شیخ رشید مزے کے آدمی اور مزیدار سیاست دان ہیں۔ جب بولتے ہیں تو کھل کر بولتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ اپوزیشن میں ہوں تو پروفیسر گوگیا پاشا کی طرح ایسی ایسی پیش گوئیاں کرتے اور وہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ سننے اور دیکھنے والے اش اش کر اٹھتے ہیں۔ خاموش رہنا تو انہیں آتا ہی نہیں اور بہت زیادہ سوچنے سمجھنے کے وہ قائل نہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست ان کے گھر کی لونڈی ہے اور بقول یوسفی وہ سلوک بھی اس کے ساتھ ویسا ہی کرتے ہیں۔ سیاست میں رہ کر انہوں نے وزارتوں کے بھی خوب مزے لوٹے ہیں۔ اتنی بار وزیر رہ چکے ہیں کہ شاید انہیں خود بھی یاد نہ ہو۔ یادداشت ان کی خود اپنے بیانات کے سلسلے میں بہت اچھی نہیں۔ مثلاً جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے اعلان فرمایا تھا کہ جنرل صاحب کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد وہ سیاست سے ریٹائر ہو جائیں گے ممکن ہے یہ بیان انہوں نے جنرل صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دیا ہو۔ کیوں کہ وہ جنرل صاحب کی اس آخری تقریر کے بعد جس میں انہوں نے ’’پاکستان کا خدا حافظ‘‘ (میرے منہ میں خاک کہ یہ فقرہ نقل گیا)کہا اور پھر بیرون ملک سدھارے۔ مگر شیخ صاحب سیاست میں رہے۔ میں ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز بہت ہی کم سنتا ہوں اور سیاست دانوں کے انٹرویوز سے تو کچھ زیادہ ہی بیزار ہوں کیونکہ کم ہی سیاست داں ایسے ہیں جو ڈھنگ سے گفتگو کرتے ہوں۔ لیکن شیخ رشید کے انٹرویو جب بھی کسی چینل میں آئے شوق سے بلکہ نہایت اہتمام سے سنتا ہوں۔ کبھی کبھار تو گھر کے بچوں کو بھی جمع کر لیتا ہوں کہ میاں سنو‘ دیکھو شیخ صاحب کیا کہتے ہیں؟ تو بڑے تو بڑے بچے بھی ان کی گفتگو کا لطف اٹھاتے ہیں۔ رہی بات یہ کہ ان کی گفتگو میں ایسا کیا ہے کہ لوگ باگ ذوق و شوق سے اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک تو شیخ صاحب کو قدرت نے نہایت کراری آوازکی نعمت عطا کی ہے‘ پھر وہ ڈپلومیٹک انداز کبھی نہیں اپناتے۔ جو کچھ کہتے ہیں واضح اور غیر مبہم انداز میں کہتے ہیں۔ احتیاط کا دامن بھی بسا اوقات ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب موضوع گفتگو بلاول بھٹو ہوں۔ ہم سمجھتے تھے کہ شیخ صاحب ایسی مزے مزے کی باتیں حزب اختلاف میں رہنے کی وجہ سے کر پاتے ہیں لیکن وزارت سنبھالنے کے بعد بھی ان کے انٹرویو میں وہی تازگی اور چاشنی رہی جو پہلے تھی۔ مشرف دور میں ریلوے کے وزیر کی حیثیت سے ان کا ایک بیان آج بھی مجھے یاد آتا ہے تو بے اختیار مسکرا اٹھتا ہوں۔ واقعہ یہ تھا کہ کوئی ٹرین حادثے کا شکار ہوئی‘ کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ شیخ صاحب کیا آپ بحیثیت وزیر ریلوے اس حادثے کی ذمہ داری قبول کر کے مستعفی ہونا پسند کریں گے؟ صحافی کے ذہن میں غالباً بھارت کے وزیر ریلوے لال بہادر شاستری کا وہ استعفیٰ رہا ہو گا جو انہوں نے ٹرین کے حادثے کے بعد دے دیا تھا۔ ہمارے شیخ صاحب نے سنجیدگی سے سوال سنا اور پھر چمک کر بولے’’کیا میں کوئی انجن ڈرائیور ہوں کہ استعفیٰ دے دوں؟‘‘غالباً وہ کہنا چاہتے تھے کہ حادثے کا ذمہ دار ڈرائیور ہو تو وزیر ریلوے کیوں استعفیٰ دے۔ افسوس کہ جب انہوں نے یہ بیان دیا تو لال بہادر شاستری کا دیہانت ہو چکا تھا ورنہ وہ بھی داد دیتے اور کف افسوس ملتے کہ یہ نادر نکتہ تو میرے ذہن میں آیا ہی نہیں ورنہ وزارت سے ہاتھ کیوں دھوتا۔ شیخ صاحب اب پھر وزیر ریلوے ہیں لیکن اب کے بحیثیت وزیر وہ بہت سرگرم اور فعال ہیں۔ ابتدائی میٹنگوں ہی میں انہوں نے ریلوے کے اعلیٰ حکام اور افسران کی خوب خبر لی۔ کسی نسبتاً جرأت مند افسر نے دفاع کرنے کی کوشش کی تو شیخ صاحب نے اس کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آپ لوگ مجھے رضیہ بٹ کے ناول نہ سنائیں۔ افسر نے اس پر مزید کچھ کہنا چاہا تو اسے ڈانٹ دیا۔ جواب میں افسر نے بھی وہی کہا جو شیخ صاحب نے اسے کہا تھا یعنی یوشٹ اپ (اس کا آزاد ترجمہ یہی ہو گا کہ چپ ہو جا) اس میں کیا شبہ ہے کہ شیخ صاحب میڈیا کے ہر دلعزیز سیاست داں ہیں اور آج بھی جتنی خبریں ان کی وزارت کی میڈیا میں آتی ہیں کسی اور وزارت کی نہیں آتیں۔ چند روز قبل ان ہی کے حوالے سے چینلوں پہ یہ خبر بھی آئی کہ وزیر اعظم عمران خان وزیر اطلاعات فواد چودھری کے لندن جا کر پکنک منانے پر ناخوش ہیں اور انہوں نے شیخ رشید کو وزارت اطلاعات سنبھالنے کی پیش کش بھی کی۔ ادھر فواد چودھری کو یہ اطلاع ملی تو انہوں نے نہایت فراخ دلی سے اپنی وزارت کو پلیٹ میں رکھ کر شیخ صاحب کو پیش کر دی۔ میڈیا میں یہ خبر پورے زور شور سے اچھلتی رہی کہ شاید شیخ صاحب کی وزارت تبدیل ہو جائے لیکن کابینہ کے حالیہ اجلاس میں جو ملکی تاریخ کا طویل ترین اجلاس تھا اور جس میں تمام وزارتوں کی سو دنوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا‘ صرف تین وزارتوں کی کارکردگی پر تالیاں بجائیں گئیں۔ ان میں ہمارے شیخ صاحب کی وزارت بھی شامل تھی۔ ریلوے کی کارکردگی اچھی ہوئی ہو یا نہ ہوئی لیکن ہم کراچی والوں کو اس کی بہت خوشی ہے کہ شہر میں سرکلر ریلوے بحال کی جا رہی ہے۔ ماضی میں یہ شہر سرکلر ریلوے کا بہت کامیاب تجربہ رکھتا رہا ہے۔ آبادی کا بڑا حصہ سرکلر ریلوے سے مستفیذ بھی ہوتا رہا ہے۔ اب تو اس کی پڑیوں پر تجاوزات اس طرح قائم کی گئی ہیں کہ پٹڑیوں کا نام و نشان نہیں ملتا لیکن شیخ رشید پرعزم ہیں کہ وہ سرکلر ریلوے کو بحال کر کے رہیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ شیخ صاحب نے پہلی بار ریلوے کی وزارت پر سنجیدگی سے توجہ دی ہے اور مختصر سی مدت میں اپنی کارکردگی کے جوہر بھی دکھائے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بقول خود شیخ صاحب وزارت اطلاعات حکومت کی تین اہم ترین وزارتوں میں سے ایک ہے اور اس وزارت کا شیخ صاحب خوب تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اسی حیثیت میں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی ایک کانفرنس میں تشریف بھی لا چکے ہیں۔ میں ان دنوں شعبے کا چیئرمین تھا۔ اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے میں نے ان سے سرگوشی میں بتایا تھا کہ شعبے کی نئی عمارت کی تعمیر کا کام معطل ہے اگر ممکن ہو تو اس کے لئے حکومت کی طرف سے عطیے کا اعلان کر دیں انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی اور اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے پچیس لاکھ کے عطیے کا اعلان فرما دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اعلان‘ اعلان ہی رہا اور وعدے کی تکمیل کی نوبت یوں نہیں آئی کہ حکومت ہی نہیں رہی۔چونکہ شیخ صاحب ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ میں اپنے خلاف جو کچھ چھپتا ہے اسے پڑھتا ہی نہیں ہوں۔ اس لئے ہمیں گمان ہے کہ وہ یہ کالم بھی شاید پڑھنا پسند نہ کریں۔ ہر چند کہ یہ کالم ان پر تنقید و اعتراض کے حوالے سے نہیں‘ ان کی مداحی میں لکھا گیا ہے وہ ان معدودے چند لوگوں میں شامل ہیں جن سے عمران خان مشورے کرتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ شیخ رشید کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر انہیں نہایت صاف گوئی سے مشورے دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ شیخ رشید وزیر ریلوے ہی رہیں گے۔ مواصلات کی سہولت عوام کے لئے ہر اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے اگر شیخ صاحب نے ریلوے کے نظام کو درست کر دیا تو وہ ریلوے ہی نہیں ملکی تاریخ میں بھی زندہ و جاوید ہو جائیں گے۔