جنگ جیتنے کی بہترین حکمت عملی اعصاب پر قابو پانا ہے۔ یہ میں اس لیے بتا رہا ہوں کہ میں اعلان کر چکا ہوں کہ مجھے ابھی لڑنا ہے اور لڑتے رہنا ہے۔ اگر مجھے کوئی غلط فہمی تھی کہ میری جنگ ختم ہو چکی ہے تو وہ میری خوش فہمی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کر چکا ہوں۔ میں نے یہ اعلان الیکشن سے پہلے کیا تھا اور وضاحت کی تھی کہ کوئی بھی جیتے یا ہارے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میری جنگ جاری رہے گی۔ یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ میں کوئی آئرش مین بھی نہیں ہوں کہ ہمیشہ اپوزیشن میں رہنا چاہتا ہوں۔ میری جنگ کوئی سیاسی جنگ ہے بھی نہیں کہ اپوزیشن کا لفظ استعمال کروں۔ یہ سراسر تہذیبی، سماجی، اقتصادی اور انتظامی پہلوئوں پر محیط ایک ایسی جنگ ہے جو سیاسی حوالوں سے مجھ پر اور میری نسل پر مسلط کردی گئی ہے۔ اس لیے سیاسی حوالے انتخابی پس منظر، سارے جوڑ توڑ، دھینگا مشتی سب ثانوی ہے۔ میں ان انتخابات کا تجزیہ کررہا ہوں، یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ آنے والے دنوں میں مجھے کیا کرنا ہے، مجھے ماضی کے چند الیکشن یاد آ رہے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ میں ان کا موازنہ موجودہ انتخابات سے کرنا چاہتا ہوں۔ نہیں۔ان میں ہر ایک اپنے جوہری تناظر میں شاید مختلف تھا مگر ان کے اثرات قومی زندگیوں پر بہت بنیادی تھے۔ مجھے وہ شام یاد آ رہی ہے۔ 2 جنوری 1965ء کی شام جب دن اور رات گلے مل رہے تھے۔ میرے شہر کی گلیوں میں سناٹا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ چہار جانب ہو کا عالم تھا۔ فضائوں میں خوف کا راج تھا۔ میں اس وقت ایک طالب علم تھا۔ مادر ملت کی تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد باہر نکلا تو ایک آنہ لائبریری کے کائونٹر پر کسی نے پوچھا، سنائو کس حال میں ہو، عرض کیا: تم نے فصیل قصر کے رخنوں میں بھر تو دیں ہم بے کسوں کی ہڈیاں لیکن تم جان لو اے وارثان طرہ طرف کلاہ کے سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے یہ ایک طالب علم کا جوش دجنوں تھا جو بے پروا ہو کر اظہار پارہا تھا۔ پھر میری نگاہوں میں وہ دن بھی ہے جب 1970ء کے انتخابات کے بعد مغربی پاکستان میں بھٹو کا گلی گلی میں ڈنکا بجنے لگا تھا۔ ساہیوال میں ووٹ ڈال کر میں لاہور لوٹا تھا۔ ایک پژمردگی سی فضائوں میں اور ساتھیوں کے دلوں پر چھائی ہوئی تھی مگر ایک عزم بھی لطیفوں اور قہقہوں کی شکل میں پھوٹے پڑ رہا تھا۔ بھٹو کے فسطائی مزاج سے خوف آتا تھا کہ جانے وہ کیا کر گزرے۔ وہ پورا سال مگر اقتدار کی کمشکش میں گزرا حتیٰ کہ ایک جنگ ہم پر مسلط کردی گئی۔ ہم نے ملک دے دیا مگر اقتدار حق دار کو نہ دیا۔ ایک عجیب فضا تھی۔ ایک تاریک رات کا فردا پیش تھا۔ اس کی تیاری ہورہی تھی۔ کیا خوبصورت زمانہ تھا وہ جدوجہد کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے۔ جبر استبداد کا یہ زمانہ ہم نے بڑی شان سے گزارا۔ ملک کے مقدر میں جو تبدیلی لا سکتے تھے، اس کی کوشش کرتے رہے۔ خوب مزے میں تھے۔ مزاحمت کرتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ غرض کیا عجیب نشہ تھا، خوب مزہ تھا، کیا دن تھے جو جذبہ جنون کے دوش پر سوار ہو کر گزرے۔ یہ جو میں نے اوپر مثالیں دی ہیں، ان کا موجودہ حالات سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہے تو صرف اتنا کہ تبدیلی ایک خوبصورت جدوجہد کا اشارہ ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی مثبت ہو یا منفی، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ آپ لائن کے اس طرف ہوں یا اس طرف، اس کا بھی فرق نہیں پڑتا۔ یقینا دونوں صورتوں میں اپنا اپنا رنگ ہوتا ہے، اپنا اپنا ڈھنگ۔ مگر یہ طے ہوتا ہے کہ جنگ جاری ہے۔ تبدیلی کے حامیوں کے لیے بھی اور تبدیلی کے مخالفوں کے لیے بھی۔ بعض الیکشن محض الیکشن ہوتے ہیں مگر بعض سارا منظر نامہ بدل دیتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد 1977ء کے انتخابات بھی آئے اور اس کے بعد اگر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کو بھی گن لیا جائے تو گیارہ انتخابات گزر چکے ہیں مگر 90ء کے بعد یہ پہلے انتخابات ہیں جو ہمارے سماج میں ایسی جوہری تبدیلی لا سکتے ہیں جو ہماری تہذیب، معاشرت، اقتصادیات اور انداز حکمرانی کا رنگ بدل سکتے ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ برصغیر کے تخلیقی ذہنوں کے استاد اول حسن عسکری حیران کن طور پر بھٹو کے حامی ہو گئے۔ پوچھا گیا تو بولے پنجاب کا نوجوان بھٹو کے ساتھ ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان کا ظہور بھی ایک ایسی ہی تبدیلی کا اعلان تھا جس کا پہلے پہل اندازہ پنجاب ہی کے نوجوانوں کے ذہن سے ہوا۔ جس طرف نوجوان ہوتے ہیں، ادھر ہی عورتیں ہوتی ہیں۔ تبدیلی کی یہ لہر جس طرح دلوں میں ہلکولے مارنے لگی تھی وہ قابل دید تھی۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس لہر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ یقینا بھٹو والی لہر سے مختلف تھی۔ اس میں بہت بڑا جوہری فرق تھا جو وقت اور حالات کا فطری تقاضا تھا۔ اس لہر نے بہت کچھ پلٹ دیا مگر اس سے کبھی یہ خوف نہیں رہا کہ یہ بھٹو کی طرح فسطائی انداز اختیار کرے گی۔ اس سے یہ ڈر بھی نہیں رہا کہ یہ مخالفوں کی تکابوٹی کر کے رکھ دے گی۔ اس کے حامی اس کی بہت ساری خوبیوں کے شیدا ہیں اور اس کے مخالف اس کی بہت ساری خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ میں نے شاید گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ بعض مظاہر جہاں مثبت پہلو رکھتے ہیں، وہاں ان میں منفی پہلو بھی ہوتے ہیں اور اس سے الٹ بھی درست ہے۔ شاید یہ انقلاب یا تبدیلی کا وہ عبوری دور ہوتا ہے جب ایک جدلیاتی عمل کسی Synthesis کی تلاش میں ہوتا ہے۔ تاریخ کی قوتیں بہت سارے عوامل کی مزاحمت کرتی ہیں اور بعض عوامل ایک قوت بن کر اس عمل کو آگے دھکیلتے ہیں۔ میں ان قوتوں کا تصادم دیکھ رہا ہوں اور اسے زندگی کی علامت سمجھتا ہوں۔ اس عمل کی حرکیات کا قائل اور معتقد ہوں۔ مارکس کے معنوں میں نہیں، ایک دوسرے انداز سے۔ کوئی خوف نہیں، کوئی ڈر نہیں۔ اب ہم جمہو ر یت کی کئی منزلیں طے کر چکے ہیں۔ نواز شریف کا بیانیہ بھی بے معنی نہیں ہوا۔ اسے تاریخ میں ابھی آگے چلنا ہے۔ جدوجہد کا یہ تسلسل تمام ہوا۔ بہت سے مثبت پہلو نمایاں ہوئے ہیں اور بہت سے منفی نکات بھی۔ ابھی شاید مناسب نہ ہو گا بلکہ شاید قبل از وقت ہو کہ ان تمام عناصر کا تجزیہ کیا جائے جو برسرپیکار ہیں۔ سیاسی طور پر بھی ملک کا ڈھانچہ بدل چکا ہے۔ بعض خطوں نے جو اپنا سیاسی مزاج سیاسی وابستگیاں بدل لیں، ان کا الگ الگ تجزیہ درکار ہے۔ جنوبی پنجاب کو چھوڑیئے، شمالی پنجاب یا پوٹھوہار کا علاقہ جس طرح تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے اس کے خاص معنی ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جو ہماری مسلح افواج کو افرادی قوت فراہم کرتا ہے۔ یہاں دلوں کا بدلنا بڑا معنی خیز ہے کوئی اس کے غلط معنی نہ نکالے۔ میں اس معاملے میں سنجیدگی سے تبدیلی قلب کی بات کر رہا ہوں۔ یہ غور طلب بات ہے۔ ہر طبقے کے لیے میں اسے دلوں کا بدلنا کہہ رہا ہوں، کوئی سیاسی انجینئرنگ کی بات نہیں کررہا۔ اس سب سے زیادہ میرے لیے جو بات بڑی اہمیت رکھتی ہے، وہ کراچی کی تبدیلی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ کراچی میں گزارا ہے۔ میں نے کراچی اس وقت دیکھا ہے جب یہ ایم کیو ایم کا اسیر نہ ہوا تھا۔ کیا خوبصورت شہر تھا۔ اس وقت یہاں دو جماعتیں اپنا اثر و رسوخ مستحکم کر چکی تھیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے پاکستان۔ یہ 1985ء میں ہوا تھا کہ کراچی نے اپنی اس خوبصورت قیادت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ کیا لوگ تھے، پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، شاہ احمد نورانی۔ میں نے منور حسن کو اس اجلاس میں سنا ہے جب وہ کارکنوں کو اس صورت حال کے بارے میں بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے تھے۔ عجیب بات تھی، محمود اعظم فاروقی کو ایک شخص شاہ بلیغ الدین نے ہرا دیا تھا جو ایک ٹی وی عالم دین تھے اور اختلافی معاملات پر بڑا متشدد موقف رکھتے تھے۔ یقین نہ آتا تھا۔ پھر 1988ء کے جماعتی انتخابات آئے۔ فیڈرل بی ایریا میں ساری رات اس کا جشن اس طرح منایا گیا کہ نوجوان سڑکوں پر رقص کناں تھے۔ ایک بہت ہی معزز مگر معصوم، مہاجر دوست نے روتے ہوئے مجھ سے کہا، میر صاحب، خدا کے لیے بتائیے، کیا ہماری بچیاں سربازار اب یوں رقص کیا کریں گی، میں یہ دن دیکھنے کو زندہ کیوں رہا اور دھاڑے مار مار کر رونے لگے۔ کراچی ایم کیو ایم کا اسیر ہوگیا۔ کوئی طریقہ نظر نہ آتا تھا کہ اس سے رہائی پاتا۔ سب سرکاری کوششیں بھی غارت جاتی تھیں۔ سوچنے والے کہتے تھے کیا جماعت اسلامی واپس آ سکتی ہے، کیا جمعیت العلماء میں جان پڑ سکتی ہے۔ یہاں سے اے این پی، مسلم لیگ، پیپلزپارٹی بھی کوشش کرتی تھیں۔ کیا وہ ابھر سکتی ہیں۔ تحریک انصاف نے این اے 246 کے الیکشن میں جو مار کھائی تو لگتا تھا یہ تجربہ کامیاب نہیں رہے گا۔ دلوں کے اندر پی ٹی آئی کے لیے جذبہ موجود تھا مگر اس وقت لگتا تھا کہ اسے غیر مہاجر جماعت سمجھ کر رد کردیا گیا ہے۔ اچانک فضا ایسی بن گئی تھی جیسے کرہ ارض پر ایلین نے حملہ کردیا ہے۔ اس سے مراد ’’خلائی مخلوق‘‘ نہیں، یوں کہہ لیجئے کسی ملک مریخ کے باشندے ہیں۔ سب تذبذب میں تھے۔ کراچی اس بار کدھر جا سکتا ہے۔ کیا بندر بانٹ ہوگی مگر کراچی والوں نے ہمیشہ کی طرح پورے ملک کو حیران کردیا۔ میں بھی حیران ہوں۔ مگر کسی قومی جماعت کا ابھرنا ایک اچھا شگون سمجھتا ہوں۔ بہت اعتراض بھی ہوا ہے۔ شاید کچھ مسالہ لگ گیا ہو اور زیادہ لگ گیا ہو۔ پھر بھی مجھے یقین ہے کہ تحریک انصاف نے اس مٹی میں جڑیں پکڑ لی ہیں۔ خدا کرے ہر پودا اس آب و ہوا میں پھلے پھولے۔ میں اپنے کراچی میں اس تبدیلی پر بہت خوش ہوں۔ پہلے پتا ہوتا تو کراچی چھوڑ کر لاہور کیوں آتا۔ شکوک درست بھی ہوں تو بھی یہ کہتا ہوں کہ ضرور کراچی میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ لیاری کی سیٹ بھی میرے لیے اہم ہے۔ پچاس سال سے بھٹو خاندان کے پاس تھی۔ اس سے پہلے یہاں ہارون خاندان کا قبضہ تھا۔ بہت سی باتیں کرنا ہے۔ فی الحال تو صرف اتنا ریکارڈ کرنا ہے کہ میری جنگ جاری رہے گی۔ بڑا مزہ آئے گا۔ اس مزے مزے میں ہم اپنے وطن کو بچائیں گے۔