یہ جو رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی الیکٹرونک میڈیا پر چھم چھم چھن چھن اور تک دھنا دھن کی قسم کے ثقافتی میلے‘ خواہشوں کے ٹھیلے اور ہوس کی جھمیلے لگ جاتے تھے۔ یہ جو گلرنگ بازار سجائے جاتے تھے۔ لوگ ورغلائے جاتے تھے۔ بولیاں لگائی جاتی تھیں۔ ٹولیاں نوازی جاتی تھیں۔ اور طرح طرح سے انسانی نفس کو آزمایا جاتا تھا۔ کسقدر دلآزار تھا یہ منظر..... بے حد شکریہ جج صاحب! آپ نے اس ماہِ مقدس میں روح اور دِل کو سمع خراش کرنے والی آوازوں کو بند کرا دیا۔ ہم بھی سوچتے تھے‘ کوئی اللہ کا بندہ ضرور اُٹھے گا۔ جو یہ بولیاں یہ بازار بند کروائے گا‘ یہ ہوس کدے بند کروائے گا۔ ہم ثقافتی شوز کے خلاف نہیں ہیں‘ نہ مارننگ شوز کے..... نہ ذہنی آزمائشی پروگراموں کے خلاف ہیں۔ مگر حرمت والے مہینوں کی تقدیس کو تسلیم کرنے کے حق میں ضرور ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ایک بھیڑ چال چل نکلی تھی۔ کلام پاک میں جا بجا حد سے گذرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ہر پروگرام میں حد سے گذر جانے کو ریٹنگ کی دوڑ کہتے ہیں۔ بندے کا کیا ہے۔ بڑا ہو یا چھوٹا‘ امیر ہو یا غریب‘ خواہشوں کے صنم پوجنے لگتا ہے___ بازار سے گذرے گا تو خریدار بھی بنے گا۔ اور اگر لوٹ سیل مچی ہو تو کون جھولی نہیں بھرے گا۔ آپ لوگوں کو نفس پر قابو کرنا سکھانے کی بجائے مفت کی اشیاء لوٹنے پر لگا رہے ہیں۔ ان چمکتی دمکتی برکتیں لٹاتی راتوں میں فرشتے آسمانوں سے اترتے ہیں۔ اور اللہ کے بندوں کا احوال اپنی آنکھوں سے لکھتے ہیں۔ کیا ضرورتوں کو پوجنے کے لئے گیارہ مہینے کافی نہیں ہوتے۔ اللہ نے کہا کہ یہ میرا مہینہ ہے۔ تو اس مہینے کو اس طرح بسر کرو جس طرح تمہارا رب پسند کرتا ہے۔ گیارہ مہینے تم نے اسکی پسند نا پسند کا خیال نہیں کیا۔ بھائی اب ایک مہینہ تو اس کو دے دو۔ ارے ایک لوٹ سیل تو زمینوں آسمانوں پر لگی ہے۔ ایک کے بدلے دس کی‘ دس کے بدلے ستر کی___ مہکتے دنوں کی‘ جاگتی راتوں کی لوٹ سیل ہی تو لگی ہے___ رب نے کہا ہے تُو میری طرف آکر تو دیکھ‘ سرفراز نہ کر دوں تو کہنا: ہم سب جو میڈیا سے وابستہ ہیں۔ ہمیں بھی مل بیٹھ کے سوچنا چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا ہر معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے‘ یا معاشرے کو آئینہ دکھاتا ہے۔ بائیس کروڑ عوام ہمیں روک روک کر پوچھتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کدھر جا رہی ہے۔ کس کی تقلید کر رہی ہے۔ اور قوم کو فلاح کی راہ پر لگانا سیاست دانوں کا ہی کام ہے۔ تو علماء کا کیا کام‘ اساتذہ کا کیا کام ہے‘ میڈیا کا کیا فرض ہے۔ ماؤں پر کیا قرض ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ماہِ صیام شروع ہوتے ہی بہت سے چینلز پر بڑے روح پرور پروگرام شروع ہو جاتے ہیں۔ گنبد خضریٰ اور خانہ کعبہ روبرو ہوتے ہیں۔ اذانیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ پروگراموں کے رخ بھی بدل جاتے ہیں۔ اس وقت ٹیلی ویژنوں کے آگے بیٹھے ہوئے پاکستانی ہزار بار اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم پاکستان میں ہیں۔ ہمیں عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ پانچ وقت کہیں بھی قبلہ رو ہو کر نماز پڑھنے کی آزادی ہے۔ مساجد سے قرآن مجید کی دلکش آوازیں آ رہی ہیں۔ آپ ذرا انڈیا کے مسلمانوں کا تصور کریں۔ روہنگیا اور برما کے مسلمانوں کی اذیتیں ذہن میں لائیں۔ وہ اپنی مرضی اور خوشی کے مطابق ماہِ رمضان بھی نہیں گذار سکتے۔ بلا روک ٹوک مساجد میں نہیں جا سکتے___ اور بھی کئی ایسے ملک ہیں جہاں مسلمانوں پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ اور پھر ایسے بھی مسلم ممالک ہیں۔ جہاں ماہِ صیام شروع ہوتے ہی اشیائے خوردنی سستی کر دی جاتی ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں کرسمس کے آتے ہی سیلیں لگا کے پرانا مال نکال دیا جاتا ہے۔ اسکی جگہ نئی اشیاء آ جاتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں رمضان آتے ہی اشیائے خوردنی مہنگی کر دی جاتی ہیں۔ پھل میوہ جات ‘ ملبوسات اور تمام دوسری چیزیں‘ ناقص مال باہر نکال لیا جاتا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر ٹھیکہ لینے والے سستا آٹا فراہم کرنے کے لالچ میں ملاوٹ زدہ عجیب آٹا بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ نمک مرچ چینی دودھ دالیں___ کونسی چیز ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ سورۂ بقرہ میں باری تعالیٰ نے بار بار کہا ہے کہ اللہ کو اچھا قرض کر دو کہ وہ کئی گنا کر کے تم کو لوٹائے۔ اور تم اللہ کے مہینے میں اللہ کے نام پر غلط سودا کرتے ہو۔ قسم کھا کے غلط چیزیں بیچتے ہو۔ اللہ کو کیسا قبیح قرضہ دیتے ہو۔ کیا قیامت کے دن یہی قرضہ لوٹایا جائے گا۔ مانگنے پر آؤ تو پوری کائنات مانگ لیتے ہو۔ اللہ کے نام پر اللہ کے مہینے میں صحیح چیزیں نہیں بیچ سکتے۔ ایک مہینے کے لئے سوداگری اور دکانداری نہیں چھوڑ سکتے۔ چاہتے ہو کہ سال بھر کا منافع اسی ایک ماہ میں کما لو۔ علمائے کرام اور امام مساجد کی ذمہ داریاں اس مہینے میں بڑھ جاتی ہیں۔ ان کو صرف کتابی باتیں نہیں کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی کردار سازی اور تربیت نفس کرنی چاہیے۔ وہ سب باتیں جنہیں ہم معمولی باتیں کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کو مثالوں کے ساتھ کھول کر بیان کرنا چاہیے۔ یہاں ہر شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ بیچنے والا بھی اور خریدنے والا بھی یہاں ہر دکاندار ایک روپے کے پیچھے ایک ہزار کمانا چاہتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا‘ ناقص مال پہلے بک جائے۔ لوگوں کے اندر احساس پیدا کرنا بھی میڈیا کا کام ہے۔ بات کہنے کا انداز بات کو اثر انداز بنا دیتا ہے۔ یہ جو پاکستان کے اندر ایک مکروہ حرکت شروع ہوئی ہے۔ معصوم کلیوں اور ننھے غنچوں کو کچل کر‘ مار کر کوڑے کے ڈھیر اور کھیتوں کے اندر پھینک دینے کی___ اس کے بارے میں کون بات کرے گا۔ بات ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی ۔ روز کوئی روح فرسا خبر چل جاتی ہے۔ روز کوئی بیان نظر سے گذر جاتا ہے___ مگر مجرموں کے بارے میں کوئی خبر نہیں آتی۔ ان کو کیا سزائیں ملیں___ یا کیوں نہیں ملیں۔ یہ علمائے کرام کا فرض ہے کہ میڈیا پر بھی گاہے گاہے نوجوان کی تربیت کریں۔ مگر ہمیں حیرت ہوتی ہے اس معاملے پر‘ کہ یہ انسانیت سے گرا ہوا کام اللہ کی نظر میں کتنا بُرا ہے۔ اور اسکی کتنی سنگین سزاہے‘ کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے میڈیا پر تزکیہ نفس اور تربیت کردار کے سلسلہ وار پروگرام شروع ہونے چاہئیں___ اور رمضان المبارک میں بھی ہونے چاہئیں___۔ کچھ لوگوں کو گلہ ہے کہ کیا ہر بات کا نوٹس اب عدلیہ لیا کرے گی۔ ذرا سوچیں اگر مقننہ اپنے اثاثوں اور وارثوں کو بچانے میں لگی رہے گی۔ اور سیم وزر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے گی۔ اور انتظامیہ مفاد عامہ سے پہلو تہی کر کے خواص کی خواہشوں کا تحفظ کرتی رہے گی تو پھر بہت سی باتوں کا نوٹس عدلیہ کو لینا پڑے گا۔ عدلیہ تیسرا بڑا ستون ہے۔ اور کیا عدلیہ آنکھیں بند کر کے دیکھتی رہے___ اور لوٹ مار جاری رہے۔ ہم جسٹس ثاقب نثار صاحب کو دُعا دیتے ہیں۔ انہوں نے ہسپتالوں کا رُخ کیا تو چوروں کو پکڑا۔ جیلوں کا رخ کیا تو منہ زوروں کو پکڑا۔ پانی اور بجلی کی طرف دھیان دیا تو لٹیروں کو پکڑا۔ کہیں موروں کو‘ کہیں دلیروں کو___ اتنا بڑا ملک ہے___ آخر کوئی تو اُٹھے گا اس طوفانِ نفس پرستی کو روکنے کے لئے___۔ اگر عدالتوں سے انصاف‘ اوصاف‘ احتساب‘ مکافات کی آواز نہیں اُٹھے گی تو خلقت کدھر جائے گی۔ چپ رہیے تے دکھ‘ کجھ کہیے تے دکھ! اساں عاشقاں غریباں دے نصیباں وچ دکھ!