اڈیالہ جیل پہنچنے کے بیس گھنٹے بعد والدہ محترمہ‘ بھائی اور دیگر افراد خانہ سے ملاقات میں میاں صاحب نے وہ ساری شکائتیں کیں جو 1999ء میں اٹک قلعہ اور لانڈھی جیل میں قیام کے دوران ان کی زبان پر تھیں۔ گرمی لگتی ہے‘ مچھر کاٹتے ہیں اور واش روم بدبو دار ہیں۔ دنیا جہان کی سہولتوں سے آراستہ محلات میں بسنے والوں کو نان ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں مخملیں بستر کے بجائے معمولی گدے پر رات بسر کرنی پڑے تو شکایت فطری ہے۔ لیکن ایک لیڈر جس کا دل قومی درد سے معمور اور دماغ سول بالادستی کے نظریے پر مرکوز ہے وہ ایسی شکایت کرے‘ عجیب لگتا ہے۔ ذکر‘وہ شہید ملت لیاقت علی خاں اور ذوالفقار علی بھٹو کا کرتا رہے اور ان کے چاپلوس مشیر بنانا انہیں نیلسن منڈیلا چاہتے ہیں جس نے اٹھائیس سال گوروں کی جیل میں گزار دیے ‘اف تک نہ کی۔مگر رونا گرمی‘ مچھروں اور بدبودار واش روم کا روتے ہیں۔ 1999ء میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے شریف برادران کو جیل میں ڈالا تو’’ ظلم‘‘ کی ایسی ہی داستانیں منظر عام پر آئیں اور جب دونوں بھائی کراچی کی خصوصی عدالت میں پیش ہوتے تو ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر اتنا روتے کہ ان کے وکیل سب کام چھوڑ کر انہیں چپ کرانے میں لگ جاتے۔ سید غوث علی شاہ کے وکیل جسٹس (ر) آفتاب فرخ کے بقول ایک بار شریف برادران کے وکیل بیرسٹر اعجاز بٹالوی برہم ہو گئے اور کہا ’’اگر یہ دونوں بھائی رونے دھونے سے باز نہ آئے تو میں وکالت نامہ واپس لے لوں گا یہ لیڈر ہیں یا کچھ اور؟‘‘ پاکستان میں کوئی سیاستدان پہلی بار جیل نہیں گیا‘ اس ملک میں سربرآوردہ سیاستدان برسوں داخل زنداں رہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیاء الحق کے دورآمریت میں سیاستدانوں نے مچھ جیل اور میانوالی جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بھٹو دور میں ان کی عزت نفس مجروح کرنے کے لیے گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے مگر مجال ہے کہ کسی ایک نے مکھی‘ مچھر‘ ناقص غذا اور تکلیف دہ ماحول کی شکایت کی ہو۔ میاں صاحب خدا کا شکر ادا کریں انہیں اور ان کی صاحبزادی کواپنے ’’ممدوح ‘‘اور ’’انسانی حقوق کے علمبردارجمہوریت پسندوں‘‘ کے رول ماڈل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت نہیں کرنا پڑیں۔ قائد عوام اپنے مخالفین ‘ان کی بہو بیٹیوں کی توہین و تذلیل سے محظوظ ہوتے اور جسمانی و ذہنی تکلیف دے کر جذبہ انتقام کی تسکین کرتے۔ ایک معتبر اور نامور اخبار نویس سے انٹرویو میں ہمارے دوست مظفر محمد علی نے سوال کیا کہ ’’آپ بھٹو دور کا جائزہ مختصر الفاظ میں کس طرح پیش کریں گے؟’’جواب آیا صرف ایک جملے میں‘‘ آپ کی ایک بیٹی بھی ہے‘‘تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک پیامبر قابل احترام اخبار نویس سے ملے اور اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے بعد حرف مدعا زبان پر لائے کہ آپ بھٹو صاحب کے خلاف لکھنا بند کر دیں۔ اخبار نویس نے معذرت کی تو بولے مناسب یہی ہے کہ آپ باز آ جائیں ورنہ آپ کے لیے دو ٹوک پیغام یہ ہے کہ ’’آپ کی ایک بیٹی بھی ہے‘‘ یاد رہے کہ بچی کی عمر اس وقت بمشکل ڈیڑھ دو سال تھی۔ بھٹو صاحب اس سے پہلے اپنے ہی ایم این اے ملک سلیمان کی بیگم اور نوجوان بیٹیوں کو تھانے کی سیر کرا چکے تھے لہٰذا پیغام واضح تھا۔ ع لوٹ جاتی ہے اِدھر کو بھی نظر کیا کیجے ماضی کے لیڈر ہتھکڑی کو اپنا زیور ‘جیل کو سسرال سمجھتے اور اعلیٰ ترین مقاصد کی تکمیل کے لیے راہ میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا کرتے۔ مولانا محمد علی جوہر جیل میں تھے ‘انہیں صاحبزادی کا خط ملا۔ مہلک مرض میں مبتلا بیٹی آمنہ نے جو آخری سانسیں لے رہی تھی خط لکھا کہ ابا جان آپ کو آخری دفعہ دیکھنا چاہتی ہوں مولانا محمد علی جوہر نے خط کی پشت پر لکھا ؎ میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں تجھ سے میں دور سہی وہ تو مگر دور نہیں تیری صحت ہمیں منظور ہے لیکن اسکو نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں لیکن مولانا محمد علی جوہر اور میاں نواز شریف کا موازنہ بنتا نہیں۔ البتہ جاوید ہاشمی‘ یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کی جیل یاترا اور دوران قید استقامت کا مظاہرہ میاں صاحب کے لیے مشعل راہ ہے۔ زرداری بھی کرپشن کے الزامات میں قید تھے مگر انہوں نے واویلا نہیں کیا‘ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے سخت ترین ناقد بزرگ اخبار نویس مجید نظامی مرحوم نے انہیں ’’مرد حر‘‘ کہہ ڈالا۔ میاں صاحب پر اربوں روپے کے ناجائز اثاثے بنانے اور قومی سرمایہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کرنے کا جرم ثابت ہو چکا ہے پھر بھی انہیں بی کلاس ملی ہے جبکہ اس ملک میں لاکھوں قیدی محض بکری چوری اور موبائل چوری کے الزام میں سی کلاس کے حقدار ہیں۔ بدبودار‘ غیر صحت مند کھانا‘ میاں صاحب کے واش روم سے بدتر کھولیاں اور جیل حکام کی طرف سے توہین و تذلیل ان کا مقدر ہے۔ تیس سالہ دور اقتدار میں میاں صاحب نے ان خاک نشینوں کے بارے میں کبھی سوچا نہ جیل اصلاحات پر توجہ دی ‘لیکن اپنی باری آئی تو وہ سہولتیں مانگ رہے ہیں جن کی قانون میں اجازت نہ جیل مینوئل میں جگہ؟۔ لندن میں میاں صاحب نے اعلان یہ کیا تھا کہ وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان سے کون کہے کہ میاں صاحب لیڈر بنیں‘ مولانا محمد علی جوہر‘ عبدالولی خان ‘ مولانا مودودی نہ سہی آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی جتنا حوصلہ تو دکھائیں۔ مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ استحقاق کے برخلاف مراعات لینے کے لیے درخواست کرنے کو تیار نہیں مگر میاں شہباز شریف وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو خط لکھ رہے ہیں کہ دونوںکو وہ سہولتیں فراہم کریں جو ماضی میں کسی ملزم کو نہیں ملیں۔ مجھے ذاتی طور پر میاں صاحب کو ابتلا میں دیکھ کر خوشی ہے نہ انہیں ملنے والی مراعات اور سہولتوں سے دلچسپی۔ پوری قوم کی طرح میری خواہش یہ ہے کہ احتساب کا عمل بلا تفریق جاری رہے۔ شریف خاندان اور مسلم لیگ ہی اس کا نشانہ نہ بنے کہ اسے انتقام سمجھا جائے گا۔ جس شخص نے بھی قومی دولت لوٹی اور ملک کو اقتصادی و معاشی تباہی کے کنارے پہنچایا اسے احتساب کے شکنجے میں لا کر نشان عبرت بنایا جائے۔ اس ضمن میں میری تجویز یہ ہو گی کہ جس شخص کا جرم ثابت ہو‘ اسے حوالہ زنداں کرنے کے بعد کوشش کی جائے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئے‘ عدالت عالیہ سے ان کی سزائیں معطل نہ ہوئیں اور 25جولائی بھی مسلم لیگ کو ریلیف فراہم نہ کر سکا تو اعصاب شکنی کا عمل مزید تیز ہو گا اور ماضی کے تجربے کے پیش نظر وہ ڈیل کے لیے بے تاب ہوں گے۔ ایسی صورت میں سعودی عرب کے اختیار کردہ فارمولے کے بارے میں سوچا جائے کہ مجرم لوٹی ہوئی دولت واپس کریں اور جہاں چاہیں چلے جائیں ‘انہیں کچھ نہ کہا جائے گا۔ جیلوں میں بٹھا کر مجرموں کے نخرے اور قومی خزانے پر بوجھ برداشت کرنے سے بہتر ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی سے ملک کی معاشی حالت بہتر ہو‘ ڈیم بنیں‘ تعلیم ‘ صحت اور روزگار کے لیے وسائل دستیاب ہوں اور آئی ایم ایف کی دریوزہ گری سے نجات ملے ‘جو استعمار کی غلامی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ جو دوست میاں صاحب کی صورت میں ایک عدد چی گویرا اور نصف نیلسن منڈیلا تلاش کر رہے تھے وہ جیل یاترا کے بعد ان کے شکوہ و شکایت اور میاں شہباز شریف کے فرمائشی خط سے عبرت حاصل کریں اور اللہ توفیق دے تو اقبالؒ سے رہنمائی حاصل کریں۔ ؎ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے ‘شاہیں کا جہاں اور میاں صاحب تک ستم رسیدہ عوام کی آواز پہنچ سکتی تو وہ سن پاتے کہ اکیس کروڑ میں سے کم و بیش بیس کروڑ عوام اڈیالہ جیل کی کوٹھڑی اور اس میں موجود سہولتوں سے کئی گنا ابتر زندگی بسر کرتے اور نواز شریف سمیت ماضی کے تمام حکمرانوں کو ’’دعائیں‘‘ دیتے ہیں۔ ؎ اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح