منیر نیازی نے کہا تھا: غم کا وہ زور اب مرے اندر نہیں رہا اس عمر میں میں اثنا ثمرور نہیں رہا واقعتاً ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی توانائیاں جواب دے جاتی ہیں‘ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چہرے کے خدوخال سلوٹوں اور جھریوں میں گم ہونے لگتے ہیں مگر حیرت ناک بات یہ کہ دل وہی زمانے آنکھوں میں بسائے رکھتا ہے جس میں پھول کھلتے ہیں تتلیاں اڑتی ہیں اور بادصبا چھیڑ کر گزرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہر عمر کے اپنے مسائل اور اپنی خوشیاں ہوتی ہیں۔ جیسے خزاں کی اپنی موسیقی ہوتی ہے اور اپنے پھول۔ یہ نام تو ہم نے رکھے ہیں ایسے بھی تو ہو گا جب کسی موسم کا کوئی نام نہ ہو گا‘ کسی پھول کا بھی کوئی نام نہ ہو گا ایک مرتبہ میں نے نیلے پھولوں کے قالین پر بیٹھ کر سوچا تو اس پیڑ کا کوئی نام نہ تھا جہاں سے یہ گر رہے تھے، میں نے یک دم کہا: نام میں رکھا بھی کیا ہے کام دیکھا چاہیے حسن ہے تو حسن کو بے نام دیکھا چاہیے کبھی آپ پیڑر کو پھل اتر جانے کے بعد دیکھیں کہ وہ کتنا پرسکون لگتا ہے جیسے وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو گیا۔ زندگی گزارنا بھی تو اسی طرح جیسے آپ نے خود پر دن بتا دیے انسان زندگی بھر کچھ نہ کچھ حاصل کرتا جاتا ہے خواہ وہ عبرت ہی کیوں نہ ہو اور کچھ نہ کچھ کھوتا بھی جاتا ہے خواہ وہ نیند ہی کیوں نہ ہو۔ ورڈز ورتھ نے دلچسپ تھیوری پیش کی تھی کہ انسان جہاں جوانی اور اس کی توانائیاں کھو دیتا ہے مگر وہ اس کے بدلے میں زیادہ قیمتی شے حاصل کرتا جاتا ہے یعنی اس کا تجربہ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک فاسٹ بائولر جوانی میں گیند تیز پھینکتا ہے اور فاسٹ بال پر کھلاڑی کو آئوٹ کرتا ہے۔ پھر بعدازاں اس کی بال میں وہ تیزی نہیں رہتی تو وہ اپنا تجربہ استعمال کر کے کھلاڑیوں کو آئوٹ کرتا ہے ورڈز ورتھ نے بہت خوب بات کی کہ جب وہ پانچ سال کے بعد دریا پر گیا تو اسے وہ لطف اور حیرت نصیب نہ ہوئی جو پانچ برس قبل حاصل ہوئی تھی۔ ویسے بھی یہ نظریہ مختتم کے تحت ہے کہ اشیا کی افادیت کم ہوتی جاتی ہے ورڈز ورتھ کہتا ہے کہ اس نے وہ حیرت اور خوشی اپنی بہن ڈرودی کی آنکھوں میں دیکھی کہ اس کے لئے یہ پہلا وزٹ تھا۔ اس طرح ورڈز ورتھ نے وہی پرانی خوشی اپنی بہن کی آنکھوں میں کشید کی۔ لیکن کوئی احمد مشتاق بھی تو ہو سکتا ہے جو ایک اور انداز میں دیکھے: دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن عمر بھر کون جواں کون حسین رہتا ہے انسان بھی کیا دلچسپ ہے کہ جب اسے پیچھے مڑ کر دیکھنا اور ماضی سے سیکھنا ہوتا ہے وہ ماضی کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے اندھے جذبے اسے کچھ سوچنے ہی نہیں دیتے اور جب اسے آگے جانا ہوتا ہے اور اس کی تیاری کرنا ہوتی ہے تو وہ ماضی میں جا کر پناہ ڈھونڈتا ہے۔ پرانی جگہوں پر جانا اسے اچھا لگتا ہے۔Keatsنے کہا تھا کہ انسان کے بس چار موسم ہوتے ہیں۔ بچپن بہار کی طرح‘ جوانی موسم گرما کی حدت کی صورت جیسی‘ ادھیڑ عمر خزاں کے گرتے ہوئے پتوں کی طرح اور پھر بڑھاپاموسم سرما کہ برف بھی پڑتی ہے۔ فطرت میں پیڑوں پر تو یہ چاروں موسم ہر برس گزرتے ہیں مگر انسان انہیں ایک ہی بار گزار پاتا ہے۔ تاہم وہ اپنے تخیل کے زور پر ان موسموں کو حاضر کر لیتا ہے تخیل بھی کیا شے ہے: ہے کہاں تمنا کہ دوسرا قدم یا رب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا ایک مرتبہ پھر مجھے ورڈز ورتھ یاد آیا کہ اس نے ان ہلکی اور تیز رفتار کشتیوں کا حوالہ دیتے ہوئے بچپن کا ذکر کیا کہ واقعتاً نوجوانی میں پائوں زمین پر نہیں لگتے اور وہ ان رواں دواں چھوٹی کشتیوں کی طرح حرکت میں ہوتا ہے جو لہروں پر اڑتی ہوئی جاتی ہیں۔ دوسری مثال اس نے برق کی دی کہ جو کبھی اس پہاڑی پر چمکتی ہے تو کبھی دوسری پہاڑی پر۔ واقعتاً جسم میں جیسے پارا بھرا ہوتا ہے۔ پھر انسان اس عمر کو پہنچتا ہے کہ ہلنے سے اوازار اور اٹھتے بیٹھتے ہائے ہائے کرتا ہے کہ ’’حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے‘ پھر وہ اپنی جوانی کے قصے سنا سنا کر داد پاتا ہے۔ مبالغہ بھی حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ وہ بچوں کو بتاتا ہے کہ وہ بیس میل دوڑتا تھا۔ نہر میں اترتا‘ ادھر سے ادھر جا نکلتا اور گیلا بھی نہیں ہوتا تھا۔ خیر گزار ہم نے بھی دی کہ ایک تاثر ہم پر کچھ اور رہا کہ: بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا کیا کبھی آپ نے سوچا کہ جس طرح انسان بوڑھا ہوتا جاتا ہے اسی طرح تہذیب بھی بوڑھی ہوتی جاتی ہے۔ اس میں بھی وہ ’’ساہ ست‘‘ نہیں رہتا وہ بھی آخر بیساکھیاں تلاش کرتی ہے وہ بھی کئی سہارے مانگتی ہے۔ مثلاً ایک مثال ہی کافی ہے کہ وہ اب بجلی کی مرہون منت ہے۔ یہ بات برٹ اینڈ رسل نے بھی لکھی ہے کہ اب بوڑھا معاشرہ بھی طفیلی ہو گیا ہے یعنی اس کا دارو مدار کسی اور پر ہے وہ معاشرہ جس میں محبت‘ ایثار‘ صبر ‘ وضعداری ‘ بھائی چارہ اور غمخواری جیسے اوصاف تھے‘ ختم ہو چکا ہے۔ جو بھی کائنات کی بساط اللہ نے بچھائی ہے اور وہی اس کے بارے میں علم رکھتا ہے ہم تو بس اپنے مشاہدے اور تجربے یا پھر اندازے سے اندازہ لگاتے رہتے ہیں آپ اسے کالم سمجھ لیں یا پھر ڈائری کا ایک ورق۔ سوچتے تو آپ بھی میری طرح ہیں کہ ہم سب کو درپیش مسائل بھی تو ایک جیسے ہیں۔ فرق صرف یہ کہ مجھ جیسے ان باتوں کو بے دھڑک صفحہ قرطاس پر اتار دیتے ہیں کہ سب کے ساتھ شیئر کریں۔ ہو سکتا ہے آپ اسے وقت کا زیاں سمجھیں۔ آخر میں دو شعر: جنوں کی تیز بارش میں اسے پانے کی خواہش میں میں دل کی سطح پر اکثر کھلی آنکھوں کو رکھتا تھا وہ خاموشی تھی پیڑوں کی وہ تنہائی تھی سڑکوں کی روائے شب سے اکثر میں ستارے چنتا رہتا تھا