اسلام آباد(92 نیوزرپورٹ)حکومت اوراپوزیشن کے درمیان آزادی مارچ پر مذاکرات سے متعلق بریک تھروہوگیا،ذرائع کے مطابق حکومتی مذاکراتی ٹیم اورجے یوآئی (ف)کے درمیان پہلے باضابطہ رابطہ میں ملاقات طے پاگئی، حکومتی مذاکراتی ٹیم آج جے یوآئی (ف)کے سیکرٹری جنرل مولاناعبدالغفورحیدری سے ان کے گھر پارلیمنٹ لاجز میں رات آٹھ بجے ملاقات کریگی۔چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے سینیٹرعبدالغفورحیدری سے رابطہ کیا، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے ہمراہ وزیردفاع پرویزخٹک اورکمیٹی کے دیگر ارکان ملاقات میں شامل ہونگے ۔عبد الغفور حیدری نے کہا چیئرمین سینٹ آزادی مارچ کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں،ان پرواضح کردیا کہ ہمارا موقف کلیئر ہے ، وزیر اعظم کے استعفے کے بعد ہی باضابطہ مذاکرات ہونگے ،میرے واضح موقف کے باوجود چیئرمین سینٹ ملاقات کے خواہاں ہیں،دیکھتے ہیں وہ کیا تجاویز اور سفارشات سامنے لاتے ہیں۔92نیوزسے گفتگومیں عبدالغفورحیدری نے کہا حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کی گفتگوسنی ،پرویزخٹک کارویہ جارحانہ تھامصالحانہ نہیں،اس کے باوجودجب انہوں نے کہا ہم ملناچاہتے ہیں تو ہم نے کہاموسٹ ویلکم،ہم نے دروازہ بندنہیں کیا، ہماراموقف بڑاواضح ہے اورہم ایک سال سے اسی موقف کودہرارہے ہیں،حکومت کا ایجنڈادیکھ کر فیصلہ کیاجائیگا،اگرمعاملہ آگے بڑھتاہے توتمام اپوزیشن جماعتوں کو اعتمادمیں لیں گے ،ضرورت پڑی تو کمیٹی تشکیل دینگے ،اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ،کوئی بھی حکومتی پیشکش اتحادیوں سے شیئرکرینگے ۔ اسلام آباد(سپیشل رپورٹر، 92 نیوزرپورٹ،نیٹ نیوز)وزیر دفاع اور اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ فضل الرحمٰن چڑھائی کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسی چیز برداشت نہیں کی جائیگی اور اس پر سخت ایکشن ہوگا،اپوزیشن نے اسلام آباد پر چڑھائی کی تو اس گااسکے خلاف بھرپور کارروائی ہوگی، اگر مولانا لانگ مارچ کی کال واپس نہیں لیتے تو پھر حکومت موجود ہے ، جو حکومت کی رٹ چیلنج کریگا اس کیخلاف قانون حرکت میں آئے گا،اگر یہ لوگ نہیں رکیں گے تو پھر حکومت اپنی رٹ قائم کریگی،پھر ہم سے کوئی گلہ نہ کرے ، پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا،حکومت صرف عمران خان نہیں بلکہ ایک ریاست ہے ، اگر کوئی اس نظام کو توڑنا چاہتا ہے تو پھر جواب ملے گا، اگر نریندرمودی کو خوش کرنا اور ملک دشمنی کرنی ہے تو یہ بات نہیں کریں گے لیکن اگر یہ ملک کے ہمدرد ہیں تو بات کریں گے ، مولانا فضل الرحمٰن کوپاکستان کے لیے سوچنا چاہئے ،اگر ہم ناکام ہوگئے تو پھر جو ہوگا اس کی ذمہ داری تمام اپوزیشن جماعتوں پر ہوگی، ہم کسی سے این آراونہیں چاہ رہے ۔پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاہم نے اپنے تمام کارڈز کھول دیئے ہیں، اگر کل کو کچھ ہوا تو کہا جائے گا حکومت یہ کررہی ہے لیکن حکومت نے وہی کرنا ہے جو قانون اور آئین کے مطابق ہوگا، حکومت نے وہی فیصلے کرنے ہیں جن سے ڈیڈلاک آئے نہ کسی کی جان و مال کو نقصان پہنچے ، اگر ان کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستان سے محبت ہے تو پھر بیٹھ کر بات کرنی پڑے گی لیکن اگر ایجنڈا افراتفری پھیلانا اور ملک کو پیچھے لے جانے کا ہے تو یہ پھر بات نہیں کریں گے ، مجھے نہیں معلوم ان کے پیچھے کس کا ایجنڈا ہے ، اگر یہ کسی اور کے ایجنڈے پر چلیں گے تو سب سامنے آجائیگا، پھر یہ چھپ نہیں سکتے ، انہیں سزا ملے گی۔پرویز خٹک نے کہا ہم بار بار تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ اگر آپ کے پاس کوئی مسئلہ، کوئی مطالبہ ہے توآکر بات کریں ، ملک میں جمہوریت ہے ، جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی تاہم اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری پھیلے گی، ملک کو نقصان پہنچے گا تو ذمہ داری اُن پر ہے ، اگر کوئی بات ہی نہیں کرتا تو اس کا ایجنڈا کچھ اور ہے ، ہمیں پاکستان کی فکر ہے ، اگر کسی کی زندگی کو نقصان پہنچا، کاروبار خراب ہوا تو اس کا ازالہ کون کرے گا؟۔ ہم نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی اور انہیں اپنا پیغام پہنچایا کہ آکر بات کریں اور مجھے امید ہے جو بھی معاملہ ہوگا بیٹھ کر بات کی جائے گی۔یہ دیکھا جائے ملکی حالات کیسے ہیں، اس وجہ سے کشمیر کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے ، لگتا ہے کشمیر کے معاملے کو دبانے کے لیے یہ ایجنڈا بنایا گیا ہے ، اگر بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے اور پاکستان میں افراتفری پھیل گئی ہے ،جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے ، یہ جمہوریت کی روایت ہے کہ میز پر ہی بات ہوتی ہے اور ہم جمہوری لوگ ہیں۔جب ہم نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو ہمارے پاس ایک موقف تھا ایسے ہی ہم نے مارچ نہیں کردیا تھا۔ہم اس وقت صرف زبانی بات نہیں کررہے تھے بلکہ پانامہ کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جس پر ہم نے سب سے درخواست کی کہ تحقیقات کی جائیں لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی،جب پانامہ کا معاملہ ہوا تو بھی ہم چھپے نہیں بلکہ حکومتی لوگوں سے بات کی۔ہم نے سینئر لوگوں کی کمیٹی بنائی جس پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو کیوں شامل کیا، ہم معاملے کو سنجیدہ لینا چاہتے ہیں اسی لیے سینئر لوگوں کو شامل کیا ۔ چیئرمین سینٹ کی ایک جماعت ہے ، اگر وزیراعلیٰ بلوچستان آتے ہیں تو انہیں بھی کمیٹی میں شامل کیا جائے گا، پرویز الٰہی کی کمیٹی میں شامل ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے ۔ تمام جماعتوں سے اپیل ہے اگر ملک کے ہمدرد اور پاکستان سے محبت ہے تو بیٹھ کر بات کریں۔جمعیت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی سے متعلق انہوں نے کہا پابندیاں لگتی رہتی اور یہ چلتا رہتا ہے ۔کوئی غلطی فہمی میں نہ رہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ ہے ، ہم نے ساری عمر جلسے جلوس دیکھے ہیں، اپوزیشن والے اسلام آباد زبردستی آنا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے یہ ڈکٹیٹر بننا چاہتے ہیں، ملک کے بچاؤ کے لیے ہر حد تک جائیں گے ۔اس موقع پروزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا مولانا کی کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں جس میں وہ اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں،اس سطح پر نہ پہنچیں جہاں وہ ریاست کے ستونوں پر حملہ کریں کیونکہ پھر اس قسم کی چیز برداشت نہیں کی جائے گی۔ آئین وقانون بھی کہتا ہے مسلح جتھوں کی پاکستان میں اجازت نہیں ، مدارس کے بچوں کو سیاست میں نہ لایا جائے ، کوئی خوف نہیں صرف پاکستان کی خاطر بات کر رہے ہیں۔ادھرحکومتی کمیٹی نے آزادی مارچ روکنے کیلئے اپوزیشن سے مذاکرات کے حوالے سے حکمت عملی طے کرلی،ذرائع کے مطابق اپوزیشن سے مذاکرات مرحلہ وارہونگے ،پہلے مرحلے میں اپوزیشن جماعتوں سے صرف پرویزخٹک رابطہ کررہے ہیں، دوسرے مرحلے میں پوری کمیٹی بات کریگی۔