کیونکہ ہم سب اُلجھ گئے ہیں۔ سوسائٹی تو ہمیشہ سے الجھن کا شکار تھی مگر اب ریاست بھی الجھی ہوئی ہے ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تیرے جیالے اور میرے جانباز چلے آرہے ہیں ۔ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان پر لیکچر دیتے ہوئے جب بات 71 سے 77 اور پھر اس کے بعد پر پہنچی تو میں رُک سا گیا ۔ شاید پھر سب کچھ بدل گیا۔ سوشل میڈیا پر اتنا دھواں ، اتنا غبار اور سب کو اتنا خمار ہے کہ صحیح بات کرنا اور کہنا ذرا اوکھا لگتا ہے ۔ سوال ہی سوال ہیں اور جواب ؟نہ ہاتھ لگام پر ہے نہ پائوں رکاب میں ۔ تازہ ترین بحث یہ ہے کہ حکومت رُک رہی ہے یا جا رہی ہے ۔ پارلیمانی کہ صدارتی نظام ؟ پیش گوئیوں کا سیلاب در سیلاب ہے۔ انفارمیشن اینڈ ڈس انفارمیشن ۔ آدھا سچ وہ بول رہے ہیں اور ادھورا سچ یہ ۔ اسی غبار میں ایک سلجھے ہوئے پنڈت سے سوال کیا ’’کیا حکومت جا رہی ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’مجھے اس بات میں زیادہ دلچسپی ہے کہ کیا پاکستان اس بھنور سے نکل پائے گا یا نہیں؟‘‘ اکنامک پنڈت کہتے ہیں کہ یہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا بحران ہے، ماضی کے سب بحرانوں سے بڑا بحران ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں ڈیفنس بجٹ کا کچھ حصہ بھی دیگر ذرائع سے پورا کرنا پڑرہا ہے ۔ عام پاکستانی اس سے کتنا متاثر ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ ریاست پر اس بحران کے سائے گہرے ہو چکے ہیں ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بحث تو یہ ہونی چاہیے کہ کیا ملک کے پاس کوئی محفوظ راستہ ہے اس بند گلی سے باہر نکلنے کا ؟ مگر یہاں کیا چل رہا ہے؟ ٹی ٹونٹی سیاسی نجومیوں کا۔ اس بات کا کہ عمران کب جا رہاہے اور شریف کب آرہا ہے۔ ایسا ایسا پنڈت اور پھر پجاری بھی کہ بس اللہ کی پناہ ۔ پانامہ کا ہنگام تھا کہ اسلام آباد میں ایک باخبر ڈرائنگ روم میں اسٹیبلیشمنٹ کے ایک ایسے پنڈت سے ملاقات ہو گئی جو بعد میں بہت مشہور ہوا ۔ پوچھا ، شریف کو کیوں نکالا گیا؟ جواب آیا ، ہاتھوں کے تراشے ہوئے بت جب صنم خانے کے صنم بن جائیں تو روایات اور رواجات پر نظر ثانی کرنی پڑتی ہے۔ اب دوبارہ نئی نئی نظر ثانیوں کا موسم ہے ۔ مگر نصف صدی سے زیادہ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم ہر بار کچھ نہ کچھ بھول جاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی غلطی دہرا دیتے ہیں ۔ شاید ترتیب درست نہیں یا نسبت تناسب کے سوال میں کوئی چُوک ہو جاتی ہے۔ 74 برس گزر گئے ۔ چار بار تو مسیحا گھوڑے پر بیٹھ کر مسیحائی کرنے آئے مگر بات بننے کی بجائے اور بھی بگڑ گئی ۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے پنڈتوں سے بات کرو تو ان کی ڈاکٹرائن اور بیانیہ یکسر مختلف ہوتا ہے۔ کس کو مجرم سمجھے کوئی ، کس کو دوش لگائے؟ 58 کو ، 69 کو، 77 کو یا پھر 99 کو ۔ چلئے ایک اور زاویہ بھی ہے ۔ 56 کا ، 62، کا اور 73 کا بھی ۔ اور پھر آج تک کا عجیب و غریب سفر۔ ہم سفر میں ہیں مسلسل سفر ۔ سلسلہ کہیں تھم نہیں رہا ۔ مان لیا کہ زرداری ، شریف اور خان سے پاکستان نہیں سنبھل سکا ۔ کیا غلطی تھی ؟ سبھی نا اہل ، سبھی کرپٹ ، یا بات کچھ اور بھی تھی ؟ سوال یہ ہے کہ غلط کون ہے ؟ سیاسی جماعتیں ؟ عوام؟یا اسٹیبلیشمنٹ ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ملک کبھی ایسی جمہوریت کے لیے بنا ہی نہیں تھا جیسی جمہوریت ابراہام لنکن وغیرہ نے بتائی اور بنائی تھی؟ ہم سب ایک ایسے کلچر کی پیداوار ہیں جس میں صحیح اور غلط ہوتا ہی نہیں ۔ اس میں ہوتا ہے ، تیرا یا میرا۔ اس وقت اپوزیشن کے پاس سینٹ میں عددی اکثریت ہے مگر اسے حکومت سے شکست ہو گئی۔ جب دونوں جانب کے سینیٹرز سے پوچھا گیا تو ایک دل جلے نے جواب کی جگہ یہ شعر سنا ڈالا ۔ انہیں خط میں لکھا کہ دل مضطرب ہے ، جواب ان کا آیا محبت نہ کرتے ۔۔۔۔ تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا ۔۔۔ بہل جاتا دل یوں بہلتے بہلتے ۔ سب جانتے ہیں کہ بات زلف کی نہیں ، بات رُخسار کی ہے۔ سارا نظام گل سڑ چکا ہے ۔ مگر ہم پرانی دادیوں اور نانیوں کی طرح سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ میڈیا ، سوشل میڈیا، سیاست دان اور دانش ور بھی کہتے نہیں مگر شاید سمجھتے ہیں کہ جب تک یہاں قانون سب کے لیے ایک جیسا نہیں ہوگا، اشرافیہ کا قانون اور آئین اور گرے پڑے ذلتوں کے مارے افتادگانِ خاک کے لئے قانون ایک سا نہیں ہوگا ، کونسی جمہوریت ، کیسی پارلیمنٹ اور کہاں کا الیکشن ؟ سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جن میں باپ کے بعد بیٹی اور نانا کے بعد نواسہ گدی سنبھال لیتے ہیں ۔ الیکشن میں ٹکٹ اسے ملتا ہے جو اسے افورڈ کر سکتا ہے یا پھر وفاداری بشرط استواری ۔ اگر میری جماعت کے آقا اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل میں ہیں تو مجھے دنیا بھر کے دلائل اپنے آقا کی ڈیل کے حق میں تراشنے ہوں گے ورنہ جیسا مینڈا اور مینڈی جماعت کا سائیں آکھے ۔ باقی رہے عوام ، بیوروکریسی اور دوسرے Elite، نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے۔ ہم بٹے ہوئے ہیں ، رنگ، نسل، برادری، امیر، غریب، انگریزی میڈیم ، اردو میڈیم اور مدرسہ میڈیم میں۔ جتنے میڈیا اور میڈیم اتنے بیانیے ۔ 95 فیصد کی نمائندگی صرف پانچ فیصد کرتے ہیں۔ وہ بھی بے رنگ ، بے بو او ربے ذائقہ نمائندگی کرتے ہیں۔ ساغر کی طرح یہ تونہیں کہہ سکتا کہ آئو اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں ۔ مگر یہ ضرور تجویز کیا جا سکتا ہے کہ منافقت مسلسل نہیں چل سکتی ۔ بقول منٹو شاید کھول دو ورنہ جو ہے وہ نہیں ہے اور جو نہیں ہے وہی ہے ۔ سوال ہے ملک کی بقاء کا ۔ آپ زیادہ رجائیت پسند ہیں تو ایک اور تجربہ کر لیں ۔ تجربے کے خدوخال اگر وہی ہوئے جو ماضی میں تھے تو نتیجہ بھی وہی ہوگا۔ کیونکہ بات زُلف کی نہیں ، بات رُخسار کی ہے جسے کسی نے چھونا نہیں۔