قوم تو آخر قوم ہی ہوتی ہے۔ لاکھ انکار کرے کوئی حالات کی زد میں آ کر‘ بیزار مرتبہ کوئی آنکھیں موند لے اور بارہا کوئی ضمیر کا سودا کرے لیکن ایک خفیہ اور خاموش گہرا تعلق قوم کے رشتے کو قائم رکھتا ہے۔ دین سے قومیں بنتی ہیں اور دھرم کبھی بھی کمزور نہیں پڑتے دلوں میں۔ بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ پھر ان کے بچے ہوئے دوسرے بین الاقوامی حواری جن کا پیشہ حیات ظلم کے توسیع پسندانہ منصوبے ہیں۔ ان کی نگاہ کا آخری ہدف دنیا کے کسی بھی خطے کا وہ سادہ مسلمان ہے جو اپنی زندگی کو پرامن رکھتا ہے اور دوسروں کی زندگی کو بھی پرامن دیکھنا چاہتا ہے جو زندگی کی سادگی کو فروغ دیتا ہے۔ دھوکہ فریب اور سازش کی آلودگی سے اپنی ذات کو پاک صاف رکھنا چاہتا ہے لیکن دنیا بھر کے کفر سے لیس غیر مسلم حکمران‘ غیر مسلم مفکرین دجل و فریب کی ایسی دلفریب فضا سنوارتے ہیں کہ ایک سادہ مسلمان اس فضائے مکر میں ان کافروں کا آسان شکار بن جاتا ہے۔ وہ مسلم دنیا کو پہلے تو نفاق کی چھڑی سے ہانکتے ہیں اور ان کی نسل نو کو طلسم ہوشربا کی دنیا میں ایسے پہنچاتے ہیں کہ ان مسلم نوخیز کو زندگی کا لطف حقیقی ان کی دوستی ہی میں محسوس ہوتا ہے ان کی جواں خیزصلاحیتیں ان کافروں کی فریب کاری کا شکار ہو کر غیر مفید اور غیر انسانی ہوتی چلی جاتی ہیں ان کی اخلاقیات اور ان کے معاشرتی رویے ایسے ہی مرتب ہوتے چلے جاتے ہیں جو کفار کو مطلوب ہوتے ہیں۔ کفار کی دوستی اور ان کی زندگی کو اپنی حیات کا سنگ میل بنانا ہی مسلم نوجوانوں کی زندگی کے زوال کا سندیسہ ہوا کرتی ہے۔ ایک بین الاقوامی ماحول میں دشمنان اسلام قوتوں نے امت مسلمہ کی ثقافت اور معاشرے کے بگاڑ کے لیے نوخیز اذھان پر جو ابلیسی پنجے گاڑے ہیں وہ ہمارے اہل نظر اور صاحبان بصیرت دانشوروں پر پوری طرح سے عیاں ہے۔ وہ جوانوں میں دین بیزاری کے جذبات کے جراثیم نہایت آہستگی اور خفیہ طریقے سے اتارتے ہیں اور پھر ان کی پرورش کے لیے کرائے کے دانشوروں کو اپنے مذموم اور گھنائونے ارادوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گا۔ مذہب بیزاری کے نتائج ہی ہوتے ہیں کہ ملت کی محبت اور قوم سے رشتے کی جڑ ہی آسانی سے کٹ جاتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے دیگر اسباب کے علاوہ ایک اہم سبب مسلمانوں کے معاشی استحصال کی بیخ کنی بھی تھا مسلمانوں کے وسائل پر ہندو بنئے کا قبضہ اور پھر انگریزی جبر و قہر کی قانون سامانی کے باعث بھی بے چارہ مسلمان ہی ذلت کا ہی شکار رہتا تھا۔ حضرت قائد اعظم ؒ کی دانش سے معمور قیادت اور علماء و مشائخ کی مومنانہ سیادت نے پاکستان کی نعمت سے ہمیں ہمکنار کیا۔ دشمن تو بہت تھے پاکستان کے اور اب بھی ان میں کچھ کمی نہیں آتی ہے بھرے جلسے میں منہ بھر کر گالیاں دینا اور پاکستان کو صرف غلط قرار دینا ان کا شغل خطیبانہ تھا لیکن خدا کی رحمتوں نے ضعیف اور بے سہارا مسلمانوں کو عزت بخشی اور پاکستان کی نعمت دان فرمائی مگر شہر بسانہ تھا کہ چوروں نے اپنی ذریت پہلے سے پڑوس میں بسا دی۔ چوروں کی اولاد اب چور نہ رہی بلکہ ڈاکو بن گئی۔ شہری بھی کچھ زیادہ فراست والے نہ تھے جانے انجانے میں چوروں کو اپنا حلیف بنانا شروع کیا ہندو بنیا کب برداشت کرتا ہے مسلمانوں کی آسودہ زندگی کو اس کا زندگی کا سرمایہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو برباد کیے رکھتے۔ روزانہ گولی ہے‘ گالی ہے اور دھمکی ہے کہ مسلمانوں بھارت کو چھوڑ دو اور کہیں اور چلے جائو ‘روزانہ برما کی بدقماش انسانیت دشمن حکمران دھڑلے سے قتل کا میدان لگاتی ہے اسرائیل روزانہ فلسطینی مسلمانوں کو موت سے ہمکنار کرتا ہے۔ امریکہ ان کی سرپرستی کرتا بچے ہوئے یہودی پرست عیسائی حکمران اس کی تائید میں اقوام متحدہ میں بیٹھ قتل کے پروانوں کو قانون کا نام دینے ورد پڑھتے ہیں۔ پاکستان کو بے کسی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لیے کتنے ہی درندے برسر پیکار ہیں ان میں سب سے زیادہ تیز اور متحرک بھارت کا بے ہودہ گو وزیر اعظم نریندر مودی ہے باقی اس کے طبلچی ہیں‘ اس کا فوجی سربراہ اس سے بھی دو قدم آگے دھرتا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے ہرزہ سرائی کی کہ کشمیر کا حل اگر فوجی نہیں ہے تاہم اہل کشمیر یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ بھارت کی زنجیر سے کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکیں گے۔ مگر شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں کہ اخبار کے صفحہ اول کے مقام بلند پر بدبخت مودی کے ساتھ ایک نام نہاد مسلمان کشمیری وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ایک ہی سٹیج پر بیٹھی ہوتی ہے اور یہ تقریب مقبوضہ کشمیر میں ایک ایسے آبی ڈیم کی افتتاحی تقریب ہے جس ڈیم کا نام کشن گنگا ہے۔ یہاں سے پاکستانی دریائوں میں آنے والے پانیوں کا رخ موڑا جائے گا اور پاکستان کو پانی ترسیل روک دی جائے گی اور پھر پاکستان میں پانی کی قلت پیدا کر دی جائے گی۔ پاکستان کے تین دریا تو پہلے ہی بھارت کی آبی جارحیت کے سبب بے آب ہو چکے ہیں اوروہ کشن گنگا ڈیم بنا کر پاکستان آبی عدم دستیابی کی اذیت میں مبتلا کرنا چاہ رہا ہے۔ ہمارے ان پڑھ کسان اور بے چارے مزدور اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ ان کے سیاسی لیڈر ان کی قیادت نہیںہیں۔ بلکہ وہ تو ہندو زرداروں کے عقیدت مند ہیں اور ہندو ساہو کار کے ہاتھ بندھے غلام ہیں۔ ہمارے سیاسی لیڈر پاکستان قوم کی بنیادی ضروریات کو سمجھنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے! نہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم اپنی بنیادی ضروریات کو قومی سطح پر کیسے پوری کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بنیادی اور اہم ضرورت پانی کی دستیابی ہے اور یہی ضرورت ہماری عمومی زندگی اور ہماری زرعی ضروریات کی کفالت کر سکتی ہے۔ پاکستان کی زرعی زمینوں کو وسیع پیمانے پر بنجر کرنے کی مہم جاری ہے اور اس مہم میں ہمارا روایتی اور ازلی دشمن پیش پیش ہے۔ وہ پاکستانی زرعی زمینوں کو بے آب و گیاہ بنجر صحرائوں میں بدلنے کی عملی کوشش کر رہا ہے اور وہ چند سال بعد ہمارے دریائوں کے ترسیلی راستوں پر نئے ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ اب اس نے مقبوضہ کشمیر کے اہم ترسیلی آبی راستوں پر کشن گنگا ڈیم تعمیر کرنے کا افتتاح کر دیا ہے ہمارے آبی ذخائر میں کسی بھی طرح کا کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ابھی اخباری خبر کے مطابق ہمارے کچھ آبی وکلاء اب پریشان ہیں اور انہوں نے بین الاقوامی عدالت میں اپنا مقدمہ درست انداز سے پیش نہیں کیا۔ وزیر اعظم اب انہیں سرزنش کر رہے ہیں۔ وہ لوگ اپنا سفری بستر باندھ کر نجانے کس سپر سپاٹے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو کسی بھی پارٹی نے اب تک پاکستان کے حقیقی مسئلہ پانی پر بالکل بھی توجہ نہ دی بھارت نے ہمیشہ ہی غداران پاکستان کو کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر ریوڑیوں سے نوازا ہے۔ پاکستانی معیشت میں زراعت کا ایک بنیادی کردار ہے اور زراعت کے لیے پانی کی فراوانی اہم ضرورت بن جاتی ہے لیکن پاکستان کی قومی سیاسی پارٹیوں کے قوم خور اور قوم فروش لیڈر ہمیشہ ہی پاکستانی معیشت کی بقاء کے اہم ترین مسئلے کالا باغ ڈیم پر اپنی سیاست کرتے رہے۔ تمام مقتدر حکمران اور ووٹ کے بھکاری سیاستدان کالا باغ ڈیم کی اہمیت سے واقف ہیں اور یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ جو لوگ اس عظیم الشان آبی منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں ان کو بھارت سے مراعات نصیب ہوتی ہے۔ ہر حکومت اپنے حلیفوں کی تلاش میں نجانے کتنے قومی وسائل صرف اپنی ذات اور کرسی کی رونق کے لیے خرچ کر دیتی ہے کاش وہ ایک بڑے قومی اور اہم منصوبے کے لیے اپنی عقل ‘ خدمات ‘ نیت اور وسائل بھی خرچ کر دیتی۔ لیکن افسوس کسی بھی حکومت نے پاکستان اور پاکستانی عوام کو مستقبل کی غلامی سے محفوظ کرنے کا کوئی راستہ اختیار نہ کیا۔ دشمن بھارت نے ہمارے اوپر آبی دہشت گردی کا گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ باقی علاقوں میں انتظامی اور سیاسی دہشت گردی کے ذریعے سے ہمارے وسائل کو ناکارہ کر رہا ہے۔ ہمارے لیڈر اپنی ڈگڈی بجا کر عوام الناس کا دل بھلانے کی نکام اور سازشی کوشش کر رہے ہیں لیکن آنے والے کل میں پانی کی عدم دستیابی پر جب شہری زندگی خانہ جنگی کا منہ دیکھے گی تو کیسا نظم و نسق اور کس کا انتظام سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ جناب چیف جسٹس پاکستان کی مدبرانہ کوششیں وطن عزیز کو ایک درست سمت سے متعارف کردار ہی ہیں۔ لیکن ان کی خدمت میں ایک مودبانہ درخواست یہ ہے کہ وہ قومی سلامتی اور عوامی ضرورت کی خاطر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا حکم صادر فرمائیں اورمتعلقہ اداروں اور متعلقہ افراد کو ایک حکم فرمائیں کہ کالا باغ ڈیم اور دیگر آبی وسائل کے ڈیمز فی الفور تعمیر کیے جائیں اور مزاحمت کرنے والے بننے والے نامراد نام نہاد پارٹی باز پاکستان دشمنوں کو ان کے گھروں تک محدود کر دیا جائے۔ پاکستان کو آبی سہولت اور ضرورت سے محروم کرنے والے کا محاسبہ قوم کرے اور قوم کے لیڈران کریں۔