باکو ، آذربائیجان میں ہوٹلوں کی درجہ بندی بھی خوب دیکھی ۔کئی دیگر معاملات کی طرح یہاں ہوٹلز کی درجہ بندی بھی انہوں نے خود ہی وضع کی ہوئی ہے ۔ یہاں کسی ہوٹل میں آٹھ نو کمرے ہوں تو اُسے یہ لوگ تھری سٹار ہوٹل کہتے ہیں ۔میرا ہوٹل بھی اسی علاقے میں تھا اور اس کے چونکہ دس بارہ کمرے تھے لہذا یہاں کی انتظامیہ اسے فور سٹار ہوٹل قرار دے رہی تھی ۔ مجھے اس پہ بالکل اعتراض نہیں تھا میں اُن سے صرف یہ کہہ رہا تھا کہ فور سٹار ہوٹل کے کمروں میں عموماً گرم ٹھنڈے پانی کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے مذید برآں ایسے ہوٹل کے بیڈ رومز میںلگی ایل سی ڈی وغیرہ عام طور پہ چلتی بھی ہیں ۔ دوسرے دن ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں ناشتے پہ مجھے ایک عمر رسیدہ ہم وطن نظر آئے ۔ باکو میں کسی ہم وطن کا یوں ملنا کسی نیک شگون کا باعث ہر گز نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے کوئی خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے عزائم لاکھ اچھے ہوں آگے والا پھر بھی یہی سمجھتا ہے کہ یہ بھی اُسی مقصد سے یہاں آیا ہے جس کے لیے وہ آیا ہے ۔ چنانچہ ، غالباً اسی خیال کے پیشِ نظر ، بزرگوار کی نظر مجھ پرپڑی تو وہ قدرے جھینپ سے گئے ۔ ادھر میری کیفیت بھی ہرگز مختلف نہ تھی ۔ہم صرف دو ہی ہم وطن تھے لہذا مروتاً اور ’ کرٹسی کال‘ کے طور پہ میں نے اپنا کافی کا مگ اُٹھایا اور اُن کے پاس جاکر انہیں سلام بُلایا ۔ موصوف نے مجھے طوعاً و کرھاً بیٹھنے کو کہا ۔ تعارف ہوا تو پہلے انہوں نے بتایا کہ وہ یو پی، انڈیا سے آئے ہیں ۔ اس دوران میں ان کے لیپ ٹاپ بیگ کے کونے میں لکھے ایڈریس میں راولپنڈی، پاکستان پڑھ چکا تھا۔ چنانچہ میں نے عاجزی سے پوچھا کہ یو پی میں راولپنڈی کس جگہ پہ ہے تو اس پر وہ ذرا سا چونکے اور پھر صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے اصل بات بتا دی ۔ کہنے لگے کہ یہاں اصل شہر اور وطن نہیں بتانا چاہئے ورنہ کسی واردات کا خطرہ رہتا ہے ۔خیر تھوڑی دیر بعد پروفیسر صاحب کھُلنا شروع ہوگئے۔ پروفیسرخوشحال صاحب عرصہ ہوا ریٹائرڈ ہوچکے تھے ۔ مدت ہوئی گھر والی آخری گھر کو سدھار چکی تھیں ۔ بچے بالکے اپنے اپنے گھروں کے ہو لیے بلکہ اب آگے اُن کے اپنے بچے بھی اپنے گھر سنبھال رہے تھے ۔ تمام عمر بالکل ناک کی سیدھ میں گزاری ۔ابھی پینشن اور دیگر انویسٹمنٹ کی مد میں اچھی انکم آ رہی تھی ۔عمر کو اگر ایک طرف رکھیں توپروفیسر صاحب میں کئی ’ پلس پوانٹس ‘تھے۔۔ سب کچھ تھا ۔ کشادہ گھر ، لگژری گاڑی اور اچھا بینک بیلنس۔ پروفیسرصاحب ایک سیلف میڈ آدمی تھے ۔ اور اُن کی طرح ہر سیلف میڈ بندے کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ جوانی اور بھرپور توانائی کے سال روزی روٹی کے چکروں میں نکل جاتے ہیں ۔ اور جب معاشی اور سماجی آسودگی میسر آتی ہے تب جوانی بیتے عرصہ ہو چکا ہوتا ہے ۔ پروفیسر صاحب نظامی سٹریٹ گئے تو بس پھر ادھر کے ہی ہو لیے ۔ شام ڈھلے جب کوہ قاف سے پریاں جب اس گھاٹ پر اترتیں تو پروفیسر صاحب اپنا دل ہتھیلی پہ لیے ادھر ہی کسی کونے میں دبکے بیٹھے رہتے ۔ ہوشربا حسن کے نظارے قیامت ڈھاتے تو اُن کا سارا وجود گویا آنکوں میں سمٹ آتا ۔ وہ ’’ گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے ‘‘ کی تصویر بنے بنچ پہ بیٹھے رہتے ۔ نظامی سٹریٹ کے ایک طرف ریسٹورنٹ اور قہوہ خانوں کی ایک طویل قطار چلی جاتی ہے ۔ ایک شام میں نے دیکھا ایک قہوہ خانے میں پروفیسر صاحب ایک ٹیبل پہ براجمان تھے ۔ اُن کے ساتھ ایک آذری خاتون موجود تھی ۔پروفیسر صاحب جذبات سے بھرائی ہوئی آواز میںکسی عہدوپیماں میں مصروف تھے ۔ پروفیسر صاحب مسلسل اور بڑی شُستہ انگریزی بولے جا رہے تھے اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ خاتون موصوفہ کو ککھ سمجھ نہیں آرہی ہوگی۔زبان کا مسئلہ یہاں ایک بڑی مصیبت ہے ۔ایسے میں بندے کی بے بسی کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جسے یہ مصیبت سامنا کرنی پڑی ہو ۔یعنی منزل سامنے ہوتی ہے اور زبان ایک دیوار بن جاتی ہے ۔پروفیسر صاحب نے جھنجھلا کر ایک آدھ مرتبہ ویٹر سے اس بارے مدد لینے کی کوشش کی ۔ خاتون کی عمر کوئی پینتالیس سال کے قریب ہوگی اور وہ پروفیسر صاحب سے یقیناً کوئی رُبع صدی چھوٹی رہی ہوگی ۔لیکن خاتون کا رُخ میری طرف ہوا تو مجھے پروفیسر صاحب کے کمال ذوق کی داد دینی پڑی۔ عمر کی پُختگی کے باوجود خاتون آذری حُسن کی شاہکار مثال تھی ۔ اُسی رات کے آخری پہر کا ذکر ہے میرے دروازے پہ دستک ہوئی دیکھا تو پروفیسر صاحب تھے۔ میں نے خیریت پوچھی کہنے لگے،’’ برخوردار ! طبیعت میں شدید اضمحلال ہے ۔ پائوں ، پنڈلیوں اور رانوں وغیرہ سے گویا جان نکلے جا رہی ہے‘‘ ۔ میں گھبرا گیا ۔ پروفیسر صاحب جان نکلنے کا جو ’’ٹریک‘‘ بتا رہے تھے وہ انتہائی خوفناک تھا اور ایسی علامات ہوں تو عام طور پر واپسی مشکل ہوتی ہے۔ یک دم میرے ذہن میں ایک واہیات سا خیال کوندا ۔۔میں نے تصور میں دیکھا کہ جہاز میں ایک چوبی تابوت دھراہے جس میں قبلہ پروفیسر صاحب کی اپنی لاش موجود ہے او رمیں تابوت کے پہلو میں سر نیہوڈائے بیٹھا ہوں اور میری نظریں تابوت کے ماتھے پہ لگے چھوٹے سے شیشے پہ لگی ہیں جس کے پار محترم پروفیسر صاحب کا چہرہ دکھائی دے رہا ہے ۔ پھر اگلے ہی لمحے میں نے اس منحوس خیال کو دماغ سے چھٹک دیا ۔ میں نے فوری طور پہ ایک مقامی دوست سے رابطہ کرکے پروفسیر صاحب کی علامات کے مطابق میڈیکل سٹور سے دوائی کا اہتمام کیا ۔دوائی دی گئی ۔ طبیعت ذرا سنبھلی تو انہیں واپس لے کر آئے ۔ واپسی پر بازو کا سہارا دیتے ہوئے میں نے اُنہیں اُن کے بیڈ پر بٹھایا اور ساتھ سرگوشی کے انداز میں عرض کیا ، ’’ حضور ! تھوڑی احتیاط کیجیے ‘‘ ۔اس پر پروفیسر صاحب نے زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگایا ۔میں کمرے سے نکلا تو وہ غالبؔ کا یہ شعرباآوازِ بلند پڑھ رہے تھے : پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے