انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے کرنیوالے سیاستدان جب حکمران بنتے ہیں تو یہ کہہ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ چھوڑیئے صاحب، رات گئی بات گئی مگر عمران خان نے خود قوم کو یاد دلایا کہ مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا جمعرات کی شام عمران خان نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نہایت برجستگی سے دل کی باتیں کیں۔ ان کی باتیں دل سے نکل رہی تھیں اور براہ راست دلوں میں گھر کر رہی تھیں۔ ان کی باتوں میں سچائی کی سادگی تھی، کوئی بناوٹ اور سجاوٹ نہ تھی۔ عمران خان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے کوئی کمپلیکس نہیں۔ ہماری عمران خان سے جو دو چار ملاقاتیں ہوئیں ان کے دوران ہم نے انہیں تکلفات سے بے نیاز پایا۔ خان صاحب نے کہا کہ مجھے نبی اکرم ﷺ کی ریاست مدینہ سے انسپائریشن تھی۔ پہلی دفعہ دنیا میں فلاحی ریاست آئی اور ریاست نے اپنے کمزور طبقے کی ذمہ داری لی۔ ریاست مدینہ کیا ہے؟ اس ریاست کا اولین قاعدہ یہ تھا کہ حاکمیت صرف اللہ کی اور مسلمانوں کی حکومت دراصل ’’خلافت‘‘ ہے جسے مطلق العنانی سے نہیں بلکہ باہمی مشورے سے معاملات چلانے کا حکم دیا گیا تھا۔ جناب رسالت مآبؐ نے اس ریاست کو خود قائم فرمایا اور اسے عدل و انصاف کے ساتھ چلا کر دنیا کے سامنے ایک مثالی ریاست کا نقشہ پیش کیا۔ اس ریاست کا سب سے زریں اصول یہ تھا کہ اسلامی ریاست کا قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ یہ قانون اس مملکت کے ادنیٰ ترین آدمی سے لے کر مملکت کے سربراہ تک سب پر یکساں نافذ ہونا چاہیے۔ عہد نبوی ﷺ اور پھر ان کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں ایسا ہی ہوا او رکسی اعلیٰ کو ادنیٰ پر کسی بڑے کو چھوٹے پر، کسی حاکم کو محکوم پر، کسی امیر کو غریب پر اور کسی آقا کو خادم پر ہرگز کوئی فوقیت نہ تھی۔ ریاست مدینہ میں تمام مسلمانوں کے درمیان مساوات قائم تھی۔ تمام مسلمانوں کے حقوق بعد لحاظ رنگ و نسل و زبان و وطن بالکل برابر تھے۔ عہد نبوی کے بعد خلفائے راشدین نے جناب محمد مصطفی ﷺ کی ہدایات کے مطابق ریاست کے اداروں کو پھیلائے اور مضبوط تر کرتے چلے گئے۔ ریاست مدینہ میں بیت المال یعنی قومی خزانے کو خدا اور پبلک کی امانت سمجھا جاتا تھا۔ عمران خان بار بار ٹیکس ادا کرنے والوں کی جس رقم کا ذکر کرتے ہیں وہ یہی بیت المال ہے جس پر اسلامی حکمران کو اپنی مرضی سے ایک پائی اپنی ذات پر خرچ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہوتی۔ اسی بیت المال میں امیروں سے زکوٰۃ (مالی ٹیکس) لے کر جمع کی جاتی ہے اور غریبوں، ناداروں، مفلسوں، بیوائوں، یتیموں اور کم وسیلہ لوگوں پر خرچ کی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا نان ونفقہ ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ کچھ سابق حکمران بھی روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو ایک سیاسی سلوگن کے طورپر استعمال کرتے رہے ہیں مگر عمران خان کے نزدیک غریبوں کو نیچے سے اٹھا کر اوپر لانا ہمارا انسانی، اسلامی اور روحانی فریضہ ہے۔ خان صاحب نے جس دردمندی سے یہ کہا کہ جس معاشرے میں غریب پس رہے ہوں۔ آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہو اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا کلچر عام ہو تو وہ انسانوں کا نہیں جانوروں کا نظام ہے۔ ہماری آدھی آبادی خط غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں جو در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، انہیں سکولوں میں لانا ہے۔ عمران خان نے بڑی متوازن تقریر کی اور اختصار کے ساتھ مگر بڑے واضح انداز میں ایشوز پر بات کی۔ عمران خان نے بجا طور پر اداروں کو مضبوط کرنے پر بہت زور دیا اور یاد دلایا کہ آج مغربی ممالک ہم سے اس لیے آگے ہیں کہ ان کا قانون کسی میں امتیاز نہیں کرتا اور قانون کی بالادستی قائم ہے۔ متوقع وزیراعظم نے بجا طور معیشت کو ایک بہت بڑا چیلنج قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی اتنا بڑا مالیاتی و تجارتی خسارہ نہ تھا کبھی بھی اتنے قرضے نہیں لیے گئے کبھی بھی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اتنا نیچے نہیں گرا۔ ہم نے کاروبار کے لیے ماحول بنانا ہے۔ بزنس کے لیے سہولیات فراہم کرنی ہیں۔ اوورسیز پاکستانی ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ ان کو ہم یہاں بزنس کی دعوت دیں گے۔ عمران خان نے اقتصادی مرض کی تشخیص بھی درست کی ہے اور اس کے لیے علاج بھی کافی و شافی تجویز کیا ہے۔ ہم خود دو دہائیوں تک سمندر پار پاکستانی رہے اور ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ ترقی یافتہ عرب ممالک اور یورپ و امریکہ میں رہنے والے ہمارے سمندر پار پاکستانی اکثر ان جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ انہیں ہر ترقی یافتہ ملک دیکھ کر اپنا پاکستان یاد آتا ہے اور انہیں مسلسل یہ خیال مضطرب و بے چین رکھتا ہے کہ پاکستان کے مفاد پرست حکمرانوں اور ملکی خزانے کو بے دردی سے خرچ کرنے والے مراعات یافتہ طبقے نے اس ملک کا کیا حشر کر رکھا ہے۔ باہر رہنے والا ہر پڑھا لکھا یا عام مزدور بھی حسرت تعمیر کے احساسات رکھتا ہے اور ان احساسات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بے قرار ہے۔ نغمے بے تاب ہیں، تاروں سے نکلنے کے لیے عمران خان نے ٹیکس پیئرز کے پیسے کے تحفظ اور سادگی پر بہت زور دیا ہے۔ متوقع وزیراعظم کے ہاں بزنس ایکٹویٹی کو تیز تر کرنے کا وژن موجود ہے۔ ہم نے خیبر پختونخوا کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کا منصوبہ تحریری طور پر ایم ایم اے کی حکومت کے دوران قاضی حسین احمد مرحوم کو براہ راست اور پھر عمران خان کو بالواسطہ پیش کیا تھا مگر بوجوہ دونوں حکومتوں نے عملدرآمد نہ کیا۔ اب عمران خان جس تیقن سے اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کا ذکر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے ہوم ورک کرلیا ہوگا۔ عمران خان نے ایک اور بڑے چیلنج کا بھی ذکر کیا وہ ہمارے خارجہ تعلقات ہیں۔ متوقع وزیراعظم نے وہی باتیں کیں جو ہر باشعور پاکستانی کی سوچ ہے۔ انہوں نے چین کے ساتھ دوستی کو مزید بامعنی اور ثمر آور بنانے کا عندیہ دیا۔ افغانستان کے امن کو پاکستان میں امن کی ضمانت قرار دیا اور افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے ایسے فروغ کی بات کی جس میں یورپین یونین کی طرح اوپن بارڈرز ہوں۔ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ مضبوط تعلقات کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ پڑوسی برادر ملک ایران کے ساتھ مزید بہتر تعلقات کی بات کی اور سعودی عرب اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ سعودی عرب ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہاں غالباً عمران خان سہواً ترکی کا نام لینا بھول گئے۔ اسی طرح پڑوسی ملک ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی دلی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم دو قوم آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ یہ مسئلہ نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوجیوں سے گولیاں چلوا کر حل نہیں ہوگا، اس کے لیے ہمیں میز پر بیٹھنا ہوگا۔ عمران خان نے بھارت کو یاد دلایا کہ برصغیر میں غربت سے نجات بھارت اور پاکستان کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ عمران خان کی برجستہ اور بے ساختہ تقریر کو ساری دنیا میں سنا اور دیکھا گیا۔ بی بی سی اور سی این این نے بھی ترجمہ کے ساتھ عمران خان کی تقریر دکھائی۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ہر جگہ تقریر کو بہت پسند کیا گیا اور سراہا گیا۔ حتیٰ کہ عمران خان کے مخالفین نے بھی سراہا۔ اب ذرا ہارنے والی سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات کی شفافیت پر لگائے جانے والے الزامات اور اٹھائے جانے والے شکوک و شبہات کا تذکرہ ہو جائے۔ ہم نے خود جا کر لاہور میں ووٹ کاسٹ کیا۔ بعض عزیزوں نے دور دراز علاقوں میں ووٹ دیا۔ کچھ دوست احباب بحیثیت امیدوار انتخاب میں حصہ لے رہے تھے۔ کہیں سے دھاندلی یا بدعنوانی کی ایک بھی شکایت نہیں ملی۔ ایک قریبی عزیز جو ایک یونیورسٹی میں لیکچرار ہے۔ وہ پریذائیڈنگ افسر تھا اس نے بتایا کہ ایسا پرامن اور شفاف انتظام تھا کہ کسی دھاندلی کا خیال بھی بعید از قیاس ہے۔ اس نے بتایا کہ فارم 45 کی ایک مصدقہ نقل لیے بغیر کوئی پولنگ ایجنٹ پولنگ اسٹیشن سے باہر نہ جاتا تھا نہ قانوناً جا سکتا تھا۔ آر ٹی ایس سسٹم ڈبل چیک کے لیے تھا تاکہ ریٹرننگ آفیسر کے ذریعے کسی کمی بیشی کا امکان بھی ختم کیا جا سکے۔ آر ٹی ایس سسٹم میں یہ مشکلات ضرور تھیں کہ کہیں یہ کام کرتا تھا اور کہیں نہیں۔ الیکشن سے پہلے بعض سیاسی پنچھیوں نے موسمی حالات کے پیش نظر آشیانے ضرور بدلے وہ اپنی مرضی سے بدلے یا کسی غیبی اشارے سے بدلے۔ مگر اتنا پرامن صاف شفاف الیکشن شاید پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ذرا 2013ء کو یاد کیجئے۔ ایم کیو ایم کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں کیا کرتی تھی اور پنجاب میں اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے حکمران سمجھنے والے سیاست دان بیوروکریسی کے ذریعے کیا کیا گل کھلاتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیپ، چودھری نثار اور ان کے علاوہ غیبی دست شفقت کے کیا کیا افسانے تراشے گئے، ان میں سے تو ایک بھی کامیاب نہیں ہوا۔ پاکستان میں صرف ایک سیاستدان نے اخلاقی عظمت اور سیاسی تدبر کا ثبوت دیا۔ اس سیاستدان کا نام حاجی غلام احمد بلور ہے۔ میرے دو اندازے غلط ثابت ہوئے۔ ایک تو یہ کہ شہبازشریف سیاسی جوانمردی اورپامردی کا ثبوت دیتے ہوئے کھلے دل سے نتائج قبول کریں گے۔ دوسرا اندازہ جناب سراج الحق کے بارے میں تھا کہ وہ جماعت اسلامی کی سابقہ تاریخ کے تسلسل میں خوش دلی سے نتائج مان لیں گے مگر وہ بھی بظاہر انتخابی نتائج پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ شامل ہیں۔ پاکستان کے سیاستدانوں، پاکستان کے نوجوانوں اور پاکستان کے سیاسیات کے طالب علموں کے لیے عمران کی بائیس سالہ سیاسی کاوش کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کی کہانی میں بڑے اسباق ہیں۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جہد مسلسل سے طوفانی موجوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بالآخرسفینہ ساحل مراد تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے لے کر شہبازشریف تک سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ لوگوں نے انہیں کیوں مسترد کیا۔ پاکستانی عوام نے کئی دہائیوں سے اپنی پلکوں پر جو خواب سجا رکھے تھے وہی عمران خان کا بڑا خواب تھا۔ اب اس بڑے خواب کی بڑی تعبیر کا وقت آن پہنچا ہے۔ پاکستانی قوم کو مبارک ہو۔