عمران خان اور سید مراد علی شاہ کے مابین طویل مدت کے بعدشکووں بھری ملاقات سے سندھ اور وفاق کے درمیان خدا خدا کر کے ذرا سی برف پگھلنے کو تھی کہ شاید معاملہ پھر سے بگڑ گیا۔ جب سید مراد علی شاہ وزیراعظم عمران خان کے حضور سندھ کے تحفظات پیش کررہے تھے کہ عین اسی لمحے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو نیب سے پیشی کا بلاوا آگیا۔لگتا ہے سندھ اور وفاق کے درمیان فاصلے قائم رکھنے والی قوتیں ایک بار پھر سے کامیاب ہو گئیں اور جلتی آگ پر پانی چھڑکنے والی قوتیں اس اچانک ہونے والے وار پر انگشت بدنداں رہ گئیں۔ یہ ملاقات عرصے سے ٹل رہی تھی جس کا ذمہ دار سندھ حکومت تحریک انصاف کے کراچی سے تعلق رکھنے والے طاقت ور وفاقی وزراء اور گورنر سندھ کو قرار دیتی تھی جس سے گورنر ہائوس اور وزیراعلیٰ ہائوس کے درمیان فاصلے برھتے ہی چلے جا رہے تھے ۔صدر مملکت داکٹر عارف علوی بھی یہ فاصلے اور اختلافات کم کراتے کراتے تھک ہار کر مایوس ہوگئے ہیں ۔صدر علوی کراچی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کے پراعتماد وفاقی وزرا کے مقابلے پر بے بسی محسوس کررہے ہیں جو ہر حال میں سندھ میں بھی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے اب تک تین وار سہہ چکی ہے۔وفاقی حکومت سندھ میں کوئی بڑی سیاسی کامیابی تو حاصل نہیں کر سکی لیکن ان اختلافات کی وجہ سے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کے درمیان دوریاں ضرور بڑھ گئی تھیں۔ گزشتہ ایک سال میں عمران خان جب بھی سندھ کے دورے پر آئے وزیراعلیٰ سندھ سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔یہی وجہ ہے کچھ عرصہ پہلے سید مراد علی شاہ نے بیان دیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان ان سے ملاقات سے گھبراتے ہیں۔ لیکن مشترکہ مفادات کی کونسل کے حالیہ اجلاس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ان کی یہ غلط فہمی دور کر دی کہ وہ ان سے ملنے سے گریزاں یا گھبراتے ہیں۔ وفاق اور سندھ کی ان نمائندہ شخصیات کے درمیان یہ ملاقات بڑے خوشگوار ماحول میں ہوئی اور وزیراعظم نے وزیر اعلیٰ سندھ کو یقین دہانی کرائی کہ سندھ کے مسائل کاہمدردی سے جائزہ لیا جائے گا اور ان کے حل کے لئے کوششیں بروئے کار لائی جائیں گی لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے جس آسانی سے وزیر اعظم نے یہ بات کر دی ہے۔وزیراعظم سے ملاقات سے قبل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں صوبائی استحکام فنڈ سے ایف بی آر کی غیر آئینی اور غیر مجاز کٹوتی پر احتجاج کیااورسی سی آئی کا مستقل سیکریٹریٹ قائم کرنے اور ایف بی آر کی جانب سے گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں 7 ارب کی کٹوتی،چشمہ جہلم لنک کینال پربجلی گھرقائم کرنے،مردم شماری کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کا معاملہ بھی اٹھایا ۔یوں تو سندھ کے کئی سلگتے مسائل مشترکہ مفادات کونسل میں طویل عرصہ سے التوا کا شکارہیں لیکن سب سے اہم ترین معاملات جن پروزیراعلیٰ سندھ نے اجلاس میںکھل کراپنے موقف کا اعادہ کیا وہ آرٹیکل 158کے حوالے سے صوبے سے تیل اور گیس کی رائلٹی اوراس کی تقسیم کا معاملہ ہے۔حکومت سندھ کا موقف ہے کہ جس صوبے سے تیل اورگیس فراہم ہوتا ہے اس کی فراہمی میں پہلی ترجیح اسی صوبے کوملنی چاہیئے، اسی طرح پانی کی تقسیم کے معاہدے پرعملدرآمد کا معاملہ بھی مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایاجو ایک مدت سے زیرالتوا ہے۔ وفاقی حکومت نے تیل اورگیس کے معاملے پر 2016ء میں سندھ کے ایٹ سورس پیسے کاٹ لئے تھے جو کہ سات ارب روپے کے قریب تھے اور یہ پیسے سندھ کو واپس نہیں کئے گئے۔ اسی طرح جامشورو سے سیہون تک دوطرفہ سڑک کی تعمیربھی التوا کا شکارہوگئی ہے جس کے لئے سندھ حکومت اپنے حصہ کی 50فیصد رقم اڑھائی برس پہلے دے چکی ہے لیکن وفاق نے وعدوں کے باوجودابھی تک اپنے حصے کے فنڈز فراہم نہیں کئے جس کی وجہ سے منصوبے کی تکمیل کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ اسی طرح چشمہ جہلم لنک کنال پر ایک پاور اسٹیشن کی اجازت دینے پربھی سندھ وفاق سے نالاں ہے اوراس مسئلے پر اس کا مقدمے کی مشترکہ مفادات کونسل میں شنوائی نہیں ہوئی۔ اس اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میںوفاق کی طر ف سے پانی کی تقسیم کے 1991 ء کے معاہدے کے تحت سندھ کو پانی کی فراہمی،کراچی شہر کو اضافی 1200 کیوسک پانی کی فراہمی سمیت مالیاتی معاملات پربھی کھل کربات کی۔سیدمراد علی شاہ نے سندھ کوفراہم کیے جانے والے پانی کی پیمائش جہلم کی بجائے تونسہ بیراج کے مقام پرکرنے کی تجویز بھی دی۔سید مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت اورصوبوں پرواضح کیا کہ سندھ کو اس کے مخصوص کوٹے 44.76ملین ایکڑ فٹ کے حساب سے کم پانی مل رہا ہے۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں سندھ کا مقدمہ جائزہے اور اس کے لئے وہ اپناموقف تسلیم نہ ہونے تک سندھ کامقدمہ لڑتے رہیں گے۔ سیاسی مبصرین نے سید مراد علی شاہ کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بہترین نمائندگی پر گزشتہ روز کے اجلاس کا مین آف دی میچ قرار دیا تھالیکن پیپلزپارٹی کی یہ سیاسی کامیابی اس وقت اکارت ہوگئی کہ جب اس کی قیادت کو نیب کی طلبی کا پروانہ موصول ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں کا خیال ہے کہ نیب کی طلبی کے پیچھے وفاقی حکومت کی خواہش کارفرما ہے جو جیالوں کو بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر لیاقت باغ میں سیاسی طاقت کے مظاہرے سے روکنا چاہتی ہے۔لگتا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت پر رہائی کے باوجود پیپلزپارٹی کی مشکلات کم نہیں ہوئیں اور اب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سر پر گرفتاری تلوار لٹک رہی ہے۔ سیاسی حلقوں نے بلاول بھٹو کی گرفتاری کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا اور یہ کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی گرفتاری کے بعد سید مراد علی شاہ کی باری بھی آسکتی ہے جنہوںنے مشترکہ مفادات کی کونسل میں وفاقی حکومت کے خلاف ڈٹ کر سندھ کا موقف پیش کیا جسے سندھ بھر میں سراہا جارہا ہے ،خاص طور پر چشمہ جہلم لنک کینال پربجلی گھرقائم کرنے کے فیصلے سے سندھ میں وفاق کے خلاف مخالفت کی لہر موجود ہے،سید مراد علی شاہ نے اس مسئلے پر دلیری سے بات کی تو ان کے اس کردار کو سندھ میں عوامی سطح پرقدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ اس ماحول میں اگرسید مراد علی شاہ کی بھی ایک بارپھر نیب میں طلبی ہوئی تو سندھ میں پیپلزپارٹی اس تاثر کو ہوا دینے میں کامیاب ہو گی کہ سید مراد علی شاہ کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں سندھ کا مقدمہ لڑنے کی سزا دی جارہی ہے۔