بھارت کے متعصب زعفرانی ہندوستان کے اس جھتے نے زعفرانی رنگ کے رومال ہاتھوں میں لہراتے ہوئے ’’جے شری رام‘‘ کانعرہ لگا کر مسلمان خواتین کے عزت وعظمت کی علامت حجاب کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنے کیلئے8 فروری سال 2022 ء منگل کو گاندھی کالج اوڈوپی کرناٹک میں زیرتعلیم مسکان بنت محمد حسین خان کے کالج میں داخل ہونے پر ان کا راستہ روکنے کی ناپاک کوشش کی۔ دختراسلام مسکان نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے نہ صرف ان کے غلیظ ارادے خاک میں ملادیئے بلکہ زعفرانیوں کے غلاظت سے بھرے ہوئے دماغ کویہ بات سمجھا دی کہ بھارت کی مسلم خواتین کی شرافت اوران کی عفت و عصمت کے ان دشمنوں کا مقدر ہمیشہ ذلت اوررسوائی ہے ۔ مسکان نے شیرنی بن کرآرایس ایس کے غنڈوں کو یہ بھی سمجھا دیاکہ اسلام کی یہ بیٹیاں حجاب مخالف سازش کوطشت ازبام کرتی ہوئیں پورے عزم وہمت اورپوری استقامت کے ساتھ دین اسلام کے احکامات کی پابندی اورپیروی کریں گی۔زعفرانی غنڈوں کے سامنے مسکان کے نعرہ تکبیر نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ضمیرکوجھنجوڑا،اورسوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے سے مسلمانوں کی طرف سے اس غیرت مند دختر اسلام کو اس کے کردار و عمل پر سلام پیش کیاگیا۔یاد رہے کہ مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پہلے مغربی اوراب آتشیںہندو معاشرہ دشمن بنتا جا رہا ہے اوربھارت میں مسلم خواتین کے حجاب پر زعفرانیوںکی پیشانیاں بدستور شکن آلود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہیں حجاب سے چڑ کیوں ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ حجاب سے نفرت کے ذریعے وہ دراصل دین اسلام سے نفرت کااظہارکر رہے ہیں۔ یہ کھیل کوئی نیا نہیں بہت پرانا ہے۔ اس نفرت سے انسانیت کو جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں وہ لاتعداد ہیں، انسانیت کی توہین کرتے ہوئے اشرف المخلوقات کے جانوروںکے سامنے جھکنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ہر چیز میں الٹے سیدھے، اور فطرت کے متصادم اصول دنیا کے سامنے پیش کئے جو خواہشات کے مطابق تو تھے، لیکن فطرت سے متصادم تھے۔ اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ حق پرستوں کے ساتھ لڑائی ان کی خصلت میں شامل ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جہاں فطرت کا تصادم ہوگا وہاں فساد کا ظہور یقینی ہے، مسئلہ حجاب میں بھی اسلامی احکامات فطرت کے تقاضوں پر مبنی ہیں۔ مغرب اوراب بھارت کا متعصب زعفرانی طبقہ ایک ہی چیز کو دو نظروں سے دیکھنے کا عادی ہے۔ حجاب دوپٹہ اور ساڑی کے پلو کی شکل میں اگر کسی’’نن‘‘کسی سادھو یا کسی اور غیر مسلم خاتون کے سر پر ہو تو ’’سنسکار مریادا،تہذیب،ادب و احترام لیکن یہی حجاب جب مسلم خاتون کے سر پر ہو تو پچھڑے پن کی نشانی، ترقی میں رکاوٹ۔ یہ ہے مغرب سے بھارت تک عالم کفر کا فکری و عملی تضاد۔ 2022ء میں منظر عام پر آنے والے ویڈیوکلپ میں سنا جا سکتا ہے کہ بھارت کی ریاست کرناٹک کے ایک کالج کی کئی طالبات کالج انتظامیہ سے درخواست کر رہی ہیں کہ ان کو امتحانات کی تیاری کے لیے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے لیکن کالج کے پرنسپل ان کو حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیںجبکہ طالبات کا موقف ہے کہ سکول کے اصول و ضوابط میں ایسا کچھ بھی نہیں لکھا ۔ حجاب کرنا ان کا مذہبی حق ہے۔ اس کے بعد 4 فروری 2022ء جمعہ کوانڈیا کی ریاست کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلمان طالبات نے حجاب کے ساتھ کلاس میں بیٹھنے کے لیے عدالت میں درخواست دے دی جس میںانہوں نے لکھاکہ جب دوسرے لوگ اپنی اپنی مذہبی رسومات پر عمل کر سکتے ہیں تو ہم پر ہی پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟ اس لئے مسلمان بچیوں کو حجاب کے ساتھ کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ اس معاملے پر گزشتہ کئی ماہ سے مسلمان خواتین کا احتجاج جاری تھا۔کرناٹک کی طالبات کے والدین قابل مبارکباد ہیں، انہوں نے اپنی لخت ہائے جگر کی تربیت ایسے کی کہ وہ حق تلفی کرنے والوں اور آزادی میں مداخلت کرنے والوں کے سامنے جھکے بغیر لڑ رہی ہیں، اللہ انہیں ثابت قدم رکھے۔ مسلم طالبات کے اسکارف وحجاب کی مخالفت میں پر تشدد واقعات کے بعد امتناعی احکامات کے ساتھ ہی کرناٹک میں کالجز بند کر دیے گئے ۔ بھارتی ریاست کرناٹک کی سرحدوں سے باہر نکل کر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست مدھیہ پردیش اور پانڈی چیری تک بھی حجاب کے خلاف ناپاک مہم پہنچ چکی ہے۔ مدھیہ پردیش میں ایک وزیر نے سکول میں نظم و ضبط کے لیے یکساں ڈریس کوڈ کے لیے قانون بنانے کی بات کہی ۔ سچ یہ ہے کہ گزشتہ کئی سال سے بھارت کی سر زمین مسلمانوں کے لئے تنگ کی جا رہی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کوبالجبر’’ سوریانمسکاراورجے شری رام ‘‘کہنے پر مجبور کیاجا رہا ہے جبکہ انہیں اذان دینے، کھلی زمینوں ، پسنجرٹرمنلو، ائیرپورٹس اورریلوے اسٹیشنوں پرنمازپڑھنے اور مساجد جانے پر تشدد کا سامنا ہے ۔ طلاق کے وضع شدہ اسلامی اصولوں اورضابطوں میں مداخلت اور یکساں سول کوڈکے نفاذ سے ان کے دینی معملات میں کھلی مداخلت کی جا رہی ہے ۔ اب حجاب کے نام پر مسلم طالبات کو حصول تعلیم سے محروم کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ حجاب پہن کر آنے والی طالبات کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، انہیں سکولوں اورکالجوں سے بے دخل کیاجا رہا ہے۔ حجاب مخالف پروپیگنڈے میںکہا جا رہا ہے کہ آج یہ لوگ حجاب کی بات کرتے ہیں تو اس کے بعد سکولوں اور کالجوں میں آئیں گے پھر نماز اور مساجد کے قیام کی بات کریں گے۔ لیکن صد بار سلام ہو مسکان کی ہمت ، شجاعت ، بہادری اور ثابت قدمی کو کہ وہ سراپا احتجاج بنی اور ہندوتوا نظریہ کے خلاف نعرہ تکبیر بلندکیا۔اس نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بھارت میں رہ رہی مسلمان بیٹیاں زعفرانیوں کی اسلام اورمسلمان دشمنی کا مقابلہ پامردی سے کر یں گی، اپنے مذہبی حقوق کی لڑائی لڑ یں گی اور وہ اسلامی تعلیمات پرکسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کریں گی۔ مسکان نے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے دنیا کے مظلوم گوشوںکی مسلم خواتین کو یہ پیغام دیا کہ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ حجاب ہمارا حق ہے، ہماری پہچان ہے، ہمارا دین و ایمان ہے۔ یہ مسلم خواتین کا بنیادی حق ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔