مجھ پہ کیچڑ نہ اچھالے مرے دشمن سے کہو اپنی دستار سنبھالے مرے دشمن سے کہو جیت اس کی ہے اگر ہار بھی جاتا ہے وہ مجھ کو معیار بنا لے مرے دشمن سے کہو آج میرا دل چاہا کہ دشمنی پر لکھوں۔ ایک نہایت دلچسپ پوسٹ ابھی نظر نواز ہوئی کہ فواد چودھری اب اس شادی کے دعوت نامے کی تلاش میں ہیں یا انتظار میں کہ جہاں فیاض چوہان بھی مدعو ہو۔ اس پوسٹ کا پس منظر اور پیش منظر بتانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں کہ فواد چودھری ہاتھ چھٹ واقع ہوئے ہیں اور ان کا نشانہ سمیع اور مبشر لقمان بن چکے ہیں۔ کچھ نے تو فیاض الحسن چوہان کو قرنطینہ کا مشورہ دیا ہے لیکن اکثر کا خیال ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے اور پھر فواد چودھری کوئی احمق نہیں کہ ہر کسی پر ہاتھ اٹھائیں۔وہ فیض چوہان کو اچھی طرح جانتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے ثانی ہیں یا دونوں کا کوئی ثانی نہیں ایک شعر بہرحال ذہن میں ضرور آ رہا ہے: یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو ویسے یہ کوئی لڑائی نہیں ہے کہ یہ سراسر فرینڈلی فائر کی سی صورت حال ہے۔ اب بتائیے کہ وہ کیا کریں کہ کرنے کے لئے کچھ رہ ہی نہیں گیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو تو وہ سب کچھ کہہ چکے۔ویسے بھی اب اپوزیشن سامنے تو ہے ہی نہیں۔ بندہ مخاطب کے بغیر بولتے ہوئے ہونق لگتا ہے دوسری بات یہ کہ فواد چودھری ویسے ہی چپ نہیں رہ سکتے وہ خبروں میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنی جداگانہ شناخت بھی چاہتے ہیں۔ کبھی وہ چاند چڑھانے میں منیب صاحب سے الجھتے ہیں تو کبھی کسی سے۔ ویسے وہ ہر موضوع پر بول سکتے ہیں۔ سائنس کے حوالے سے ان کے ساتھ لوگوں نے وہ وہ لطیفے منسوب کئے کہ توبہ ہی بھلی۔ مگر وہ اپنے طور پر چھیڑ چھاڑ میں بہت خوش ہیں کہ مجھ سے بہتر ہے کہ میرا ذکر ہر محفل میں ہے۔ فیاض چوہان بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ پورے ملک میں ایک ابتری کی سی کیفیت چلی آ رہی ہے کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ ایسی صورت میں سیاسی تنائو حکمرانوں کو سوٹ کرتا ہے کہ لوگ ان کی بے عملی اور ناکامی کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ لوگ مگر سب سمجھتے ہیں وہ بے چارے تھک چکے ہیں ہلکان ہو چکے ہیں جتنی زیادہ توقعات اور امیدیں انہوں نے ان سے وابستہ کی تھیں سب چکنا چور ہو چکی ہیں۔ لوگ ان لوگوں کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور تو اور آپ زرتاج گل ہی کو دیکھ لیں کہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس کی کیسی کٹ لگائی ہے۔ اصل میں یہ لوگ کچھ بھی تو ڈلیور نہیں کر سکے اوپر سے نیچے تک جھوٹ ہی جھوٹ۔ اب فواد چودھری ناکامیوں کی وجوہات پیش کر رہے ہیں تو ہنسی آتی ہے کہ ان باتوں کا کسے معلوم نہیں سوال یہ کہ آپ کیوں استعمال ہوئے۔ درست کہا کہنے والوں نے کہ خاں صاحب کا مقصد تو صرف وزارت عظمیٰ کو حاصل کرنا تھا اور اس کے لئے سب کچھ سرنڈر کر دیا گیا۔وہ پارٹی کے حوالے سے کبھی سنجیدہ نہیں تھے اور لوگوں سے وہ بے نیاز ہیں۔ اپنا مقصد انہوں نے حاصل کر لیا عزت کمانا کوئی مقصد نہیں ہوتا یہ دقانوسی سوچ ہے۔ وہی لوگ جو غیرت مندوں کو غیرت برگیڈکا طعنہ دیتے تھے کہ یہ تو ایک احساس اور سوچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ اردگرد کے حالات دیکھیں تو وحشت ہونے لگتی ہے۔ ایک دم بے برکتی سی نظر آتی ہے۔ برا وقت بھی آتا ہے اور یہ اکیلا بھی نہیں آتا مگر اب کے تو حد ہی ہو گئی ہے۔ ہر چیز دگرگوں ہے جسم ہی نہیں سوچ بھی بیمار بیمار سی لگنے لگی ہے۔ کوئی حوصلہ دینے والا نہیں سب ڈرانے پر لگے ہوتے ہیں سب گھروں میں سہم کر بیٹھے ہیں۔ تعلیم ایسے لگتا ہے کہ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ والدین کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں رکشے کا کرایہ بھی انہیں دینا پڑتا ہے۔ بچے گھروں میں الگ اودھ مچائے ہوئے ہیں۔ کچھ معلوم نہیں کہ سکول کالج کب کھلتے ہیں تنخواہ دارمہنگائی کا مقابلہ کیا کرے گا۔ اس کی تنخواہ تک نہیں بڑھائی گئی۔ ایسے میں کہ جب لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں پی ٹی آئی کے اندرونی جھگڑوں سے کیا لینا دینا۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ اتنا مایوس کسی بھی جماعت میں نہیں کیا تھا جتنا پی ٹی آئی نے کیا۔ لوگ کتنے چائو اور مان سے انہیں لائے تھے۔ اب خود ہی دل پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کیا کیا دیکھ اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا کیا کریں یہ دلوں کا معاملہ ہے تھا سب قصور اپنا ہے۔ دل نے ہمیں دھوکہ دیا آپ یقین کریں کہ یہ دل کہتا تھا کہ خان جھوٹ نہیں بول سکتا یہ چاہے بھی تو بددیانتی نہیں کر سکتا۔ وہ وعدہ نبھائے گا ہائے ہائے اتنا بڑا مغالطہ۔ وہی جو مولانا روم نے کہا تھا کہ جب غرض سامنے آجائے تو پھر دل کے سو پردے آنکھ پر پڑ جاتے ہیں۔ جو دل چاہتا ہے وہی نظر آتا ہے۔ جھوٹ آپ کا اخلاقی جواز ختم کر دیتا ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ آپ کو ڈھیٹ بنا دیتا ہے جب کسی کی شرم ہی نہ رہے تو پھر کوئی جو مرضی کرتا پھرے۔ یہ عام سیاسی رویے کی بات ہے خود غرضی اور ہوس سب امتیاز ختم کرتی ہے: جب توقع ہی اٹھ گئی غالب کیا کسی کا گلہ کرے کوئی ویسے میں محسوس کر رہا ہوں کہ آج کا کالم کچھ اکھڑا اکھڑا سا ہے۔ یقینا ہے کہ اب بتائیے بندہ کیا لکھے اخبار دیکھیں تو وہی باتیں وہی سیاسی جگالی۔کوئی تازہ بات ہو۔ کوئی مقصد کا بیان ہو۔ جانے والوں کی خامیاں اور اداروں کا نوحہ۔ بندہ پوچھے کہ آپ لوگ کس مقصد کے لئے آئے تھے اتنی بربادی تو پچھلی جماعتوں کی کرپشن نے نہیں پھیلائی جتنی آپ کی نااہلی نے برپا کی ہے۔ ویسے آخری بات یہ کہ فواد چودھری برا سہی مگر اس نے انٹرویو دیتے ہوئے باتیں کوئی غلط نہیں کیں اور اس کا ثبوت فیاض الحسن کا ردعمل ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔آپ نظریاتی لوگ لے کر چلے اور وقت آنے پر آپ نے پارٹی سرمایہ داروں کے ہاتھ رہن رکھ دی اور اسٹیبلشمنٹ سے سودا کر دیا لوگوں سے کیا کام لیا جا سکتا یہ بھی فواد چودھری سے زیادہ کون جان سکتا ہے: کم ہونگے اس بساط پہ ہم سے قمار باز جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے