کابل، واشنگٹن، برسلز، اسلام آباد ( نیوز ایجنسیاں، 92 نیوز رپورٹ، نیٹ نیوز) افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے ، طالبان نے مزید 7 صوبوں پر کنٹرول حاصل کرلیا اور اب وہ افغانستان کے 19 صوبوں پر قابض ہوگئے ہیں،طالبان کابل سے صرف 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ طالبان نے 24 گھنٹے میں قندھار، ہلمند، لوگر، غور، زابل ، ارزگان اور پکتیکا پر قبضہ کیا۔ نیمروز، جوزجان، سر پل، قندوز، تخار، سمنگن، فراہ، بغلان، بدخشاں، ہرات ، غزنی اور با دغیس کے صوبوں پر پہلے ہی قابض ہیں۔ افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح ملک سے فرار ہوگئے ۔ طالبان ترجما ن نے بتایا کہ کمانڈر اسماعیل نے اپنے حامیو ں اور ساتھیوں سمیت طالبان میں شمولیت اختیار کرلی۔ ذبیح اللہ نے بتایا کہ امارت اسلامیہ کے تحت سمی کیلئے پہلی پرواز کامیاب رہی ۔صورتحال کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر امریکہ نے افغان صدراشرف غنی کو عہدہ چھوڑنے کا مشورہ دے دیا۔برطانوی میڈیا کے مطابق افغان صدر اشرف غنی، امریکی وزیر خارجہ اور وزیردفاع کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ۔ دریں اثنا امریکی سفارتکاروں کو ملک سے نکالنے کے لیے امریکی فوجی کابل پہنچ گئے ۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا کہ امریکی حکام طالبان سے بات چیت کررہے ہیں کہ کابل پر قبضے کی صورت میں امریکی سفارتخانے پر حملہ نہ کریں ۔ امریکی میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد چین افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے ۔ کینیڈا نے بھی کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کے لیے سپیشل فورسز بھیجنے کا اعلان کردیا ۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا سیاسی تصفیہ ہوناچاہیے ۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ میک کینزی نے کہا کہ افغانستان پر طالبان کا کنٹرول القاعدہ کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع فراہم کرے گا۔ پاک افغان بارڈر پر باب دوستی ایک ہفتے کی بندش کے بعد کھول دیا گیا۔برطانیہ کے وزیردفاع بین والیس نے کہا فوج کا انخلا کرکے امریکہ نے افغانستان میں ایک بڑا مسئلہ کھڑا کردیا جس سے خطے کے امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ڈنمارک اور ناروے نے اپنے سفارتخانے عارضی طور پر بند کردئیے ۔ افغان حکومت نے مخدوش سکیورٹی کے پیش نظر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کر دی۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کردیا ۔ ٹرائیکا اجلاس کے شرکا نے افغان امن عمل آگے بڑھانے اور تشدد میں فوری کمی کا مطالبہ کردیا ، نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہم افغانستان میں سفارتی موجودگی برقرار رکھیں گے ، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرحدیں کھلی رکھیں۔ملک کی تازہ ترین پیش رفت پر امارت اسلامیہ نے اپنا اعلامیہ جاری کردیا۔ جس میں کہا گیا، حالیہ زیر کنٹرو ل آنیوالے علاقے امارت اسلامیہ کی مقبولیت کی علامت ہیں، مجاہدین کو خزانے ، عوامی سہولیات ، حکومت اور اس کی سہولیات، پارکوں، سڑکوں اور پلوں سے متعلق محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ جن افراد نے ماضی میں قابضین کے ساتھ کام یا ان سے تعاون کیا یا اب بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ کھڑے ہیں، امارت اسلامیہ نے انہیں گلے لگا لیا اور عام معافی کا اعلان کیا ہے ۔لوگوں کو ملک چھوڑنے کے متعلق نہیں سوچنا چاہیے ، ہمارے ملک کو تعلیم یافتہ، صحت مند اور سماجی اور ثقافتی شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی ضرورت ہے ۔حال ہی میں کابل انتظامیہ کچھ افغانوں اور عالمی تنظیموں کو بے بنیاد شیطانی پروپیگنڈا پر مبنی غلط معلومات فراہم کر رہی ہے ۔جو شہری دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے اور اپنے گھروں کو چھوڑ گئے وہ اپنے علاقوں اور گھروں کو لوٹ آئیں، پڑوسیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری طرف سے ان کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، ہمیں بھی یقین ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سفارت کار، سفارت خانوں اور اداروں کا عملہ امارت کیلئے مسائل پیدا نہیں کرینگے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر غنی جلد ہی قوم سے خطاب کریں گے ، کوئی اہم اعلان بھی کر سکتے ہیں۔