وطنِ عزیز میں موسمِ بہار بھی کسی غریب کی جوانی کی مانند آتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا اور گزر جاتا ہے۔ ایک تو موسمِ سرما اور گرما میں گھرے اس موسم کا عرصہ چند ایّام میں محدود ہوتا ہے یعنی صرف چند ہفتے ۔۔ اور دوسرے آج کی مصروف زندگی اور خاص طور پر چند حقیقی اور زیادہ تر خود ساختہ مسائل و تفکّرات کے انبار کی موجودگی میں کسے فُرصت ہے کہ وہ موسمِ بہار کی لطافتوں اور رنگینیوں سے لُطف اندوز ہو سکے۔ بیزار طبعوں کو تو ویسے بھی موسمِ گُل کی اٹھکیلیاں کب راس آتی ہیں۔ وہ اپنی طرف آتی نسیمِ بہار کو کوئی اور راہ دکھا رہے ہوتے ہیں ۔ جمالیاتی ذوق مفقود ہی نہیں ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ انگریزی ادب کا انتہائی معروف اور باکمال رومانی شاعر ورڈز ورتھ نیچر کی خوبصورتی آشکار کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ نیچرکتنی خوبصورت ہے ، یہ انسان کو کیا پیغام دیتی ہے اور یہ کتنی بڑی ٹیچر ہے۔ ورڈز ورتھ کہتا ہے کہ یہ دنیا ہمارے حواس پر چھا گئی ہے ،ہم لوگ ہمہ وقت دنیا کو دیکھنے اور سنوارنے میں لگے رہتے ہیں ۔جبکہ ہم نیچر سے دور ہوتے جاتے ہیں ،ہم نیچر کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ اس کے ساتھ ہم آغوش نہیں ہوتے ۔دراصل ہم نیچر کے بارے میں بہت کم غوروخوض کرتے ہیں جو کہ ہماری اپنی ہے۔۔اور یہ صرف شاعر فطرت ورڈز ورتھ پہ ہی موقوف نہیں ہر بڑے شاعر نے اس طرف ہماری توجہ دلائی ہے۔ حضرتِ غالبؔ کو بھی یہی گلہ رہا ۔۔فرماتے ہیں : فُرصتِ کاروبارِ شوق کسے ذوقِ نظارئہ جمال کہاں بہرحال ! ان دنوں اپنے ہاں موسمِ گُل ، پھر اک بار ، خوب چھَب دکھا رہا ہے۔ بہار کی جوانی و جوبن کے دن ہیں۔ لگتا ہے بہار پر بہار آئی ہوئی ہے۔ جدھر نظر اُٹھائیے سبزہ و ہریالی تازگی کا ساماں مہیّاکرتے نظر آتے ہیں۔ ’ہر ے پات ‘ اور ’ کھِلے پھول ‘ دیکھنے کے لئے ، بقولِ میر ؔ ، چمن کو چلنا بھی اتنا ضروری نہیں ہے کہ بہاراں کے یہ نظّارے آس پاس ہی مل جاتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ واحد موسم ہے جو کسی حد تک انسان کے اپنے اندر کے موسم پر بھی حاوی ہو جاتا ہے۔ اس بہار رُت میں چند دن اپنے گائوں میں گزارنا برسوں سے میری عادت ہے۔ صبح د م اگر باہر نکلیں تو گائوں کے آس پاس کھُلے کھُلے کھِلتے کھیت بے پناہ کشش کا ساماں لئے دعوتِ نظّارہ دے رہے ہوتے ہیں۔ سبزے کا ایک سمندر اور اُس پر مستیاں کرتی ساحر ہوا کی موجیں۔۔ ایسے میں مجھ پر وہی کیفیت طاری ہوتی ہے جو Prelude The میں اُس بچے پہ طاری تھی ۔ نیچر سے ملاقات بے چین کیے دیتی ہے ۔ خوشبئوں سے بھری خمار آور بادِ نسیم مزاج میں عجب کیفیت پیدا کرتی ہے۔ غالبؔ نے ایسی کیفیت میں ہوا خوری کو ہی بادہ نوشی سے تعبیر کیا ہے۔ فرماتے ہیں ـ ـ: ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے باد ہ پیمائی میرا تجربہ ہے کہ ایسی رُت اور ایسے ماحول میں چند گھنٹے گزارنے سے اگلے کئی روز بلکہ کئی ہفتوں کے لئے ذہن اور بدن میں توانائی جمع ہو جاتی ہے۔ طبیعت میں ایسی بشاشت ، ایسی تازگی کسی اور موسم میںنصیب نہیں ہوتی۔ تخلیقی کام سے منسلک لوگوں کے لئے موسمِ گُل اک نعمت بے پایاں ہے۔’’ غائب سے مضامین ‘‘ یوں خیال میں آتے ہیں کہ تانتا سا بندھ جاتا ہے۔ سخن وروں کو تو خیر! فطری حُسن کی ہر شکل ہی متاثر کرتی ہے۔ فیضؔ صاحب سے ایّامِ اسیری کے دوران اُن کے ایک رفیقِ زنداںنے پوچھا، ’’ حضرت! یہ آپ صبح سحری کے وقت اُٹھ کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں۔؟ ‘‘ فیضؔ صاحب خاموش رہے اور اگلے دن سحری کے وقت سوال کرنے والے کو اُٹھایا اور زنداں کے ایک طرف سلاخوں کے پاس لے گئے۔ دور صحرا میں کہیں اونٹوں کا کوئی قافلہ رواں تھا اور اُن کے گلے سے بندھی گھنٹیوں کی مترنّم ، مدھر آواز فیضؔ اور اُن کے ساتھی کی سماعتوں تک آ رہی تھیں۔ فیض ؔ کہنے لگے ، ’’ یہ آواز مجھے سونے نہیں دیتی اور ہر صبح میں اسے سننے اُٹھ جاتا ہوں ‘‘ ۔ فطرت سے باقاعدہ بات چیت ہوسکتی ہے۔ اہل دل اس سے مکالمہ کرتے ہیں ۔اس سے گفتگو کا وہی مزہ آتا ہے جو محبوب سے ہوتا ہے ،،’’ سوال آہستہ آہستہ ، جواب آہست آہستہ ۔‘‘ فطرت کے مناظر ،،پھول ، پتّے اور کلیاں باقاعدہ گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اسے سُنتے صرف وہی ہیں جنہیں سُننے کا دماغ ہو۔ جوشؔ ملیح آبادی ایسی ہی ایک واردات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی جھُک کے میں نے یہ کہا ، ’’ مُجھ سے کُچھ ارشاد کیا ؟‘‘ فطرت اک بہترین اُستاد کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ فطرتی حسن کے ماحول میںتخلیقی صلاحیتیں جِلا پاتی ہیں۔ تخیّل کو بلند پروازی نصیب ہوتی ہے۔شاعرِ فطرت نے کہا تھا کہ موسمِ گُل میں کسی جنگل کا ایک نظارہ آپ کو انسان اور اخلاقیات کے متعلق ایسی تعلیم دے سکتا ہے جو شاید آپ کو دانشوارانِ عالم بھی نہ دے سکیں۔ میرے نزدیک زندگی ، تازگی اور خوشبئوں بھرے ا س رنگا رنگ موسم کے دو پیغامات ہیں ! پہلا یہ کہ اس کے لئے وقت نکالا جائے۔اس موسم کو ساتھ لئے اپنے آپ کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی جائے ۔ یہ امر یقینی ہے کہ اپنے آپ سے ملاقات کے لئے اس سے بہتر موسم کوئی اور نہیں۔اور دوسرا پیغام یہ ہے کہ موسمِ گُل کی خصوصیات اپنے اندر پیدا کی جائیں۔ اگر اس سے منسوب لطافت ، اپنائیت ، خوشبو ، محبت اور دوسروں کو خوش کرنے کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہو جائے تو پھر کسی کو اس موسم کی محتاجی نہیں رہے گی۔ پھر سارا سال بہار رہے گی۔کیوں کہ محبت ایسا جذبہ ہے کہ بہار نہ بھی ہو توخوشبو کم نہیں ہوتی !!