آپ کو یہاں کیوں بلایا۔ آپ کو اس دورے کے لئے کیوں چُنا گیا۔ انگریزی میں وہ گویا ہوئیں۔ Do they Want to Libralize the media yoy peaple? اس کا جواب میں نے یوں دیا کہ پاکستان میں میڈیا پہلے ہی بہت لبرل ہے اور جو میانہ رو ہیں ان کو امریکہ آ کر بھی کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ اور ایک صحافی کی حیثیت سے میں صرف اسے اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کے حوالے سے ایک اہم موقع سمجھتی ہوں۔ اسی طرح کے سوالات دورے کے آغاز پر پراجیکٹ اوپنگ کی میٹنگ میں ہوئے کہ آپ اس وزٹ سے کیا امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں کیا سیکھیں گے۔ آپ کو کس لئے آئی وی ایل پی IVLP کے ایکسچینج پروگرام میں چنا گیا۔ ایک چیز جو میں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ تھی کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں امریکن قونصلیٹ کے متعلقہ پاکستانی آفیشلز نے اس پروگرام کے بارے یں یہی تاثر بنا رکھا تھا کہ یہ ایک تفریحی دورہ ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا ہر جگہ باقاعدہ گفتگو کے سیشن‘ سوال جواب ہوتے تھے ۔بیشتر لوگوں کے لئے کمیونی کیشن بھی ایک مسئلہ تھی۔ کچھ لوگ انگریزی سمجھ سکتے تھے تو بولنے میں دشواری تھی۔ کہیں کم اعتماد کا مسئلہ آڑے آتا تھا۔ کچھ لوگوں نے اردو زبان کے ترجمان کی خدمات بھی لیں اللہ کا شکر ہے کہ زبان اور کم اعتمادی کی رکاوٹ میرے آڑے نہیں آئی اس لئے بھر پور کوشش کی کہ پاکستان کی نمائندگی بہتر انداز میں کر سکوں اور اس ذمہ داری کا احساس اس وقت زیادہ ہوتا تھا جب میں اپنی ساتھی خواتین صحافیوں کو امریکیوں کے سامنے بار بار اپنے مسائل کا رونا روتے ہوئے دیکھتی تھی۔ (جاری)