وطنِ عزیز،اچھی شاعری اور معقول لوگوں سے ہماری محبت ہمیشہ شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے۔ عشق کی طرح اچھی شاعری بھی احساسات و جذبات کے ایسے آتشیں دریا کی مانند ہے، جس میں ڈوب کر سفر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ شاعری دراصل اوسان اور اوزان کی بحالی کا نام ہے۔ حرف، ظرف اور شرف باہم ہو جائیں تو زندہ شاعری کی توفیق وجود میں آتی ہے۔ یہ شعار کو شعور کے ہم رکاب کرنے کا عمل ہے۔ وجدان کو زبان اور عزم کو نشان دینے کی کاوش ہے۔ ہواؤں میں چراغ جلانے اور انھیں لہو کا تیل فراہم کرتے چلے جانے کا عزم ہے۔ بقول شخصے: ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی سعی ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ملک بھر سے ایسی محبتیں کثرت سے موصول ہوتی رہتی ہیں۔ ہجر کو دھڑکن بخشنے والے فیصل زمان چشتی کے کلام کا مطالعہ کریں تو ان کے ہاں احساس کی شدت اور جذبے کی حدت کو محسوس اور ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ فیصل کے ہاں ہمیں ایک توانا شاعر اور ایک سچا محبِ وطن، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے قامت اور استقامت کے ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس بات سے بہ خوبی آگاہ ہے کہ نہلوں کو سر آنکھوں پر بٹھانے والوں کے اس دیس میں، فن کی سچی خدمت کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارا یہ خوب صورت شاعر اپنی اس پاک سر زمین کے لیے کسی دنیاوی مفاد پرست کے ساتھ آنکھیں اور ذہن بند کر کے چلنے کے لیے تیار نہیں۔ جسے خود داری و خودرائی کا ملکہ قدرت کی طرف سے ودیعت ہو، وہی اس طرح کا دو ٹوک موقف اختیار کر سکتا ہے: عشق کردار ہے ، معیارِ جہاں بانی ہے پھر بھی کہتے ہو کہ اس کھیل میں ہم ہار چلے مَیں نے خوابوں کے نشیمن میں گزارا جیون جرم بھاری ہے بڑی سخت سزا دی جائے ڈاکٹر خالدہ انور کا ’’کہاں گمان میں تھا‘‘ بھی شعری توقیر سے مالامال مجموعہ ہے۔ وہ زبان و بیان کے سبھی سلیقوں سے واقف ہیں۔ مشاعروں میں ان کا خوبصورت ترنم بھی ان کی شاعری کی تاثیر کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر خالدہ کی شاعری دل اور دنیا کی پٹڑی پہ توازن کے ساتھ رواں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ہاں محرومیوں کے ہاتھوں مغلوب یا مصلوب اور زمانے کی ستم ظریفیوں سے مرعوب ہونے سے زیادہ حالات پرغالب آنے کا جذبہ کارفرما ہے: روشنی کی سبیل کرتے ہیں کاغذوں پر بنا بنا کے چراغ کوئی سورج وہیں سے اُبھرے گا جا رہی ہوں جہاں دبا کے چراغ عورت کا استحصال ہر زمانے میں کسی نہ کسی صورت جاری رہا ہے۔ وہ اس کے خلاف سراپا احتجاج تو نہیں بنتیں لیکن سلیقے کے ساتھ مرد غالب معاشرے کی غلط بخشیوں کی جانب اشارہ ضرور کر دیتی ہیں۔ بعض جگہوں پہ محسوس ہوتا ہے کہ دل پہ لگی چوٹ نے عروض کا قالب پہن لیا ہے: باندھ کر میرے برادر مجھے قرآن کے ساتھ نام اپنے مِری جاگیر کیے جاتے ہیں ’بے صَوت رنگوں کا شور‘ انقلابی شاعر صابر رضا کا چوتھا شعری مجموعہ ہے، جسے قلم فاؤنڈیشن کے علامہ عبدالستار نے اہتمام کے ساتھ شایع کیا ہے۔ صابر رضا واقعات کی تلخی کو صداقت کی مٹھاس کے ساتھ بیان کرنے کا قرینہ جانتے ہیں۔ ان کا دبنگ نمونۂ کلام دیکھیے: محبتوں کی کبھی دوستی کی تحریریں مَیں لمحہ لمحہ لکھوں زندگی کی تحریریں جو آج تک نہ بِکی وہ زبان رکھتا ہوں جو آج تک نہ جھکی وہ جبین میری ہے شہباز نیّر لمحۂ موجود کا متحرک و منفرد شاعر ہے۔ اس کے ہاں شاعری زندگی کی دھڑکنوں کے ساتھ تخلیق ہوتی ہے۔ وہ جمال کے کمال کے ساتھ شاعری کی جولان گاہ میں اترتا ہے۔ چھوٹی بڑی بحروں میں اس کا قلم یکساں رواں ہے۔ ’تمھارے جیسا کوئی نہیں ہے‘ اُس کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ تین شعر دیکھیے: تیری خواہش پہ جو ہو جاتا تھا دانہ دانہ وہ تِرے ہاتھ کی تسبیح نہیں تھی، مَیں تھا نرم، شیریں، سحر انگیز، مِری جاں رب نے کیا تِرا لہجہ بنایا ہے ، مزہ آیا ہے! دیکھ! مَیں تجھ میں جی رہا ہوں بہت دیکھ! تُو مجھ میں مر نہ جائے کہیں اسد اعوان غالب کا ہم نام شاعر ہے، وہ اِس اِسم کا خوب فائدہ بھی اٹھاتا ہے ۔ اسد اعوان معاشرے میں تہہ در تہہ کسمساتی حقیقتوں کو آنکھ کے کیمرے کی مدد سے اشعار کے چوکھٹوں میں سجانے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ کسی بھی طرح کے سماجی جبر پہ جِز بِز ہونے کی بجائے اپنی مضبوط قوتِ ارادی اور لطافتِ شعری سے اسے مثبت زاویہ عطا کر دیتا ہے۔ چند اشعار: خود بخود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے روہی کے خوش جمال کی یادوں میں رات بھر تنہائیوں میں سنتے ہیں کافی فرید کی یاد آتی ہے ہمیں چاندنی راتوں میں اسد اِک گلی شہر میں تھی رات کی رانی والی ہم بھی غالب کی طرح کوچۂ جاناں سے اسد نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے ڈاکٹر صائمہ شمس اُردو کی استاد ہیں اور گہرے احساس کی دولت سے مالا مال۔ اُردو غزل میں مرگ و حیات کے تصور پر ڈاکٹریٹ کی۔ ’اِک چراغ کافی ہے‘ ان کی نظموں کا گلدستہ ہے، جس میں ایک زخم کھائی روح کی سسکیاں نظموں میں ڈھل گئی ہیں، ان کی ایک نظم ’’تعلق‘ ملاحظہ ہو: مِرا تم سے تعلق اس قدر ہے/ کسی دیوار پہ جیسے لکھا ہو/ کہ اس دیوار پہ لکھنا منع ہے۔