معزز قارئین!۔ بسلسلہ تعلیم ، ملازمت اور کاروبار ، بیرونی ملکوں میں "Settle"۔ 58 لاکھ پاکستانیوں کو ’’ تارکین وطن‘‘ کہا جاتا ہے لیکن مَیں اُنہیں ’’ فرزندان و دُختران پاکستان‘‘ کہتا اور لِکھتا ہُوں ۔ دو روز قبل جب ،گلاسگو کے ’’بابائے امن ‘‘ ملک غلام ربانی مجھے اور روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں میرے ساتھی برادرِ عزیز اشرف شریف کو اپنے ساتھ لاہور میں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ڈیرے ( ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان) میں ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کے ظہرانے میں لے گئے تو ، نہ جانے مجھے کیوں ’’تارکِ وطن ‘‘ پاکستان کے سابق نگران وزیراعظم مُعین اُلدّین قریشی (قصوری) یاد آگئے؟۔جن کے بارے میں میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا تھا کہ … فرصت مِلی تو، باپ کے مرنے پہ، آئے گا! تُربت پہ ماں کی ، پُھول چڑھا کر ،چلا گیا! …O… بابائے اؔمن کے اعزاز میں ظہرانہ کیا تھا؟۔ قائداعظمؒ کے سپاہیوں ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکنوں یا اُن کی آل اولاد کی محبتوں سے بھرپور مجلس تھی۔ "Gold Medalist" شرکا میں بزرگ ترین چودھری ظفر اللہ خان اور چیئرمین ’’ کارکنانِ تحریکِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد تھے ۔ ’’ تحریکِ پاکستان کے دَوران ’’لاہور بچہ مسلم لیگ ‘‘ کے سربراہ ، وائس چیئرمین ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ جسٹس (ر) خلیل اُلرحمن، موضع ڈُھلّی (تلہ گنگ) کے ’’تحریکِ پاکستان ‘‘ کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ملک حاکم خان کے بیٹے ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی ، پاک پتن شریف کے میاں محمد اکرم کے بیٹے برادرِ عزیز سعید آسیؔ ، ریاست نابھہ کے رانا فضل محمد چوہان کا بیٹا ( راقم الحروف اثر چوہان) سر ہند شریف کے قاضی ظہور اُلدّین کے بھتیجے جناب جمیل اطہر ؔقاضی، ڈاکٹر سیّد علی محمد شاہ ( امرتسری) کے پوتے سیّد شاہد رشید اور میاں فیض بخش کے پوتے میاں فاروق الطاف ( وائس چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ) ۔ جس کمرے میں جنابِ مجید نظامی چیئرمین ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی حیثیت سے رونق افروز ہوتے تھے وہاں یہ مجلس گرم کی گئی تھی جس میں قائداعظمؒ اور تحریکِ پاکستان کے دوسرے اکابرین کی یادوں کے چراغ روشن کئے گئے ۔ مَیں نے کئی بار دیکھا کہ ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ کارکنانِ تحریکِ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ تقاریب کے آغاز یا اختتام کے بعد جنابِ مجید نظامی اپنے کمرے کے بجائے سیّد شاہد رشید کے کمرے میں ( اُن کی کرسی اور میز کے بائیں طرف ) تشریف رکھتے تھے اور اُن سے ملاقات کرنے والے احباب بھی ۔’’تحریکِ پاکستان ‘‘کے نامور ( گولڈ میڈلسٹ)کارکنان ، فرزند ِ اقبالؒ ، ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال ، ڈاکٹر جمشید احمد خان ترین ، جناب محمد رفیق تارڑ، میاں محبوب احمد، ڈاکٹر شیخ رفیق احمد ، جسٹس (ر) میاں آفتاب فرخ کے علاوہ ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے کئی دوسرے نامور (گولڈ میڈلسٹس) کارکنان کو بھی جنابِ مجید نظامی کی صحبت میں دیکھا تو، مجھے علاّمہ اقبالؒ کے روحانی مُرشد مولانا روم ؒکا یہ شعر یاد آ جاتا تھا کہ … یک زمانے صُحبت با اولیائ! بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا! …O… یعنی۔ ’’ مُرشد کامل کی صحبت میں ایک گھڑی گزارنا سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بڑھ کر ہے ‘‘۔میرا جنابِ مجید نظامی سے 1964ء سے تعلق ہُوا جب اُنہوں نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ پھر مَیں لاہور شفٹ ہوگیا اور 11جولائی 1973ء کو مَیں نے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور جاری کِیا۔ مئی 1991ء میں مَیں نے اپنا کالم’’ سیاست نامہ ‘‘ روزنامہ ’’ پاکستان‘‘ سے ’’ نوائے وقت‘‘ میں منتقل کردِیا جو ، ڈیڑھ سال تک جاری رہا۔ ’’ سیاست نامہ‘‘ کا دوسرا دَور جولائی 1998ء سے جون 1999ء تک جاری رہا اِس دَوران مَیں نے برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر جنابِ مجید نظامی کی شخصیت اور قومی خدمات پر اردو اور پنجابی میں چار نظمیں لکھیں اور جب ،12 اگست 2012 ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میری کالم نویسی کا تیسرا دَور شروع ہُوا تو، مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی حیات بلکہ بعد از حیات بھی مارچ 2017ء تک چار اورنظمیں لکھیں۔ 3 اپریل 2014ء کو جنابِ مجید نظامی کی آخری سالگرہ ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان ‘‘ میں منائی گئی جس، میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے محترم مجید نظامی کو ’’میدانِ صحافت کا شہ سوار‘‘ قراردیتے ہْوئے کہا کہ ’’میری دْعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے سروں پر ڈاکٹر مجید نظامی کا سایہ سلامت رکھیں۔ اور ہم سب اِن کی Centuary(سو سالہ سالگرہ بھی منائیں)۔‘‘ اِس پر حاضرین نے بلند آواز سے ’’آمِین!‘‘ کہا۔ پھر مجھے جناب احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر یاد آ گیا … جِس بھی فنکار کا شَہ کار ہو تم! اْس نے صدیوں تمہیں سوچا ہو گا! مَیں نے سالگرہ کی تقریب میں ’’چمک رہا ہے ، صحافت کا مہر عالم تاب‘‘ کے عنوان سے نظم پیش کی جس کے دو بند پیش خدمت ہیں … سجائے بَیٹھے ہیں محفل خلُوص کی احباب! کِھلے ہیں رنگ برنگے محبّتوں کے گُلاب! بنایا قادرِ مُطلق نے جِس کو عالی جناب! چمک رہا ہے صحافت کا مہِر عالم تاب! خُوشا! مجِید نظامی کی برکتیں ہر سُو! ہے فکرِ قائدؒ و اقبالؒ کی نگر نگر خُوشبو! اثر ؔدُعا ہے کہ ہو ارضِ پاک بھی شاداب! چمک رہا ہے صحافت کا مہِر عالم تاب! …O… معزز قارئین! جنابِ مجید نظامی نے فروری2013ء میں ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کو ’’نظریۂ پاکستان فورم برطانیہ‘‘ کا صدر مقرر کِیا تھا۔ یکم ستمبر 2013ء کو مجھے اپنے بیٹوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لئے لندن جانا تھا تو، میری درخواست پر جنابِ مجید نظامی نے (سیّد شاہد رشید کی وساطت سے ) مجھے اہلِ گلاسگو کے نام پیغام بھجوایا دِیا تھا ۔ جِس میں جنابِ مجید نظامی نے اہلِ گلاسگو سے اپیل کی تھی کہ ’’ آپ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے برطانیہ میں وکالت کریں اور برطانیہ کے عوام و خواص کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنی جدوجہدمیں شامل کریں‘‘۔ مَیں 4 ستمبر 2013ء کو گلاسگو پہنچا ۔ ’’ بابائے امن ‘‘ کو جناب مجید نظامی کا پیغام پہنچایا تو ، اُنہوں نے مجھ سے پیغام کی اصل کاپی لے کر پورے سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ میں پھیلا دِیا تھا۔ ’’ بابائے امن‘‘ چاہتے تھے کہ ’’جنابِ مجید نظامی برطانیہ اور خاص طور پر گلاسگو کا دورہ کریں ، جنابِ مجید نظامی نے یہ دعوت قبول بھی کرلی تھی لیکن، وہ 16 جولائی 2014ء کو خالق حقیقی سے جا مِلے۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ … مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ،اِس ظلمات میں! جس طرح تارے چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں! …O… معزز قارئین!۔طے شدہ پروگرام کے مطابق کل (30 دسمبر کو) لاہور میں چودھری ظفر اللہ خان کے ڈیرے پر ’’ بابائے امن‘‘ کے ظہرانے کا اہتمام تھا لیکن، 29 دسمبر کو ڈُھلّی (تلہ گنگ ) میں ’’ بابائے امن‘‘ کی ہمشیرہ محترمہ جہان بیگم زوجہ ملک نعمت خان اعوان کا انتقال ہوگیا ۔ مَیں نے کئی بار ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان‘‘ کے "Entrance" میں ’’تحریکِ پاکستان گیلری‘‘ کی زیارت کی ہے جس ، میں قائداعظمؒ اور دوسرے اکابرین کی تصویریں سجی ہیں اور تحریکِ پاکستان کے مناظر بھی لیکن، دو روز قبل جب’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے ڈپٹی سیکرٹری پروگرامز محمد سیف اللہ چودھری نے ’’ بابائے امن‘‘ برادرِ عزیز اشرف شریف کو اور مجھے اُس گیلری کی پھر زیارت کرائی تو، میری آنکھوں میں ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے کئی ایسے مناظر گھوم گئے جو، میری عُمر کے اشخاص (خواتین و حضرات کو) کبھی نہیں بھولتے۔ 20 فروری 2014ء کوجنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ ’’ نظریۂ پاکستان کانفرنس‘‘ میں نظریاتی سمر سکول کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید کی کمپوزنگ پر "The Causeway School" کے طلبہ و طالبات نے میرا لِکھا ہُوا مِلّی ترانہ گایا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا تو، جنابِ مجید نظامی نے اُسی وقت مجھے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا ۔ ترانے کے تین شعر یوں ہیں … پیارا پاکستان ہمارا، پیارے پاکستان کی خَیر! پاکستان میں رہنے والے ، ہر مُخلص اِنسان کی خَیر! خوابِ شاعرِ مشرقؒ کو شرمندۂ تعبیر کِیا! روزِ قیامت تک ، کردارِ قائدؒ والا شان کی خَیر! خطّۂ پنجاب سلامت، خَیبر پختون خوا ، آباد! قائم رہے ہمیشہ، میرا سِندھ، بلوچستان کی خَیر!