6 دسمبر1992ء کے روزبھارت کے سنگھ پریوارٹولے ’’بی جے پی اوراسکی تمام ذیلی تنظیموں شیوسینا، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل‘‘کے غنڈوںنے گانگریس کی حکومت سے سازبازکرتے ہوئے مسلمانوںکے ساتھ شرمناک کھلواڑ کھیلا تھاگرچہ اس سانحے کی منصوبہ بندی اورپھریہ سانحہ انجام دینے والے کئی کرداریعنی اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا رائو، اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ شنکر رائو چوہان او ربابری مسجد کو شہید کرنے کے لیے اپنی سینا بھیجنے وا لے بال ٹھاکرے تو واصل جہنم ہوچکے ہیں ۔ مگر کئی کردار آج بھی دندناتے پھررہے ہیںجن میں سے تین کردار لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی اہم ہیں۔ ایک اہم کردار او ربھی ہے یعنی سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی مگر وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ لاش ہے۔ یہ سب وہ کردار ہیں جنہیںبابری مسجدکے سانحے پربنائے جانے والے’’ لبراہن کمیشن ‘‘نے بابری مسجد کے ملزمان کی فہرست میں سرفہرست رکھاہے۔ ایودھیامیں6 دسمبر1992ء کوتاریخی بابری مسجدکوجس طرح شہیدکردیاگیااوراس موقع پر جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کاحصہ بن چکاہے۔ سارے مجرم اپنی پوری شناخت کے ساتھ واضح ہیں مگر یہ آج تک نہ صرف بچتے چلے آئے ہیں بلکہ یہ اقتدار کی اعلیٰ کرسیوں پر متمکن رہے ہیں۔ آج بھی بھارت میںمودی کی قیادت میں سنگھ پریوارٹولے ’’بی جے پی اوراسکی تمام ذیلی تنظیموں شیوسینا، آرایس ایس، وشوا ہندوپریشد، بجرنگ دل‘‘ ہی کی حکمرانی ہے۔ یہ ٹولہ آج بھی سرگرم ہے کہ کسی طرح ایودھیا میں، بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہوجائے، جبکہ6 دسمبر2017ء منگل سے سپریم کورٹ میں املاک کے تعلق سے یومیہ سماعت شروع ہوچکی ہے اور بابری مسجد کی ملکیت کے تعلق سے سماعت ہورہی ہے اس سے قبل لکھنو میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں بابری مسجد کی شہادت کے مقدمے کی سماعت جاری ہے ۔واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ بابری مسجد رام مندر کے مقدمے کی حتمی سماعت شروع کر چکی ہے اوربھارتی سپریم کورٹ کا ایک بنچ اس پیچیدہ مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ایودھیا کی شہیدتاریخی بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کس کی ہے۔اس سے قبل الہ آباد ہائی کورٹ نے 2010 ء میں اپنے فیصلے میں شہیدتاریخی بابری مسجد کی زمین کو ایک مسلم اور دو ہندو فریقوں کے درمیان برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ تینوں فریقوں نے الہ آبادکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیلنج کیا ہے۔بابری مسجد کی اراضی سے متعلق یہ مقدمہ کتنا پیچیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند ماہ قبل خودبھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ہندو اور مسلم لیڈروں کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ اس تنازع کو عدالت سے باہر مصالحت سے حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی پیشکش کو مسلمانوں نے قبول نہیں کیا۔ اب جبکہ بھارتی ریاست گجرات اسمبلی کے الیکشن بھارتیوں کے سر پر ہیں سنگھ پریوار او ربی جے پی لیڈررام مندر کی تعمیر کا شور مچائے ہوئے ہیں۔ سبرامنیم سوامی گلا پھاڑ رہے ہیںاور شری روی شنکر بھی ایک کردار کے طو رپر سامنے آئے ہیں یہ پہلے بھی اس قضیے میں کودے تھے اور مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے چھوڑ دیں۔ مگربے چارے بھارتی مسلمان اور بے اثراورکمزوربھارتی مسلم تنظیمیں بشمول آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، جمعیت علمائے ہند اور سنی وقف بورڈ عدالتی فیصلہ قبول کرنے کے علاوہ کسی اور کھلواڑ کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ مجرمانہ سازش کے مقدمے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس سوال کا ابھی کوئی جواب تو نہیں دیاجاسکتا، مگر اتنا تو یقینا کہا ہی جاسکتا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت جوہمہ گیر سازش تھی،انصاف ملنامحال نظرآرہاہے۔ بابری مسجدکی شہادت دراصل بھارت کے نحیف ونزارمسلمانوں کے لئے بھارتی ہندوئوں کی طرف سے واضح پیغام تھاکہ ’’ہم جو چاہیں گے کریں گے تم لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکوگے‘‘۔ جب سنگھ پریوارٹولے ’’بی جے پی اوراسکی تمام ذیلی تنظیموں شیوسینا، آرایس ایس، وشواہندوپریشد،بجرنگ دل‘‘ کے غنڈے بابری مسجدکے گنبدوں پر چڑھے ہوئے تھے اورانہوں نے پہلا گنبدگرا دیاتھاتو آج کی مودی حکومت کی وزیر اوما بھارتی سابق وزیر مرلی منوہر جوشی سابق وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی شہیدکی جارہی مسجدبابری کی چھت پرچڑھے ہوئے، مسکرا رہے تھے ۔یہ ایک ایسی مسکراہٹ تھی کہ جس میں فتح کا نشہ، طاقت کا گھمنڈ اور زعم جبکہ مسلمانوں سے نفرت کا کھلا اظہار سب کچھ نظرآرہا تھا۔ سنگھ پریواریعنی آر ایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیموں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل وغیرہ اوراس کا سیاسی ونگ بی جے پی اور اس کے نظریے کو قبول کرنے والی سیاسی پارٹیوں جیسے کہ شیوسینا وغیرہ کا اس تنازعے میں ہاتھ شروع ہی سے واضح ہے۔یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ سنگھ پریوار نے بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیر کاسارا کھڑاک بھارت کے طول وعرض پر اقتدار کے حصول کے لیے پھیلایاتھا۔جبکہ اس کے بعد1989ء میں دورتھ یاترائیں شروع ہوئی تھیں،ایک رتھ یاترا مرلی منوہر جوشی کی تھی،اوردوسری ایڈوانی کی۔جوشی کی رتھ یاترا ایڈوانی کی رتھ یاترا کے مقابلے پھیکی تھی کیونکہ ایڈوانی نے اس رتھ یاترا کو اپنی بھی اوربی جے پی کی بھی سیاسی زندگی کو عروج پر پہنچانے کاذریعہ بنایاتھا۔رتھ یاترا گجرات کے سومناتھ مندر سے شروع کی گئی تھی اس کامقصد یہ پیغام دیناتھا کہ جس طرح محمودغزنوی کے ہاتھوں تباہ وبرباد کیے گئے سومناتھ مندرکی تجدید کاری ہوئی ہے اسی طرح بابر کے ہاتھوں بنائے جانے والی پانچ سوسالہ بابری مسجدکو ڈھا کرتجدید کاری کی جائے گی۔رتھ یاترا منصوبہ بند تھی،ملک کے ہندوئوں کو متحد کر کے ایودھیا بھیجنا اس کا مقصدتھا۔اس کے لیے جگہ جگہ ایڈوانی نے انتہائی اشتعال انگیزتقریریں کیں،تقریر یں ایسی زہریلی تھیں کہ رتھ یاترا جہاں سے گزری وہاںمسلمانوں کے جان ومال پرحملے ہوئے،سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ان جھڑپوں میں پانچ سوسے زائد مسلمان قتل کئے گئے۔اسی لیے یہ خونی رتھ یاتراکہلائی ۔بہار میں لالوپرساد یادو نے تواس خونی رتھ یاتراکو روک دیامگربھارت کے مرکز کی کانگریسی حکومت ہمیشہ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔