اْٹھ فریدا سْتیا جا جھاڑو دے مسیت تو سْتّا تے رب جاگدا تیری ڈاڈے نال پریت دسمبر 2012ء میں مظفر گڑھ سے پاکپتن تبادلہ اچانک ہوا۔ نہ کوئی کاوش، نہ منصوبہ بندی البتہ عرصہ دراز سے دل کے نہاں خانوں میں ایک معصومانہ سی خواہش موجزن رہی کہ کبھی پاکپتن شریف میں بھی سروس کا موقع ملے۔ ہمارے لیے پاکپتن کی پوسٹنگ دنیاوی آن بان اورٹھاٹ سے ہٹ کر خالصتاً ایک قلبی اور روحانی معاملہ تھا کہ بابا فرید گنج شکرؒ کے ساتھ ایک روحانی اور نسبی تعلق بھی ہے۔ ہم انہی یادوں کے جھروکوں کی اوّلین قسط ‘‘چٹی شیخاں سے یونیورسٹی لاء کالج تک’’ میں اپنے اس نسبی تعلق کی غرض و غایت اور پس منظر کا تفصیلی ذکر کر چکے ہیں۔ اس قسط میں سے صرف ایک متعلقہ پیرا یہاں دوبارہ نقل کرنے کی جسارت کر رہے ہیں تاکہ بابا جی سے اپنے اْنس و محبت اور عقیدت کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ یہ سب تاریخی کتب کی بنیاد پر تحقیق شدہ مواد ہے۔ ‘‘اپنے آبائی علاقہ سیالکوٹ شہر سے تقریباً پانچ کلو میٹر مغرب کی طرف ایک تاریخی اور قدیمی قصبہ چٹی شیخاں ہے۔ کئی تاریخی حوالوں کی روشنی میں خصوصی طور پر مختلف کتابوں جن میں ‘‘ جواہر فریدی’’، ‘‘ اولاد گنج شکر’’، ‘‘ تاج العارفین’’ ، ‘‘تاریخ سیالکوٹ’’، اور ‘‘ سیالکوٹ گزیئٹر’’ کے مطابق یہاں بابا فرید گنج شکر کی اولاد آباد ہے۔ جو قریشی، فاروقی اور چشتی کے ناموں سے پہچانی جاتی ہے۔ مختصراً تاریخ اس طرح ہے کہ آج سے تقریباً ساڑھے چار سو سال پہلے بابا فرید گنج شکرؒ کے پڑ پوتے حضرت بدر الدین سلیمان چشتی بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں سے کشمیر میں سیر و سیاحت کے لیے تشریف لائے۔ چٹی شیخاں اس وقت ایک آباد قصبہ تھا اور کشمیر کے ملحقہ راستے میں پڑتا تھا۔ بابا جی نے یہاں قیام کیا اور یہیں پر شادی کی۔ اپنے عزیز و اقارب کو چشتیاں اور پاک پتن سے بلوا کر یہاں آباد کیا۔ اس طرح ان کی ایک نسل یہاں آباد ہو گئی۔ چٹی شیخاں مغلیہ دور میں ایک سٹیٹ(ریاست) تھی۔ میرے آباء میں سے ساتویں پشت میں نواب رضا فاروقی قریشی اسکے حاکم تھے۔ یہ وہی نواب رضا ہیں جنہوں نے رسول نگر وزیرآباد کے زمیندار چوہدری پیر محمّد کے ساتھ مل کر سکھوں کے قبضہ میں آئے ہوئے خاندان اہل بیت کے تبرکات/نوادرات ایک زرِ کثیر ادا کر سکھوں سے واگزار کرائے جن تبرکات میں نعلین اور آئینہ مبارک حضور سرور عالم ﷺ و جبہ شریف مولا علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امام حسن ؑاور امام حسین ؑکے ہاتھوں سے لکھی ہوئی دو عدد چوبی تختیاں جن پر تحریر ایسی کہ نظر ٹھہرنے نہ پائے اور دو تین مزید تبرکات۔ سیالکوٹ گزیٹئر نے جو انگریز نے 1920ء میں شائع کرایا اسکے صفحہ نمبر 47 پر بھی ان تبرکات کا ذکر ہے۔ یہ وہی تبرکات ہیں جن کا کثیر حصّہ اس وقت بادشاہی مسجد لاہور میں محفوظ ہے۔ 1864ء میں انگریز سرکار کی طرف سے ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے کا آغاز ہوا تو سب سے پہلی مثل حقیت میں چٹی شیخاں ضلع سیالکوٹ میں ہمارے بزرگ نواب رضا فارقی قریشی کو چٹی شیخاں ریاست کا حکمران اور بابا فرید گنج شکرؒ کی اولاد ہونا بیان ہوا ہے۔ بابا فریدگنج شکرؒ برصغیر پاک و ہند میں اولیاء کرام اور صوفیائے عظاّم کے قافلہ کے سرخیل ہیں۔ سلطنت اولیا کے ایک تابندہ ستارہ ہیں۔ بابا جی جنہیں زْہد الانبیا کا لقب بھی ملا اور بلاشبہ اْن کا مقام و مرتبہ کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وقت کے دو بہت بڑے اور عظیم المرتبت اولیا اللہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور حضرت بختیار کاکی ؒ نے بہ یک وقت آپ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ولایت منتقل کی۔ بلاشبہ یہ اعزاز بابا جیؒ کے ذات و کمال کا کرشمہ ہے جو نالہ ہائے جگر گداز اور ان کی شب بیداریوں میں کی گئی اشک باریاں اْن کے گوشہ خلوت کو چراغاں کرتی رہیں۔ اور میرے بس میں نہیں کہ اْن کی شان میں کچھ لکھ سکوں ورنہ کفر و الحاد، فسق و فجور اور ظلم و تغّیان میں گھرا ہوا اجودھن نامی قصبے کا پاکپتن شریف بننے تک کا سفر ایک سیر حاصل بحث کا متقاضی ہے۔ بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ بابا جی ؒکے فیض سے یہاں رونق بہار کا منظر ہر سْو اور ہر وقت ہے۔ بابا جیؒ نے جہاں اپنے حْسن کردار سے اسرار و معارف کے دریا بہا دیے وہاں انسانی کردار سازی پر بھی توجہ دی۔ یہی قلبی و روحانی تعلق ہمیں بارھا کشاں کشاں پاکپتن لے جاتا رہا۔ لہذا جب 29 دسمبر 2012.ء کی شام اپنے ہمدم دیرینہ محمّد دین بسرا سیشن جج اسٹیبلشمنٹ کا فون آیا کہ عابد قریشی تمھارا تبادلہ پاکپتن ہو گیا ہے اور یہ سب معجزاتی طور پر ہوا ہے تو میں نے بھی کہا کہ مجھے بھی اس ‘‘معجزہ’’ کا انتظار تھا۔ بہرحال 4 جنوری 2013ء کو صبح سب سے پہلے مزار بابا جیؒ پر حاضری اور شکرانہ کے نفل ادا کرنے کے بعد پاکپتن میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جائن کیا۔