پوچھنا یہ ہے کہ گھر کیسے لٹا۔ اچھا خاصا ملک ترقی کی راہ پر چل رہا تھا‘ پھر کیا حادثہ ہوا کہ بھکاری بن کر رہ گیا۔ حکومت کی طرف سے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ ساری کہانی بتا رہے ہیں۔ ہم کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر پائے۔ یہ کہیں گے۔ یہ اعداد و شمار پرانی حکومت نے طے کئے تھے‘ وہ جانتے تھے کہ یہ پورے نہیں ہو سکتے‘ آنے والے خود سے نپٹیں گے۔ بھئی دو بار آپ نے بجٹ کی اصلاح کی اس میں ترمیم کی‘ ترقیاتی بجٹ کو کم کیا پھر کیا ہوا کہ کچھ بھی نہ ہو سکا۔ بھئی 6.2فیصد ترقی تو اس سال ہونا تھی اور جب آپ نے اقتدار سنبھالا تھا تو تب بھی ترقی کی رفتار 5.8فیصد تھی۔ دنیا بھر کے اداروں نے اسے تسلیم کیا تھا۔ آپ کے چہیتے آئی ایم ایف نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ ان کے مطابق غالباً یہ 5.79تھی۔ پھر کیا ہوا چلتی معیشت آپ کے سپرد کی تھی۔ اب جو پورا سال معیشت کی بار بار اصلاح کر کے اور جگہ جگہ سے بھیک مانگ کر آپ نے ترقی کی جو شرح خود بتائی ہے وہ 3.3فیصد ہے۔ غضب خدا کا کہ آپ ترقی کی رفتار کو بھی باقی نہ رکھ سکے۔ ہر شعبے میں مارکھائی‘ بڑی صنعتوں میں ترقی کا ہدف 8.1فیصد تھا۔ ہم نے ترقی معکوس کی یعنی منفی (-2)شرح نمو حاصل کی اور بڑی صنعتوں ہی میں نہیں مجموعی طور پر صنعتی میدان میں ہماری ترقی کی رفتار جسے 7.4فیصد ہونا تھا1.4فیصد رہ گئی۔ ہے نا رونے کا مقام!۔ زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس میں اس سال 3.8فیصد ترقی متوقع تھی۔ ہم نے صرف .8فیصد حاصل کی۔ سروسز سیکٹر پرہمیں بڑا مان تھا وہاں 6.5فیصد ترقی متوقع تھی ہم صرف 4.7فیصد حاصل کر پائے‘ بربادی‘ تباہی اور کسے کہتے ہیں۔ یہ ایک سال میں آپ نے معیشت کا کیا حال کر دیا؟۔ کہتے ہیں پرانے والے قرضے چھوڑ کر گئے تھے۔ ہم وہ چکا رہے ہیں۔ اس کا بھی حساب کئے لیتے ہیں۔ آپ نے کتنے قرضے لئے اور کتنے ادا کئے۔ اجاڑ دیا آپ نے سب کچھ اجاڑ دیا۔ آپ کا دعویٰ تھا کہ جب اوپرکوئی دیانتدار آدمی آتا ہے تو لوگ جوق در جوق ٹیکس دینے چلے آتے ہیں کہاں ہیں وہ لوگ! حضور اس کا جبیں پر شکن جواب نہیں۔ انسان جواب مانگتا ہے۔ کوڑی کوڑی اور پائی کا حساب نہ سہی۔ سیدھا سادہ‘ موٹا موٹا حساب تو دے دیجیے۔ یہ بات زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی کہ یہ سب کچھ پرانی حکومتوں کی طرف سے ہوا۔ بہت ہوگئی۔ بس بھئی اب بس۔ سلیم احمد کی نظم اکثر یاد آتی ہے کہ مشرق ہار گیا ہے۔ اس جنگ میں بھی مشرق ہار گیا ہے سی پیک ٹھپ کر دیا گیا اور مغرب جیت گیا۔ آئی ایم ایف آن ٹپکا ہے۔ میں نے پہلی بار یہ لفظ اس وقت سنا تھا جب کئی برس پہلے ارجنٹائن اور آئی ایم ایف کے درمیان پھڈا ہوا تھا کہتے تھے آئی ایم ایف کا اصرار ہے اپنی معیشت کو سست کرو کہ(over Heated)زیادہ گرم ہوگئی ہے ذرا ٹھنڈا کرو۔ نہ بات اس وقت سمجھ آئی تھی نہ اب آئی ہے لاطینی امریکہ تو امریکہ بہادر کا پچھواڑہ ہے اور وہاں انہوں نے منرو ڈاکٹرائن علی الاعلان چلا رکھا تھا کہ دنیا اس طرف کا رخ نہ کرے۔ یہ ہماری قلم ہے‘ یا ہمارے زیر تسلط ہے اب مگر یوں لگتا ہے وہ ہماری طرف بھی اسی انداز سے آ گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے سی پیک بہتر ہے رول بیک کرو‘ ورنہ روک دو میں عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کا موجودہ اقتصادی بحران بنیادی طور پر معاشی نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے۔ یہ سی پیک ۔بمقابلہ مغرب کا مسئلہ ہے\ مغرب کا نام اب ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بنک وغیرہ ہے۔ ایک زمانے میں ان دو کے ساتھ امریکی وزارت خزانہ کو شامل کر کے واشنگٹن گٹھ جوڑ کا نام دیا جاتا تھا۔ ہمارے پاس دو راستے تھے کہ ہم نے جس طرح اپنا انرجی کا بحران حل کیا ہے۔ نقل و حمل کے ذرائع کو ترقی دی ہے اس طرح آگے بڑھتے رہتے اور ترقی کی رفتار کم نہ کرتے ان کااصرار ہے آپ کو کرنا پڑے گا۔ وہ ہم نے کر دیا ہے۔ ہم نے سی پیک کی رفتار اس حد تک کم کر دی کہ کچھ ہو بھی نہیں رہا ہمارے سارے خواب چکنا چور ہو گئے ہم نے 2020ء تک شرح نمو کو 7فیصد تک لے جانا تھا۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب قوموں کی معاشی ترقی ان کی سماجی ضرورت کے ہم قدم ہوتی ہے اور نئے افق کھلنے لگتے ہیں۔ پتا نہیں مغرب ہمیں کیوںاپنا دست نگر رکھنا چاہتا ہے۔ سچ کہوں نیا تو ہے مگر شاید کہنا نہیں چاہتا۔ اسے ہماری خود انحصاری کی کوئی کوشش پسند نہیں آئی۔ اس نے ہمیں افغان جنگ کے خلاف سٹنکر میزائل تو دیے مگر نہ اقتصادی ترقی میں ہماری مدد کی نہ عسکری میدان میں خود انحصاری حاصل کرنے دی۔ ایک بار پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس میدان میں بھی ہم نے مغرب سے جو کچھ حاصل کیا وہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی سے نہیں ریورس انجینئرنگ سے کیا۔ صاف لفظوں میں چین نے ہمیں دفاعی پیداوار کے شعبے میں خودمختار بنایا اور امریکی ٹیکنالوجی ہم نے سیکھی تو خود‘ یوں کہہ لیجیے ‘ چوری کی یا ان کے دیے ہوئے ہتھیاروں کو خود سمجھ کر حاصل کی۔قرضہ لینا بری بات نہیں بشرطیکہ ملک کی ترقی کرے۔ دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک میں ابتدا میں ترقی کا یہی ماڈل ہوا کرتا ہے ۔ترقی ہوتی ہے تو صرف لوگوں کی زندگی بہتر نہیں ہوتی۔ ریاست کی مالی حالت بھی اچھی ہوتی ہے ہمارے ہاں بھی ترقی ہوئی تو ریاست کی آمدنی بھی بڑھی۔ ہم جو دو ہزار ارب ٹیکس نہیں لے پاتے تھے چار ہزار ارب ٹیکس لینے لگے اسی لحاظ سے پہلے دفاع پر اگر 5500بلین خرچ ہوتے تھے تو اب1100بلین خرچ ہونے لگے اور ریاست پر اس کا کوئی بوجھ نہ پڑا کیونکہ یہ ریاست کی آمدنی کا اتنے فیصد ہی تھا جتنا پانچ سال پہلے تھا۔ اس سال یہ حال ہو گیا کہ ہم ٹیکس وصولی کا ہدف بھی حاصل نہ کر پائے کہاں گئے وہ دعوے کہ حکمران نیک پارسا دیانتدار ہوں تو لوگ خود ٹیکس دیتے ہیں ۔لوگوں نے تو ٹیکس نہیں دیا اور شاید پہلی بار ہم نے ایسا کیا کہ ہم اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہی نہیں کر سکے۔ حالانکہ ہمارے سلامتی کے تقاضے اس کا احساس دلاتے تھے۔ آمدنی ہو گی تو ہم اضافہ کر پائیں گے۔ اسی طرح قرضے کی بھی یہی صورت ہوتی ہے ملک کی آمدنی زیادہ ہو تو قرضے ملتے بھی ہیں اور ان کی ادائیگیوں کی سبیل بھی نکل آتی ہے۔ قرضے بھی قومی آمدنی کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس میں ایک اجلاس بلایا بہت سے لوگ موجود تھے زیادہ تر صحافی تھے ۔حساب کتاب سے سمجھایا کہ اتنا قرضہ واپس کرنا ہے اتنا دفاع پر خرچ کرنا ہے اور یہ کہ ہمارے پاس صرف 150بلین باقی بچتے ہیں۔اب بتائیے اس سے ملک کیسے چلے گا۔ یہ 150ارب مرے ذہن میں چپک کر رہ گئے ہیں پھر کہا یہ صورت حال بتانے کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی مایوسی کا اظہار کر رہا ہوں انشاء اللہ ہم ملک کو آگے لے کر جائیں گے مقصد صرف آپ کو اصل صورت حال بتانا تھا۔ کہنا یہ ہے کہ یہ جو آج کل ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ پرانوں کے قرضے اتارنے کے لئے قرضے لے رہے ہیں یہ صورت حال نئی نہیں ہے تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ہماری قومی آمدنی اتنی بڑھ چکی تھی کہ ہم بہت سے کام کر سکتے تھے اور کر رہے ہیں۔ قرضے بھی کوئی آپ کو ایسے نہیں دیتا۔ آپ کاروبار میں ہوں تو بنک آپ کی مالی حالت کا جائزہ لیتے ہیں۔ حالت اچھی ہو تو دست بستہ قرضے خود پیش کرتے ہیں۔ بری ہو تو دور سے سلام کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی قرضہ ایسے نہیں ملا کرتا اور اگر ملے تو ساہوکار کڑی شرائط عائد کرتا ہے ہم عالمی ساہوکاروں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ جی ہاں وہی جنہیں ہم عالمی اقتصادی دہشت گرد کہتے ہیں پاکستان میں وہ لابی کامیاب ہو گئی ہے جو ہمیں چین سے دور لے جانا چاہتی تھی اورجو نئی حکومت کے آتے ہی خاص طور پرسرگرم ہوگئی اگر ہم نے خطے کی نئی صورت حال کا جائزہ لیا ہوتا تو ہمیں معلوم ہو جاتا کہ یہ سب کچھ ہمیں نوازنے کے لئے نہیں کیا جا رہا بلکہ شکست دینے کے لئے یا کمزور کرنے کے لئے ہو رہا ہے کیونکہ خطے میں جو نیا عسکری اتحاد بنا ہے ہم ان میں کہیں نہیں ہیں۔ ایک بات یاد رکھیے یہ اتحاد نیا نہیں ہے۔ یہ بحر ہند اوربحرالکاہل کے پانیوں کی دنیا ہے جہاں پہلے مغرب‘ جاپان کے ذریعے آیا تھا اب اسے ڈر ہے چین یہاں چھا جائے گا۔ جب سے امریکہ کے نوقدامت پسندوں (Neo Cour)نے چین کی ترقی کوکم ازکم پچیس سال تک روکنے کا آغازکیا اسی وقت یہ نئی حکمت عملی سامنے آنے لگی تھی۔ اوباما نے اسے ایشیا پائوٹ(Asia Pivot) کا نام دیا۔ بحر جنوبی چین میں اپنی فوجی قوت کو مضبوط کرنا۔ آسٹریلیا جاپان کے ساتھ بھارت کو شامل کیا گیا۔ اب اس کا کھل کر اعلان ہو رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں ایشیا کے مطالعے کا مطلب اسی خطے کا مطالعہ تھا۔ اس اتحاد میں ہم غیر ہیں۔ ہم سے کوئی اب امریکا کا تزویراتی اتحاد نہیں ہو گا۔ اس کی دفاعی حکمت عملی میں ہم جلد غیر متعلق نہ سہی کم از کم ’’غیر‘‘ ضرور ہونے والے ہیں ہماری ضرورت اب ثانوی منصوبوں میں رہے گی۔ حکمت عملی بدل چکی ہے ایک معیشت دان نے مشورہ دیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا۔ اب جیوسٹریٹجک صورت حال بدل چکی ہے۔ میں نے اس کا ترجمہ یہ کیا تھا کہ اب آپ کو ایف 16کی نہیں تھنڈر ایف 17کی ضرورت ہے۔ آئندہ جنگی ضروریات کے لئے آپ کو سیکھ لینا چاہیے کہ آپ کو مغرب سے دشمنی کے سوا کچھ نہیںملے گا۔ آپ کو مشرق کی طرف دیکھنا ہو گا۔ مگر یہ نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ ہم نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے سچ کہوں تو ہم ڈر گئے ہیں۔ ویسے تو مغرب کا خوف کبھی ہمارے اندر سے نہیں نکلا۔ مگر اب کی بار تو اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ جو ہم بار باربھارت کے منت تڑلے کر رہے ہیں اور وہ کمال رعونت سے سر جھٹک کر اورراہ بدل کر گزر جاتا ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اسے خطے کا پولیس مین بنایا جا رہا ہے اورہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم یہ قبول کر لیں۔ اس کے لئے بھی ہمارا چین سے دور ہونا ضروری ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم خود انحصاری کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں یا ایک طفیلی ریاست بن کر رہنا چاہتے ہیں اس بار کا بجٹ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نے دوسری راہ اختیار کرنے میں عافیت سمجھی ہے۔تو اے عافیت کوش انسانوں‘ پھر سوچ کیا رہے ہو ہو سکے تو شاہ محمود قریشی کو مودی کے وزیر خارجہ کے حضورپیش کرنے کا بندوبست کرو۔رونایہی ہے‘جو آزادی ہم نے بڑی جدوجہد سے حاصل کی تھی‘ اسے کیا طشتری میں رکھ کر پیش کر دیں گے۔