18 اگست 2018ء کو جناب عمران خان نے خلوص نیت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن،اپریل /مئی 2019ء کے عام انتخابات جیتنے کے لئے وزیراعظم نریندر مودی نے زبانی کلامی اور اور بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے جارحیت کا مظاہرہ کِیا ہے ۔ حالانکہ 26مئی 2014ء کو جب مودی جی نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا تو، اُنہوں نے بھی ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی طرح ’’ امن کی آشا دیوی‘‘ کو پاکستانی سرحدوں کی طرف دھکیل دِیا۔ اِس پر ’’دجل فریب امن کی آشا ‘‘ کے عنوان سے مَیں نے فوراً ہی کالم لکھ لِیا تھا ۔ میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے دونوں شعر یوں تھے /ہیںکہ… کرتے ہو، کیوں کھیل تماشا؟ مَیں کیا جانوں ، پرائی بھاشا؟ …O… مُنہ میں رام ، چھری ہے بغل میں! دجلؔ فریب، امن کی آشا! معزز قارئین!۔ جنابِ عمران خان نے18 اگست کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا اور خلوص دِل سے وزیراعظم مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو، مَیں نے اپنے 29 ستمبر 2018ء کے کالم میں عرض کِیا کہ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ یا ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے کسی بھی بھارتی وزیراعظم پر اعتبار نہیں کِیا جاسکتا، اِس لئے کہ اُنہوں نے تو، مسئلہ کشمیر کو پُر امن طور پر حل نہ کرنے کی قسم اُٹھا رکھی ہے‘‘۔ ’’لائن آف کنٹرول‘‘ کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے بھارت کے جن جنگی طیاروں نے جارحیت کا مظاہرہ کِیا ہے اُس سے تو، اہلِ پاکستان کو ، ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ یاد آگئی جب ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی مسز اندرا گاندھی وزیراعظم تھیں ۔ اُس جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج ہی نہیں بلکہ پوری قوم جنگجو بن گئی تھی۔ پاکستان کے سارے شہروں کے لوگ اُس جنگ میں شریک تھے ۔ پوری دُنیا نے پاکستان کی مسلح افواج کے شہیدوں اور غازیوں کی تب و تابِ جاودانہ کا مظاہرہ دیکھا۔ اُن دِنوں مَیں سرگودھا میں تھا۔ پاکستان کی مسلح افواج اور اہلِ پاکستان کی شان میں مَیں نے دو ملّی ترانے لکھے ۔ ایک ترانہ ’’محکمہ تعلقاتِ عامہ مغربی پاکستان ‘‘کی شائع کردہ ملّی نغموں کی ضخیم کتاب میں بھی شائع ہُوا اور دوسرا ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا۔سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود جنوری 1999ء میں’’پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل تھے ، جب موصوف نے کئی شاعروں کے ملّی ترانوں کو از سر نو ریکارڈ کروایا۔ حسب ذیل میرا ملّی ترانہ ، پٹیالہ گھرانہ کے جناب حامد علی خان نے گایا تھا۔ ’’اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو!‘‘ …O… زُہرہ نگاروں ، سِینہ فگاروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… یوں حُسن لازوال سے ،رَوشن ہیں بستیاں! جیسے کہ آسمان سے ،اُتری ہو کہکشاں! تیرے فلک کے ،چاند ستاروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… مٹی کا تری رنگ ،زر و سیم کی طرح! دریا رواں ہیں ،کوثر و تسنیم کی طرح! جنّت نشان ،مست نظاروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… دُنیا میں بے مثال ہیں ، ارباب فن ترے! ہر بار فتح یاب ہُوئے صَف شِکن ترے! شاہ راہ حق کے، شاہ سواروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… پھیلے ہُوئے ہیں ، ہر سو، وفائوں کے سِلسلے! مائوں کی پر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے! مضبوط ، پائیدار ، سہاروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! معزز قارئین !۔ مَیں بھارت کی تازہ ترین جارحیت کے بعد پھر پاکستان کی مسلح افواج اور غیّور پاکستانیوں کے جذبہ ٔ ایمان کی حرارت کو دیکھ رہا ہُوں۔ آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے۔ مجھے پاکستان سے بے حد محبت ہے۔ میرے والد صاحب تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان ، ہندو دہشت گردوں اور سِکھوں سے لڑنے کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز کو ’’ لٹھ بازی ‘‘ سِکھایا کرتے تھے ۔ مشرقی (اب بھارتی ) پنجاب کی دو سِکھ ریاستوں ۔ نابھہؔ ، پٹیالہ اور ضلع امرتسر میں میرے خاندان کے 26 افراد زیادہ تر سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ۔ معزز قارئین!۔ قیامِ پاکستان کے بعد، مشرقی پنجاب کی مسلمان ریاست مالیر کوٹلہؔ سے قصور آنے والی ٹرین میں سَوار ،دو اڑھائی سو مسلمان مسافروں (جن میں ہمارا خاندان بھی شامل تھا ) مسلح سِکھوں نے گھیر لِیا تھا کہ اچانک ’’بلوچ رجمنٹ ‘‘ (Baloch Regiment) کے افسران اور جوانوں نے وہاں پہنچ کر ہم سب کی جان بچا لی تھی۔ مَیں نے اپنی محسن فوج ۔پاکستان کی فوج کو پہلی مرتبہ دیکھا ۔ اُس کے بعد مَیں ،جب بھی پاک فوج کے کسی افسر یا جوان کو دیکھتا ہُوں تو، مجھے اپنی محسن ’’بلوچ رجمنٹ‘‘ یاد آ جاتی ہے۔ آج مجھے تحریکِ پاکستان کے کئی مرحومین ( گولڈ میڈلسٹ) کارکنان یاد آ رہے ہیں خاص طور پر مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ اور 1965ء کے صدارتی انتخاب میں صدر محمد ایوب خان کے مقابل قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی (سرگودھا میں ) انتخابی مہم کے انچارج قاضی مُرید احمدؒ ۔ ریڈیو پاکستان سے میرا ترانہ تشر ہُوا تو، اِن دونوں بزرگوں نے مجھ سے بغل گیر ہو کر مجھے شاباش دِی اور میرے والد صاحب کو مبارکباد۔ ’’مادرِ ملّت‘‘ کی انتخابی مہم کے آخری مرحلے (دسمبر 1964ء )میں قاضی مُرید احمد ؒمجھے اور میرے صحافی دوست مرحوم تاج اُلدّین حقیقت ؔامرتسری کو ،کونسل مسلم لیگ کے مندوبین کی حیثیت سے لاہور لے گئے جہاں ،اُنہوں نے مسلم لیگی لیڈر میاں منظر بشیر کے گھر المنظر ؔمیں مادرِ ملّت سے ملوایا تھا ۔ معزز قارئین!۔ ہمارے ساتھ تحریکِ پاکستان دو کارکنان پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم اور لاہور کے میاں مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری نے بھی ’’ مادرِملّت ‘‘ سے ملاقات کی ۔ میاں محمد اکرم ،’’نوائے وقت ‘‘ کے سینئر صحافی اور شاعر برادرِ عزیز سعید آسیؔ کے والد تھے اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ، موجودہ چیئرمین "P.E.M.R.A" مرزا محمد سلیم بیگ کے والد۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا ۔ آج بیگ صاحب مجھے اِس لئے بھی یاد آ رہے ہیں کہ ’’ جب پاکستان کی مسلح افواج اور اہلِ پاکستان کی شان میں لکھا گیا میرا ملّی ترانہ بار بار یڈیو پاکستان سے نشر ہُوا تو، وہ اپنے دو دوستوںکو ساتھ لے کر مجھے مبارک باد دینے کے لئے سرگودھا تشریف لائے تھے ۔ امریکہ میں ’’دولتّی مارتا ہُوا گدھا‘‘ (Kicking Donkey) کے انتخابی نشان والی ’’ ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ کی حکومت ہو یا ہاتھی (Elephant) کے انتخابی نشان والی ’’ری پبلیکن پارٹی ‘‘ کی ، اُن کا جھکائو بھارت کی طرف ہوتا ہے ۔ 25 جنوری 2015ء کو امریکی صدر "Barack Obama"اپنی اہلیہ "Michelle Obama" اور ایک بڑا وفد لے کر دہلی پہنچے تو، وزیراعظم نریندر مودی کی طاقت میںاضافہ ہوگیا۔ اِس پر 27 جنوری کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’مودی جی ،تے صدر اوباما دِی، گودی جی!‘‘۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے دونوں مکمل یوں شعر یوں تھے / ہیں … خُوش ہواے ٗ مہمان نُوں مِل کے، مودی جی! پَیلاں پاوَن لگ پئی ٗ اُونہاں دی ،بودی جی! دِلّی تے واشنگٹن چَھپ گئیّاں تصوِیراں! مودی جی تے ٗ صدر اوباما،دی ٗ گو دی جی! معزز قارئین!۔ نومبر 2016ء میں "Mr.Donald Trump" نے اپنی انتخابی مہم کے دَوران خطاب کرتے ہُوئے کئی بار کہا کہ "I Love India and Indians" لیکن، پھر نہ جانے کس کے مشورے پر اُنہوں نے کہا تھا کہ "I Love Pakistan too"۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کی کابینہ کے دوسرے ارکان اب بھی اِسی طرح کے بیانات جاری کر رہے ہیں کہ ’’ بھارت اور پاکستان ، امن کا راستہ اختیار کریں !‘‘۔ یہ اُن کی مرضی ؟ لیکن، میرا تو اپنے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ اور اپنی طرف سے پاکستان کی مسلح افواج ، حکومت پاکستان اور ہر پاکستانی کو یہی پیغام ہے کہ … چنگا ہووے، سانبھ کے رکھّے، اپنی داڑھی ، بودی نُوں! کِتے اُجاڑ نہ دیوے ، اپنی دھرتی ماں دی گودی نُوں! …O… جیکر ساڈیاں، سرحداں وَل ، دیکھے میلِیاں اکھاں نال! پاکستان دے غازی مردو! مزا چکھا دیو مودی نُوں!