چالیس ہجری کی بات ہے۔ چند خارجی مکہ میں جمع ہوئے۔ اسلام پر اور مسلمانوں پر خاصا کڑا وقت تھا۔ باہمی انتشار خاصا تھا۔ اسی انتشار میں منحرفین کی ایک جماعت رونما ہوئی۔ یہ خارجی تھے۔ ان کے نکتہ نظر اور پس منظر پر بات کرنے کے لیے کالم نہیں مضمون درکار ہے۔ ان ہی خارجیوں نے ایک سازش رچائی۔ طے پایا کہ حضرت علیؓ، امیر معاویہ اور عمرو ابن العاص کو قتل کردیا جائے۔ فرائض اس طرح تقسیم کیے گئے کہ عبدالرحمن ابن ملجم کی ڈیوٹی حضرت علیؓ پر لگی۔ حجاج بن عبداللہ صریمی کا فرض امیرمعاویہ ٹھہرے اور عمرو بن بکر تمیمی عمرو بن عاص کا خون بہائے گا۔ عبدالرحمن ابن ملجم اپنے فرض کی تکمیل کے لیے کوفہ آیا۔ ایک دن ایک خارجی کے گھر پر اس کی ملاقات ’’قطامہ‘‘ نامی ایک عورت سے ہوئی جو خاصی حسین اور جمیل تھی۔ ابن ملجم اسے دیکھتے ہی اپنا دل ہار بیٹھا۔ اس نے قطامہ کو شادی کی درخواست پیش کی تو قطامہ نے اپنا مہر کیا مانگا؟ تین ہزار درہم، ایک غلام اور جناب علیؑ کا قتل۔ جنگ نہروان میں اس کے بھائی اور باپ کی موت حضرت علیؓ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ قطامہ کے اس مطالبے نے ابن ملجم کے ارادے کو اور بھی پختہ کردیا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب پیغمبر اسلام نے رمضان کی فضیلت پر اپنا خطبہ ارشاد فرمایا تو میں نے آپؐ سے پوچھا کہ اس مہینے میں سب سے بہترین کام کیا ہے؟ فرمایا: گناہوں سے دور رہنا۔ اس کے بعد سرکارؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور مجھے بتایا کہ تم اسی مہینے میں شہید کیے جائو گے۔ حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ افطار کے وقت اتنی کم غذا کیوں تناول فرماتے ہیں؟ ’’میں چاہتا ہوں کہ خالی پیٹ خدا سے ملاقات کروں‘‘۔ 19 رمضان کی شب بار بار فرمایا’’خدا کی قسم! میں جھوٹ نہیں بولتا نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ وعدہ کی رات آج کی رات ہے‘‘۔ سحر کے وقت آپ مسجد میں تشریف لائے اور حالت نماز میں جب آپ سجدہ میں گئے تو ملعون ابن ملجم نے آپ کے سر اقدس پر وار کیا۔ تلوار زہر آلود تھی۔ جب آپ پر وار کیا گیا، آپ کی زبان سے جملہ ادا ہوا ’’فزت برب الکعبۃ‘‘۔ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ آپ کو اسی حالت میں گھر لایا گیا۔ اسی زخم سے دو روز بعد آپ شہادت پاگئے۔ وصیت میں فرمایا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ہرگز ترک نہ کرنا ورنہ خدا تم پر بدترین افراد کو مسلط کردے گا۔ وہ تم پر حکومت کریں گے۔ ان سے نجات کی کتنی بھی دعا کرو قبول نہ ہوگی۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کو جنگ میں اس طرح دیکھا کہ آپ کا سر کھلا ہوتا تھا۔ ایک ہاتھ میں عمامہ اور دوسرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تھی۔ آپ عام طور پر گھوڑے کی بجائے خچر پر سوار ہوکر جنگ کرتے تھے۔ لوگ اکثر سوال کرتے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: گھوڑا دوڑانے اور بھاگنے کے لیے ہوتا ہے۔ نہ میں دشمن کے سامنے راہ فرار اختیار کرتا ہوں نہ بھاگے ہوئے دشمن کا تعاقب کرتا ہوں۔ آپ اکثر جنگ کے موقع پر ارشاد فرماتے: ’’واللہ! ابوالحسن موت کا اتنا شائق ہے جتنا ایک بچہ اپنی ماں کے پستانوں کا ہوتا ہے‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ اکثر حضرت علیؓ کے چہرے کی جانب دیکھا کرتے تھے۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ آپ اکثر علیؓ کا چہرہ کیوں دیکھتے ہیں؟ جواب دیا گیا: میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے سنا کہ (حضرت) علیؓ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ ہم خدا سے پناہ مانگتے ہیں ایسی مشکل سے جسے حل کرنے کے لیے ابوالحسن موجود نہ ہوں۔ آپ کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی۔ یہ شرف نہ آپ سے پہلے نہ آپ کے بعد کسی کو میسر آیا۔ آپ کی پہلی غذا پیغمبر آخرالزماں کا لعاب دہن تھا۔ وقت ہجرت سرکارؐ نے اہل مکہ کی امانتوں کا امین آپ کو بنایا۔ شب ہجرت آپ بستر رسول پر سوئے۔ رسول اللہؐ نے خود کو علم کا شہر اور آپ کو اس کا دروازہ کہا۔ آپ کائنات کی سب سے متبرک اور محبوب ہستی کے داماد ہیں۔ ارشاد نبیؐ کی روشنی میں آپ کے چہرے پر نظر کرنا، آپ کا ذکر کرنا، آپ سے محبت کرنا عبادت قرار پایا۔ آپ نے دوش رسولؐ پر چڑھ کر خانہ کعبہ کے بتوں کو مسمار کیا۔ شجاعت، حکمت اور علم آپ میں اوج کمال پر تھیں۔ حدیث ہے کہ علی حق اور حق علی کے ساتھ ہے۔ آپ کی سخاوت بے مثال تھی۔ منبر رسالت پر یہ آپ ہی کہہ سکتے تھے کہ پوچھ لو… پوچھ لو مجھ سے جو پوچھنا ہے۔ اس سے قبل کہ میں تم میں نہ رہوں۔ خدا کی قسم میں آسمانوں کے راز، زمینوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں قرآن والوں کا فیصلہ قرآن سے، زبور روالوں کا زبور سے، انجیل والوں کا انجیل سے اور تورات والوں کا فیصلہ تورات سے کروں گا۔ آپ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ زندگی میں کسی بات پر افسوس؟ فرمایا: جتنا میرے پاس علم تھا، اتنا مجھ سے پوچھا نہیں گیا اور جتنا میں سختی تھا اتنا مجھ سے سوال نہیں کیا گیا۔ آپ کے خطبات اور ارشادات کے دو مجموعے ملتے ہیں۔ نہج البلاغہ اور نہج الاسرار۔ آپ کے کلام کے چند نمونے! استحقاق سے زیادہ تعریف خوشامد ہے۔ عورت کا جہاد یہی ہے کہ وہ شوہر سے اچھی طرح پیش آئے۔ مصیبت کے وقت گھبرانا سب سے بڑی مصیبت ہے۔ ہر شے کی زکوٰۃ ہوتی ہے، عقل کی زکوٰۃ حیا ہے۔ جب تنگ دست ہوجائے صدقے کے ذریعے اللہ سے سودا کرلو۔ جاہل ہر کام میں یا تو حد سے گزر جاتا ہے یا اسے ادھورا چھوڑ دیتا ہے۔ صبر … زمانے کے حوادث کو دور کردیتا ہے۔ سب وحشتوں سے بڑی وحشت غرور و تکبر ہے۔ جس نے اپنی رائے پر بھروسہ کیا وہ ہلاک ہوا۔ سوال نہ کرنا فقر کا زیور ہے۔ دنیائے ولایت میں آپ کا کیا مقام ہے، اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مگر اس وقت قطب دوراں حضرت واصف علی واصف کا ایک شعر کافی ہے ؎ میں خبر کے دام کا دام ہوں میں خرد کدے کا امام ہوں میں علی ولی کا غلام ہوں اسی تاجدار کی بات ہوں میرا نام واصف باصفا میرا پیر سید مرتضیٰ میرا ورد احمد مجتبیٰ میں سدا بہار کی بات ہوں