گزشتہ روز شائع ہونے والے میرے کالم ’’ عمران خان کو چلنے دیں ‘‘ کے جواب میں سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے فون کیا اور تفصیل سے بات کرتے ہوئے اپنے موقف کے بارے میں بتایا کہ دوسرے سلیکٹڈ کے بارے میں میرا اشارہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی طرف نہیں ۔ میں نے ایک جنرل بات کی کہ سسٹم کو چلنے دیا جائے ۔ نہ تو میری شاہ محمود قریشی سے ذاتی دشمنی ہے اور نہ ہی میری عمران خان سے کوئی ہمدردی پیدا ہوئی ہے ۔ ن لیگ چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میاں نواز شریف مقتدر قوتوں سے جھگڑا پیدا کر کے باہر چلے جاتے تھے اور ماریں کھانے کیلئے ہم رہ جاتے تھے ۔ جونہی واپس آتے ، قربانیاں دینے والوں کو دور رکھا جاتا ۔ حالانکہ میں تکبر نہیں کرنا چاہتا لیکن جب میں پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ لیڈر تھا تو یہ سب مجھ سے سیکھنے آتے تھے اور مجھے اپنا قائد مانتے تھے ۔ میں دولت مند نہیں تھا ، میرے پاس جو دولت تھی وہ میری گفتگو ، میرا فن خطابت اور میرا سیاسی ویژن تھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی گفتگو کے دوران بہت باتیں کیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی باتیں سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں ، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟21 ویں صدی میں اس کا تجزیہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں ، میں ان تمام باتوں کو دوہرا دیتا ہوں ۔ اس سے سیاست کے طالب علموں کو رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے ۔ میں نے جو کچھ لکھا ، مخدوم صاحب نے کہا کہ میرے فون کرنے کا مقصد کسی طرح کی کوئی ناراضگی نہیں ہے ، آپ نے میرے خلاف لکھا ، آپ کو اس بات کا حق حاصل ہے ، جنوبی پنجاب کے مسئلے پر آپ کی عقلی اور علمی دلیل سے متاثر ہوا ہوں ، میں مانتا ہوں کہ سرائیکی وسیب خوبصورت نام ہے ، اس کے مقابلے میں جنوبی پنجاب درست نہیں ، آپ نے بلوچستان کے حوالے سے لکھا کہ میں نے سرائیکی مزدوروں کے قتل پر نہ تو قاتلوں کی مذمت کی اور نہ مقتولین کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے مذمت بھی کی اور تعزیت کا اظہار بھی کیا ۔ اس سے میں آگے کی بات بتانا چاہتا ہوں کہ بلوچستان میرا دوسرا گھر ہے ، اسی طرح بلوچستان کے تمام سیاستدان بھی ملتان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں ۔ بہت پرانی بات ہے ،میں نے ینگ پاکستانی تنظیم بنائی تو اس میں شیخ رشید سمیت دوسرے صوبوں کے لوگ بھی تھے مگر سب سے زیادہ بلوچستان کے مگسی ، بگٹی ، جمالی نوجوان اس تنظیم کا حصہ تھے۔1966ء میں ایوب خان نے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کیا تو میں اس وقت ینگ تھا اور میں نے بھرپور مخالفت کی ، اس کے نتیجے میں میر غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل ، خیر بخش مری ، اکبر خان بگٹی ، ظفر اللہ جمالی ، میر آف قلات پرنس محی الدین اور بہت سے دیگر رہنما میرے قریب ہو گئے ، وہ جب ملتان آتے ہیں تو میرے مہمان ہوتے ہیں اور جب میں بلوچستان جاتا ہوں تو میری رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں ۔ آپ سرائیکی مزدوروں کے قتل پر تعزیت نہ کرنے کی بات کرتے ہیں ، جبکہ یہ واقعات ہوئے تو مجھے بہت صدمہ ہوا کہ بات سرائیکی مزدوروں کی نہیں بلکہ انسانیت کی ہے کہ وہ غربت کی وجہ سے بے گناہ مارے گئے ۔ میں نے فون پر بلوچ قیادت سے بات کی ۔ سب کا یہ کہنا تھا کہ ہم ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ غیر ملکی پاکستان دشمن عناصر کرا رہے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ میں صوبے کی بات نہیں کرتا ، میں ن لیگ میں کل بھی اور آج بھی صوبے کی بات کرتا ہوں کہ صوبہ بننے سے وفاق پاکستان مضبوط اور متوازن ہو گا ، میں تحریک انصاف میں گیا تو جہانگیر ترین اور دیگر احباب بھی بیٹھے تھے ،میں نے عمران خان کو کہا کہ ہمیں سرائیکی صوبے کی حمایت کرنا ہوگی ،عمران خان نے کہا کہ میرا باپ سرائیکی ہے ، میرا پورا خاندان سرائیکی ہے مگر مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں سرائیکی نہیں سیکھ سکا۔ آپ نے لکھا ہے کہ عمران خان کو سرائیکی سے زیادہ پشتو سے ہمدردی ہے ، میرا تجربہ یہ ہے کہ اسے کسی سے ہمدردی نہیں ہے اور نہ ہی کسی بات کا علم ہے ۔ شاید اقتدار اس کا خواب تھا جو اسے مل گیا ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ آج روزنامہ 92 نیوز میں میرے خلاف دو کالم شائع ہوئے ہیں ، ایک آپ نے لکھا ہے۔ مخدوم صاحب نے کہا کہ دوسرے کالم نگار نے کالم کے آخر میں پانچ سطریں لکھیں ، میں ان کو دہراتا ہوں ، آپ کو اس سے عمران خان کی سوچ اور ویژن کی پوری کہانی سمجھ آ جائے گی ۔ انہوں نے لکھا کہ ’’اندرونی اختلافات ہر پارٹی میں ہوتے ہیں ، شخصیات کا تصادم بھی ۔ عمران خان ان جھگڑوں کو نمٹا نہ سکے۔ بظاہر دو وجوہات ہیں ، ایک تو یہ کہ ان معاملات میں وہ ایک بے نیاز آدمی ہیں ، ثانیاً پارٹی ان کیلئے پارٹی نہیں بلکہ حصولِ اقتدار کا ایک ذریعہ تھا۔ اس کی تنظیم کے لئے پوری طرح کبھی وہ سنجیدہ نہ ہوئے ۔ ‘‘ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ تاریخ ، جغرافیہ میرے پسندیدہ موضوعات ہیں ، آپ صوبے کے حدود کی بات کرتے ہیں ، سابقہ صوبہ ملتان کی حدود تو رائیونڈ تک جاتی تھیں ، پشاور کی ہندکو، پنڈی کی پوٹھوہاری یہ سب سرائیکی کے قریب ہیں ۔ سندھ ، بلوچستان کی سرائیکی قدیم مقامی زبان ہے ۔ سرائیکی کابل ، قندھار تک چلی جاتی تھی گولڑہ سے ملتان تک چلے آئیں ، دونوں طرف کی زبان سرائیکی ہے ۔ چکوال ، کوہاٹ اور بنوں میں بھی سرائیکی بولی جاتی ہے ۔ میں نے زمانہ طالب علمی میں مولانا مودودی سے رہنمائی حاصل کی لیکن میری سوچ سیکولر رہی ، مولانا بھاشانی نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس کرائی ، میں نے وہاں مزدوروں اور کسانوں کے حق میں تقریر کی ، مولانا بھاشانی مجھے مشرقی پاکستان لے گئے ، یہ ٹھیک ہے کہ آپ مجھ پر تنقید کریں لیکن مجھے فخر ہے کہ میں نے ملتان میں زرعی اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں بنوائیں ، مگر افسوس کہ یونیورسٹیوں کا نام نواز شریف رکھ دیا گیا ۔ مقامی ہیروز کے نام پر کوئی ادارہ نہیں ۔ نشتر بھی سردار عبدالرب نشتر کے نام سے ہے ، چوہدری پرویز الٰہی کارڈیالوجی کا نام نواب مظفر خان شہید کے نام پر ہونا چاہئے کہ ان کے شیش محل پر یہ انسٹیٹیوٹ بنا ہوا ہے ۔ آپ ناراض ہوں یا راضی ، صرف سسٹم کو چلانے کی بنا پر دوبارہ کہتا ہوں کہ ’’ عمران خان کو چلنے دیا جائے‘‘ ، ایک سلیکٹڈ کے بعد دوسرے سلیکٹڈ کو نہ لایا جائے۔