میں ان کا ہمیشہ سے قدردان رہا ہوں ۔روزنامہ حریت کی ایڈیٹری اور نیوز ایڈیٹری کے دوران کا چرچا سنا۔ وہ مگر لندن بی بی سی میں جا چکے تھے۔ لکھنؤ کی زبان کا اپنا رنگ ہے۔ نقن میاں جب پاکستان ہمارے عہدِشعور میں آئے تو میں نے ان کے دونوں عشرے سننے۔عقیدے کے فرق کے باوجود اس سے بہت کچھ پایا۔زبان کا چسکا صرف زبان کا معاملہ نہیں ہوا کرتا‘ اس کے پیچھے پوری ایک تہذیب ہوتی ہے۔ رضا علی عابدی کی تحریروں میں مجھے اس کی تلاش رہی ہے۔ وہ ہندوستان گئے اور آتے ہوئے اپنے لئے کئی یادداشتیں لے کر آئے۔ میں نے اسے اپنی تہذیب کا وہ کھویا ہوا باب سمجھ کر پڑھا جو اب شاید آنے والی نسل میں کوئی نہ بیان کر سکے۔ یہ میں رضا علی عابدی کی بات کر رہا ہوں نا۔مرے ماں باپ کو بھی اپنا امرتسر بہت یاد آتا تھا۔ یہ شہر میں نے دیکھا نہیں اگرچہ پیدا وہیں ہوا ہوں تاہم مرے دل میں بستا ہے۔ آج عابدی صاحب نے کیا نوحہ یاد دلایا ہے جو انٹرنیٹ کی بدولت انہوں نے دوبارہ سنا ہے۔ وہ بتاتے ہیں یہ ایک فریادی نوحہ ہے جس کی کچھ روایات تھیں۔ جب کوئی آفت ٹوٹ پڑتی کوئی بلا نازل ہو جاتی‘ کسی کے مرنے جینے کا سوال ہوتا‘ اس وقت عموماً گھر کی بیبیاں کھلے آسمان کے تلے بال کھول کر یہ نوحہ پڑھا کرتی تھیں۔ کیا کہنے‘سینہ شق ہو جاتا ہے زرا سنئے تو! اے کل کے مددگار‘مدد کرنے کو آئو‘فریاد کو پہنچو۔ کیا درد کیا لجاجت کیا سوز ہوتا ہو گا اس وقت اس فریاد میں۔آسمانوں کے کنگرے ہل جاتے ہوں گے‘ مجھے اپنی ماں یاد آئی جو نجانے صبح کی نماز کے بعد کیا کیا پڑھا کرتی تھی۔ گھر کی سبھی عورتوں کا یہ معمول تھا۔وظیفہ تھا۔ مری بارکیوں؟دیر اتنی کری پھر گستاخی سمجھ کر اسے بدل بھی دیا کرتی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم وہ کتابچے اب چھپتے ہیں یا نہیں جن میں یہ بہت کچھ ہوتا تھا۔ ہم اب تو دعائوں کی سند تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ آج معلوم ہوا دل کی فریاد کی کوئی سند نہیں ہوتی۔ لازم نہیں کہ یہ کسی عالم فاضل یا صوفی درویش سے منسوب ہو۔ رضا علی عابدی ہی نے بتایا کہ یہ امرائو جان ادا جیسے شہرہ آفاق ناول کے مصنف مرزا محمد ہادی رسوا کا لکھا ہوا تھا۔ پھر ایک خوبصورت پیرا تاریخ ادب کی اس لازوال شخصیت پر لکھا۔ مری بات کی تصدیق ہوئی کہ تہذیبی میراث کیسے وجود پاتی تھی۔ میں نے آپ کو بہت گھومایا ہے۔ رضا علی عابدی کے مطابق یہ فریاد کورونا کے ہیبت ناک حملوں کے پس منظر میں ہو گی مگر اس سے ہندوستان کے مسلمان بھی یاد آتے ہیں جن پر آج ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ دل لگتی کہوں‘مجھ بیچارے پاکستانی کو اپنے تناظر میں کورونا کے ساتھ پاکستانی ملت اسلامیہ کی حالت زار یاد آ رہی ہے۔ ہم کیا بننے چلے تھے اور کیا بنا دیے گئے ہیں حکمرانوں کا انداز دل چھلنی کر رہا ہے۔ مرا دل میری ماں کی طرح شاید یہ کہہ رہا ہو کہ مری بار کیوں دیر اتنی کر ی۔مجھے چشم تصور میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ مری ماں بیٹیاں کھلے آسمان تلے سر کے بال کھولے فریاد کر رہی ہیں۔ اے کل کے مددگار ‘مدد کرنے کو آئو‘فریاد کو پہنچیو میں نے مرزا محمد ہادی رسوا کے لئے فاتحہ پڑھی ہے۔ اے خدا ہمیں ہر عذاب سے نجات دلا۔ ملک کے بندوبست کو بہتر کر۔ ہم سے بڑی خطائیں ہوئی ہیں۔ ہمیں معاف کر دے اب تو حد ہو گئی۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب دل پر غم کے پہاڑ نہ ٹوٹتے ہوں۔ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے۔ میں نہیں کہتا بدل دے ۔بس یہ کہتا ہوں بہت ہو گئی۔ مولا‘اب رحم کر رحم کر! آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے بادلوں ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لئے اس وقت برصغیر کا ماحول ایسا ہی ہو گا۔ مجھے اپنی ایک تقریر یاد آ گئی ہے۔ مولانا ماہر القادری کی رحلت پر مجھے لاہور والوں نے کراچی سے بلوا بھیجا۔ اللہ نے مرے دل میں ایک بات ڈال دی۔ میں نے تین ادبی شہ پاروں کے حوالے دے کر ان کا تجزیہ کیا کہ یہ اسلامیان ہند میں کیوں مقبول ہوئے۔ایک مسدس حالی‘دوسرا اقبال کا شکوہ جواب شکوہ اور تیسرا ماہر القادری کا سلام۔ملت اسلامیہ اس وقت بہت مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔ غلامی کے دور میں انہیں وہ آقائے نامدارؐ یاد آتے تھے جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا اور ٹوتا بوریا جس کا بچھونا تھا۔ مگر جس نے ہم بے کسوں کی دستگیری کی۔ اس زمانے کے فرعون جب گردنیں تانے بیٹھے تھے اور جن کے درباروں میں بار پانا بھی آسان نہ تھا۔ مجھے یاد ہے میں نے اس سلام کے کئی مصرعے پڑھ کر اس کی روح کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یہی سوچ حالی کی مسدس میں کارفرما تھی اور اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ اسی دل سے اٹھی ہوئی آواز تھی۔ مجھے غلامی کی دوسو سال کی تاریخ کا بہت کچھ یاد آ رہا ہے اور میں اس میں کھو گیا ہوں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہمارا دور غلامی ہمارے فکرو ادب کا سنہرا دور تھا۔ہم نے ایسے لوگ پھر کب پیدا کئے ہیں۔ہماری تہذیب اپنی پوری قوت کے ساتھ اظہار پاتی تھی اور یوں ہمارا رابطہ براہ راست اپنے رب سے قائم ہو جاتا تھا۔ اب دل نہیں کرتا کہ میں آج کے حالات کا نوحہ لکھوں۔جانے کن دنوں اور کیوں میں نے اس کالم کا نام شہر آشوب رکھ دیا تھا۔ ان دنوں کراچی کے حالات ایسے ہی ہوں گے۔ ہم ہر روز عذاب سے گزرتے ہوں گے۔تاہم کچھ امید تھی کہ ہمارے اہل سیاست اور اہل اقتدار ملک کو ہر مشکل سے نکالنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آج تو شاید ہر طرح کی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ میں نے انٹرنیٹ پر یہ نوحہ نہیں سنا‘ مگر مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کا مسلمان ہی نہیں پاکستان کی مستورات بھی کھلے آسمان تلے بال کھولے فریاد کناں ہیں۔ حد ہو گئی حد آسمانوں سے نالوںکا جواب ضرور آئے گا۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ مملکت خدا داد کا سارا سرمایہ لٹ جائے اور مرا خدا اسے دیکھتا رہے۔ مجھے یقین ہو گیا ہے آسمانوں سے رحمتوں کا نزول ہونے والا ہے۔ ضرور فریاد سنی جائے گی۔ ضرور آہیں آسمان تک پہنچیں گی۔ ضرور ہمارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ ضرور ‘ ضرور‘انشاء اللہ ضرور!