اسلام آباد سے روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بااثر صنعت کاروں‘ کھاد فیکٹریوں ‘ سی این جی سٹیشنزاور پاور پلانٹس کے مالکان کو 208ارب روپے معاف کر دیے گئے ہیں۔ یہ رقم مختلف کمپنیوں اور صنعت کاروں نے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج کی مدمیں غریب کسانوں اور عوام سے پانچ سال کے دوران وصول کیے تھے۔ حکومتی اقدامات سے لگتا یہی ہے کہ سارے دکھ اٹھانے کے لئے ملک میں صرف غریب طبقہ ہی رہ گیا ہے۔ بڑے مگرمچھ تو کسی نہ کسی طرح اپنی گردن چھڑا لیتے ہیں۔ کیا عوام پوچھ سکتے ہیں کہ ان بڑے مگرمچھوں کو اتنی بڑی رقم معاف کیوں کی گئی؟ حالانکہ ان سے ملنے والی اس رقم کو ایران پاکستان گیس پائپ لائن ٹاپی منصوبے اور توانائی کے دیگر شعبوں میں صرف کیا جانا تھا اب ان منصوبوں کے لئے عوام پر کون ساسرچارج لگایا جائے گا ؟ خبر تو یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم کی معافی کے ساتھ ان بااثر کمپنیوںکے مالکان کے لئے گیس سرچارج کے نرخ بھی 50فیصد کم کر دیے جائیں ہم حکومت سے گزارش کریں گے بڑے سرمایہ داروں کو اس طرح کی معافیاں دینے سے پہلے غریب عوام کاسوچ لینا چاہیے جو ٹیکسوں اور مختلف سرچارجوں کی مدوں میں بہت کچھ حکومت کو پہلے ہی ادا کر رہے ہیں‘ لہٰذااس قسم کے آرڈیننس جاری کرنے سے پہلے عوام کی حالت زار پر توجہ کر لینی چاہیے بڑے مگرمچھوں کو معافیاں دینے کی بجائے ان سے رقوم نکلوا کر اسے قومی خزانے میں جمع کرائی جائیںاور اسے ملکی تعمیر و ترقی اورکے منصوبوں پر خرچ کیا جائے تاکہ امیروں کی بجائے ملک کے غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔