افغانستان کے کوچی، ایران کے بختیاری اور تھر کے کبوترے خانہ بدوشی ترک کرنے پر مجبور

 سرحدوں کی بندش،جنگی حالات اور سبزہ زاروں کے سوکھنے سے، بہار کا تعاقب کرنے والے جپسیوں کے پائوں زمین میں جمنے لگے

بہار کے مسافروں کے راستے روک دیے گئے ہیں،اس لیے اب انھیںخزاں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے

شبیر سومرو

ؓایران کا بختیاری خانہ بدوش قبیلہ، شکار اور دستکاریوں کے ہنر سے زندگی کرتا ہے۔ وہ ہرنوں،پہاڑی بکروں، نیل گائے اور دیگر حلال جانوروں، پرندوں، پھلوںپودوں اور جڑی بوٹیوںکی تلاش میں سارا سال برصغیر اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں سفر کرتا رہتا ہے۔ افغانستان کے کوچی قبائلیوں کو بہار کے مسافر کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ پاک بھارت کے ہندو صحرائی قبیلے نٹ راج کبوترا کی طرح موسم کے مطابق ہجرت کرتے ہیں۔مگر اب عالمی حالات و واقعات کی وجہ سے ان خانہ بدوشوں پر مختلف ملکوں کی سرحدیں بند ہورہی ہیں ۔اس سے نہ صرف ان کی زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کی ثقافت اور رہن سہن بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ قبائل موسمِ بہار کے تعاقب میں ملکوں ملکوںسفر کرتے ہوئے پوری زندگی گذار دیتے تھے مگر اب ان کی حیات میں ٹھہرائو آنے لگا ہے۔ جن کے گھر پہلے بھیڑوں کی اون اور پھٹے پرانے کپڑوں سے بنے خیمے ہوا کرتے تھے، جنھیں وہ کسی بھی چراگاہ، پہاڑی کے دامن یا چٹیل میدان میں ایستادہ کر کے، عارضی بستی بنالیتے تھے، زندگی بھر گھومتے پھرنے والے وہ جپسی، اب گھاس پھونس کے جھونپڑے بناکر انھی میں مستقل رہنے لگے ہیں۔ یوں ہمارے خطے کی عظیم الشان خانہ بدوشی کی روایت بہت تیزی سے مر رہی ہے۔  

ایران کے بختیاری لوگ بہار کے موسم میںاپنے ییلاق کے آبائی علاقے سے خانہ بدوشی شروع کرتے ہیں اور 4 ہزار 5 سو48 میٹر بلند پہاڑی مقام زرد کوہ پہنچ کر سیزن گذارنے کے لیے خیمے لگالیتے ہیں۔جب سردیاں آنے لگتی ہیں اور زرد کوہ برف سے ڈھکنے لگتا ہے تو وہ پھر نیچے میدانوں کا رخ کرنے لگتے ہیں۔ان کے قافلے میں مویشی بھیڑ بکریاں، رکھوالی کے کتے، مرغیاں،شکار کے ذریعے پکڑے ہوئے جانور ، پرندے اور پھلوں، سبزیوں ، جڑی بوٹیوں کا ذخیرہ بھی ساتھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے خوزستان میںاپنے آبائی علاقے قیشلاق پہنچ کر ایک بار پھر خیمے ایستادہ کر لیتے ہیں۔بختیاری عورتیں میدانی علاقے میں پہنچ کر بہت خوش ہوتی ہیں کیوں کہ وہاں ان کی زندگی اتنی سخت نہیں ہوتی ،جتنے پہاڑوں میں انھیں تکلیف دہ دن گذارنے پڑتے ہیں۔میدانی علاقے میں ان کے بیشتر کام خیمے کے اندر یاپھر ان کے آس پاس ہی انجام پاتے ہیں۔ وہ اپنا زیادہ وقت بھیڑوں کی اون اتار کر اس سے مختلف ہینڈی کرافٹس،قالین، کمبل، گرم ٹوپیاں، بنڈیاں، گھوڑے یا گدھے کی پشت پرسامان لادنے والے دو طرفہ تھیلے(Saddle Bags) اور دیگر چیزیں تیارکرنے میں گذارتی ہیں۔ مرد مویشیوں  کی دیکھ بھال، انھیں جنگل لے جاکر چَرانے اورچارے یا گھاس کا انتظام کرتے ہیںاور شکار کرنے بھی نکل جاتے ہیں۔

ایرانی دیومالائی ادب کے مطابق بختیاری قبیلہ شاہنامے کے ہیرو فریدوں سے تعلق رکھتا ہے۔کہتے ہیں کہ سائرسِ اعظم بھی بختیاری قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔رضا شاہ پہلوی نے بختیاری قبیلے کو ایک جگہ بس جانے کے لیے بہت زور دیا اور نہ ماننے پر انھیںکچلنے کے لیے ان پر بہت زیادہ ظلم بھی ڈھائے کیوں کہ اس قبیلے کے علاقے میں تیل کے وسیع ذخائر نکل آئے تھے اور وہ حکومت کو کھدائی کرنے نہیں دیتے تھے۔پہلوی بادشاہ نے اس قبیلے کے اہم سرداروں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا تا کہ ان  کی خودمختاری اور سرکشی ختم کی جاسکے۔ان کے سردارِ فتح محمد رضا خان کو حراست میں لے کر ماردیا گیا۔  اسی سردار کابیٹا شاہ پور بختیار بعد میں پہلوی حکومت میں وزیراعظم بن گیا تھا۔

آج بختیاری لوگ ایران میں خانہ بدوشی کی زندگی گذارنے کے لیے آزاد ہیں۔ دوسرے ملکوں کی سرحدی پابندیوں، چراگاہوں کی قلت اور خطے کے سیاسی حالات کی وجہ سے، اب وہ صرف اپنے ہی علاقوں میں گھوم پھر کر زندگی کرتے ہیں۔

 

کبوترہ قبیلہ جو لڑکیاں ’پٹے‘پر دے جاتا ہے

 

نٹ راج کبوترا قبیلے کی عورتوں یعنی ’کبوتریوں‘ سے میرا پہلا ٹاکرا تھر کے ایک بڑے شہرمیں ہوا تھا، جہاں ایک بار میںکسی دوست کے کاروباری دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ دروازے کے بند شیشوں سے کچھ چہرے آکر چپک گئے۔ یہ بھکاری عورتیں لگتی تھیں مگر اُن میں سے کچھ کے کھنڈر چہرے بتاتے تھے کہ اپنے دورِ جوانی میں یہ ’’عمارتیں‘‘ بہت عظیم رہی ہوں گی!۔

میرے دوست نے پوچھا:

’’سومرو صاحب! ان کو پہچانتے ہیں، یہ کون ہیں؟‘‘۔

میں نے ایک بار پھر ان عورتوں اور لڑکیوں کو غور سے دیکھا مگر کسی کو پہچان نہ سکا۔ ویسے بھی اس شہر میں کسی سے بھی میری رشتے داری نہ تھی!۔میرے چہرے پر الجھن کے تاثرات دیکھ کر ،میرے دوست نے مجھے معنی خیز انداز میں دیکھا اور انکشاف کرنے والے انداز میں بتایا:

’’سائیں !یہ کبوتریاں ہیں‘‘ ۔

میں نے ان خواتین کو دیکھا مگر مجھے کسی کے بھی پر نظر نہ آئے۔

’’سائیں !کبوتریاں کیا ہوتی ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’سائیں! کبوتریاں ان کی قوم ہے۔ نچلی ذات کے ہندو لوگ ہیںیہ اور ان کے ہاں بڑا عجیب رواج ہے کہ یہ اپنی جوان اور خوبصورت لڑکیاں ’مقاطعے‘ پر دے دیتے ہیں۔یہ لڑکیاں ان سے دولتمند مسلمان دس یا بیس سال کے لیے پٹے پر لے جاتے ہیں اور لڑکی کے ماں باپ کو ایڈوانس دینے کے ساتھ انھیں ہر ماہ’کرائے‘ کے طور پر طے شدہ رقم بھی ادا کرتے ہیں جو پانچ سے پچیس ہزار روپے تک ہوسکتی ہے۔

’’مگر سائیں! یہ تو غلامی ہوئی۔ کیا اکیسویں صدی میں بھی کسی انسان کو اس طرح غلام بنایا جاسکتا ہے؟ لڑکی کوئی زمین یا پلاٹ تو نہیں ہے کہ اسے ’لیز ‘پر دے دیا جائے؟‘‘۔

 ’’دیکھ لیں، اس کمیونٹی میں تو یہ رواج بہت پرانے دور سے موجود ہے مگر یہ لوگ ہر کسی کو اس سے متعلق نہیں بتاتے‘‘۔

دفتر کےFrontوالے شیشے سے چہرے چپکائے ہوئے کبوتریاں، بہت اسٹائلش انداز میں خیرات طلب کررہی تھیں۔ میں نے دروازہ کھلوایا تاکہ ان کی آواز سن سکوں:

’’سیٹھ! دے ناں دس روپے۔ اندر بیٹھ کے ہماری باتیں کرتے ہو، خیرات نہیں دیتے۔دو تو ہم آگے جائیں‘‘۔

ہمارے دوست جو کبوتریوں کی حرکات اور عادات سے اچھی طرح واقف تھے، انہوں نے اپنے بٹوے سے دس دس روپے کے چند نوٹ نکال کر لہرائے تو ان عورتوں کی غریب آنکھوں میں لالچ صاف جھلکنے لگا۔

میرے میزبان نے انہیں کہا:

’’میرے یہ مہمان کراچی سے آئے ہیں۔ ان کو اپنی رسم و رواج سے متعلق کچھ بتائو‘‘۔

اس کے بعد وہ عورتیں آپس میں کسی بحث میں لگ گئیں۔ ان کی زبان میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ آخر کار وہ کسی نتیجے پر پہنچیں اور ان میں سے ایک نے پوز (Pose) مار کر مجھ سے کہا:

’’ہاں،بولو! کیا چاہیے تمہیں؟‘‘۔

’’مجھے بتائو کہ کبوتری کیا ہوتی ہے؟‘‘۔

اس سوال پر انہوں نے دوسرے کو دیکھا اور بے دھڑک ہنس پڑیں۔ اس عورت نے زبانی جواب دینے کے بجائے عملی طور پر جواب دیا۔یعنی اس نے ماڈل گرل کی طرح پوز مارا اور انھی کی طرح کیٹ واک کے طور پر ہمارے سامنے دو تین قدم آگے پیچھے کئے اور پھر بے باکی سے میرے سامنے کھڑی ہوکر کہنے لگی:

’’یہ ہوتی ہے کبوتری!۔ ٹھیک ہے اب؟‘‘۔

’’نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ تم اپنی زبان سے بتائو کہ آپ کی قوم کبوتری کیا ہے؟ اور آپ لوگ اپنی لڑکیاں مسلمان زمینداروں کو کیوں دیتے ہو؟‘‘۔

’’تم ہمارے جھونپڑوں میں آئو اور ادھر ہمارے مکھیا سے بات کرو ۔وہ تمہیں سب کچھ بتائے گا کہ اپنی قوم کونسی ہے؟‘‘۔

اس طرح اس کبوتری اور اس کی ساتھی عورتوں سے طے ہوگیا کہ میں اور میرا دوست شام چار بجے ان کے جھونپڑوں میں جائیں گے جو کہ مضافات میں ’کیمپنگ سائیٹ‘ کی طرح بکھری ہوئی تھیں۔ کبوتریوں کی یہ بستی کسی زمیندار کے پلاٹ پر عارضی طورپر قائم تھی، جس میں بیس پچیس گھر تھے۔ اس طرح کی چھوٹی سی دو اور بستیاں ایک ڈیڑھ ایکڑ کے فاصلے پر دوسری زمین پر نظر آرہی تھیں۔

میں نے مکھیا ساون سے پوچھا کہ ان کا قبیلہ کہاں کہاں بکھرا ہوا ہے؟

’’سائیں ! اپڑیں قبیلے والے تو ہند اور سندھ میں ہر جگہ ہونگے۔اُدھر سرحد پار کرو تو راجھستان، جیسلمیر سے آگے تک ہماری برادری بیٹھی ہے۔ اِدھر سندھ میںاَمرکوٹ ،سلام کوٹ،ٹنڈو الہ یار اور دوسرے شہروں میں بھی ہیں۔امرکوٹ میں تو اپڑیں جات برادری کی ایک سئو سے اوپر جھونپڑیاںہیں۔ بچائو بند ، میل موری، کنگورو،جمورو، اکراڑو سبھی کبوتر ے لوگ کے شہر ہیں۔ سو دو سال سے ہم لوگ میرصاحبوں کے’ سِکاری‘ ہیں۔ ماہرے بڑے بڈھے جنگل میں ہانکا کرنے کام کرتے تھے۔ اُس بقت ہماری بی عجت ہوتی تھی۔ ادھرایک  ملک کے دو بن گئے توہم کھُد سِکار بنڑں گئے حالات کے بھائی !جو جدھر تھا، اُدھری رہ گیا۔ ہمارے ہجاروں ’مائٹ‘(عزیز) انڈیا میں رہ گئے۔اب تو ہم بھیک مانگتے ہیں،تو گجارہ ہوتا ہے۔وہ جو موسم بہار میں ہم مسافری پر نکل جاتے تھے، وہ سب بند ہوگیا ہے۔ سرحد صفا بند ہوگئی ہے نا، اس لیے‘‘۔

خانہ بدوش کبوترہ کمیونٹی اپنے دھرم کے معاملے میں بھی کافی آزاد خیال واقع ہوئی ہے۔ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کے نام مسلمانوں والے بھی رکھ لیتے ہیں۔ جیسے مکھیا کی بیوی کا نام روزینہ تھا جبکہ ان کے چھ بچوں میں منیر،عطا، نیاز،آمنی، نمکی اور رضو شامل تھے۔

’’ہاں تو ساون! یہ بتائو، تم لوگوں میں واقعی ایسا کوئی سلسلہ ہے کہ لڑکی اپنی مرضی سے کچھ عرصے کے لیے کسی کے حوالے ہوجاتی ہے؟‘‘۔

 میں نے سنگین نوعیت کے سوال کو ممکنہ حد تک نرم کرکے پیش کیاتو بیزاری سے کہنے لگا:

’’سست لوگ ہیں سائیں! مزدوری کرنے سے ان کو تپ چڑھتا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ پیسے پکڑنے کے لیے چھوریاں دے دیتے تھے مگر یہ رواج اب کم ہوگیاہے‘‘۔

’’ہوتا تو ہے نا؟‘‘۔

’’ہائو سائیں! یہ بہت پہلے سے ہوتاآیا ہے کہ چھوری بڑی ہوتی ہے تو دس بیس سال کے لیے کسی امیر، ساہو کار یا ’بڈیرے‘ کے کہنے پر کام کاج کے لیے، اس کے گھر میں بھیج دیتے ہیں۔ وہ اگر سخی آدمی ہو تو چھوری کے ماں باپ کوپانچ دس سال کی تنکھا(تنخواہ) پہلے سے دے دیتا ہے اور پھر وہ پیسے غریب لوگ دھندے کاروبار میں لگادیتے ہیں۔ اوپر سے ہر مہینے کو تنکھا(تنخواہ) بھی ملتی ہے۔ اس طرح وقت گجارہ ہوجاتا ہے۔ بس سائیں! ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں رُلنے کی آجادی مل جائے تو ہم دیس دیس جاکر اپنا اچھا گجارہ کر لیں گے‘‘۔

ساون نے ٹیِپ کے بند کی طرح اپنی کہانی کو ختم کیااور مزید کچھ بولنے سے انکاری ہوگیا۔

 

افغانستان، ایران اور پاکستان

 میں رُلنے والاکوچی قبیلہ

 

’’میں ہر قیمت پر آزاد زندگی گذارنا چاہتا ہوں۔ اگر آزاد زندگی کے بدلے کوئی مجھے کابل شہر کی گورنری   بھی دے دے تو میں ٹھکرا دوں گا۔ ہم کوچی آزاد لوگ ہیں، ہم بہار کے مسافر ہیں، اگر بہار کے ساتھ ساتھ سفر نہ کریں تو ہماری زندگیوں پر خزاں چھا جائے گی۔ افغانستان اور پاکستان میں کسی کی بھی حکومت ہو، ہمیں کوئی پابند نہیں کرسکا۔ ہماری زندگی بے شک کٹھن ہے، کوئی مستقل گھر، شہر اور علاقہ  ہمارا نہیں ہے لیکن اس کا دوسرا مطلب یہ بھی تو ہے کہ پوری دُنیا ہی ہماری ہے!‘‘۔

کوچی قبیلہ اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ روس کی بمباری، بارودی سرنگوں اور زمینی حملوں نے جہاں ان کے روایتی نقل مکانی والے راستے ختم کردیئے تھے، وہاں طالبان کی حکومت قائم ہونے پر کوچیوں نے سکھ کی سانس لی تھی۔ انہوں نے اپنے قبیلے کی بقا کے لیے مجاہدین کے ساتھ مل کر روسیوں کے خلاف جہاد کیا اور اب وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ بہار کے ساتھ ساتھ سفر کرنے والے کوچی خانہ بدوشوں کے سر وں پراب خزاں چھا رہی ہے۔ جوخانہ بہ دوش کبھی کسی بھی ملک کی سرحدی رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، ان پر خود اپنے ملک کی حدود میں پابندیاں لگ رہی ہیں۔ ان پر بے تحاشا دبائو ہے کہ وہ سبزہ زاروں اور چراگاہوں کی تلاش اور اپنی آوارگیاں ترک کر کے پکے مکان بناکر سیٹل زندگی بسر کریں۔

مگر وہ خانہ بدوش ہی کیا جو شہروں کی چکاچوند سے متاثر ہو جائے! ۔کوچی اپنا لائف اسٹائل بدلنے، خانہ بدوشی کی زندگی ترک کرنے کو قطعی تیار نہیں۔ اس ضد میں وہ مرتے جارہے ہیں مگر مانتے نہیں ہیں۔

خشک سالی،چراگاہوں اور سبزہ زاروں کی کمیابی، مویشیوں کی مسلسل اموات نے کوچیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے مگر وہ پھر بھی سفر کررہے ہیں، بہار کا تعاقب کرتے پھر رہے ہیں۔

ان حالات کوایک اُدھیڑ عمر کوچی شہمیراپنے قبیلے کے عروج وزوال کو مختصراً یوں بیان کررہا ہے:

’’میرے پاس دوسو بھیڑیں اور بکریاں تھیں، درجن بھر اُونٹ تھے اور تیس گدھے تھے … یہ سب جانور قحط سے مر گئے۔ جب ہم موسمِ بہار میں سفر کرتے پھرتے تھے تو ہم ہر نظارے، ہر ندی، ہر چشمے کے متعلق الگ الگ گیت گایا کرتے تھے۔ ہماری لڑکیاں … ہائے! وہ پارہ صفت لڑکیاں تو رقص کا بہانہ ڈھونڈتی تھیں اور ایک ایک دن میں ہم لوگ کئی کئی مرتبہ رقص راگ کی محفلیں سجا لیا کرتے تھے، مگر اب وہ سب ماحول، وہ خوشیاں، وہ خوشحالی خواب وخیال ہو گئی ہے۔ غربت کے باعث ہم جب روٹی کو ترس رہے ہیں تو ایسے میں گانا بجانا کس کو یاد رہتا ہے؟۔ تباہ کن قحط نے جو کسر چھوڑی تھی، وہ جنگ نے پوری کرلی ہے۔ طالبان کے دور میں ہماری زندگی نے کچھ سنبھالا لیا تھا مگر وہ ایسا تھا، جیسے شمع بجھنے سے پہلے بھڑکتی اور پھڑکتی ہے۔ طالبان حکومت میں امن اور سکون تھا۔ ہم اتنے محفوظ تھے کہ جہاں چاہتے تھے، چلے جاتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم بہار کا تعاقب نہیں کررہے بلکہ ہم جہاں پڑائو ڈالتے ہیں، خود بہار وہاں پہنچ جاتی ہے … اب نہ صرف بہار روٹھ گئی، سبز نظارے کہیں اور نکل گئے ہیں بلکہ خزاں کے سائے مسلسل ہمارے سروں پر چھائے رہتے ہیں‘‘۔

آج ہزاروں کوچی لوگ اپنے جانوروں سے محروم ہو کر کھیت میںمزدوری کررہے ہیں، بھیک مانگ رہے ہیں یا پھر پاگلوں کی طرح مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ایک پورا قبیلہ جس میں ایسے لاکھوں مرد، عورتیں، بچے اور بزرگ شامل ہیں، جن کی آزاد روحیں کبھی کسی پابندی کو خاطر میں نہ لاتی تھیں، اب نہ صرف ان کی آوارگی، سیاحت دم توڑ رہی ہے بلکہ بطورِقبیلہ وہ خود معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔

افغانستان میں اس وقت تقریباً 24لاکھ کوچی ہیں، جن میں سے تقریباً 15لاکھ مکمل طور پر خانہ بدوشی کی زندگی گذارتے رہے ہیں جبکہ بقیہ نیم خانہ بدوش یا سیٹل لوگ ہیں۔یہ قبائلی اپنی پوری زندگی سبزے اور پانی کی تلاش میں گذاردیتے ہیں۔ یہ مویشی پالنے والے ہیں۔ خاص طور پر بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑوں کے ریوڑ رکھتے ہیں۔ وہ گوشت، اُون اور ڈیری مصنوعات دے کر شہروں سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرتے ہیں، جن میں اناج، سبزیاں اور میوہ جات شامل ہیں۔

کوچی ’’موسمِ بہار کے مسافر ‘‘کہلاتے ہیں، جہاں جہاں بہار پہنچتی ہے، یہ سفر کر کے، اپنے مویشی، مال اسباب، اُونٹوں پر لاد کر، گدھوں پر بار کر کے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا یہ سفر پہلے وسط ایشیا سے وادی سندھ تک ہوتا تھا مگر گذشتہ صدی میں سوویت یونین نے جب وسط ایشیائی ریاستوں پر قبضہ کرلیا تو کوچیوں کا راستہ رُک گیا اور ان کا ساون کا سفر افغانستان سے لے کر پاکستان تک محدود ہو گیا۔

کوچی خود کو شمالی افغانستان کا اصل مالک بھی قرار دیتے ہیں اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دلیل دیتے ہیں کہ چنگیز خان اور تیمورلنگ کے مظالم سے تنگ آکر وہ جنوب کی جانب ہجرت کر گئے تھے اور اس کے بعد مسلسل خانہ بدوشی کی زندگی گذارتے رہے ہیں۔ انھوں نے طالبان کے دور میں شمالی علاقوں کے سبزہ زاروں پر قبضہ بھی کرلیا تھا۔ انھوں نے اتنی چالاکی اور دلیری کا مظاہرہ کیا کہ شمالی پہاڑی علاقوں میں بودوباش رکھنے والے اصل باشندوں کو پہلے قرضے دے کر اپنا مقروض بنایا، پھر اُدھار واپس نہ ملنے کی پاداش میں ان لوگوں کی سرسبز زمینوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ یوں کچھ کوچی لوگ خانہ بدوش سے زمیندار بن بیٹھے تھے۔

کوچی قبیلے کو اقوام متحدہ کی جانب سے ان نسلوں میں شامل کیا گیا ہے، جن کو معدومی کا خطرہ ہے۔ جیسے جیسے افغانستان کے پناہ گزین دُنیا کے دیگر ملکوں سے واپس اپنے وطن آرہے ہیں، ویسے ویسے ملک میں چراگاہوں، زمینوں، پانی کے ذخائر کی ملکیت پر تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان کوچی قبیلے کو ہورہا ہے کیونکہ اس کے پاس کسی بھی زمین کے ٹکڑے کی ملکیت نہیں ہے۔ اب وہ کسی بھی چراگاہ یا سبزہ زار سے گذرتے ہیں تو ان کے مالکان کوچیوں سے ان کے مویشیوں کی تعداد کے حساب سے گذرگاہ اور چارے، گھاس اور پانی کے استعمال کا معاوضہ لیتے ہیں۔ یہ معاوضہ فی جانورکے حساب سے لیا جاتا ہے۔

یہ عجیب بات ہے کہ بہار کے مسافروں سے بہار میں رہنے کی قیمت لی جارہی ہے!۔

 کوچی قبیلہ دُنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ جیسے سندھی، ہندو خانہ بدوش آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے اپنا دیس چھوڑ کر مستقل خانہ بدوشانہ زندگی بسر کرنے لگے تھے، اسی طرح کوچی قبیلے کے لوگ بھی سبزہ زاروں کے سکڑنے، افغانستان میں جنگ کی تباہ کاریوں اور پاکستان میں عائد ہونے والی پابندیوں سے گھبرا کر دُنیا بھر میں پھیل گئے ہیں۔قحط اور سبزہ زاروں کی تباہی سے کوچیوں کی خانہ بدوشی کا پہلے ہی خاتمہ ہورہاتھا،رہی سہی کسر جنگوں اور سرحدوں کی بندش نے پوری کر دی ہے۔ افغانستان میں 1971ئ، 1972ئ، 1998ء اور 2002ء میں آنے والی خشک سالی نے سبزہ زاروں اور چراگاہوں کو ویران کردیا، جس کے منفی اثرات براہ راست کوچی قبیلے پر پڑے ہیں۔ اس کے بعد 1980ء سے تاحال جنگ وجدل کے ماحول نے بھی کوچیوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔

ملکوں کی سرحدیں پہلے کبھی کوچیوں کے لیے رکاوٹ نہیں بنیں۔ وہ صدیوں سے کوہ الپس سے لے کر پاکستان کے شمالی علاقوں تک ایک لگے بندھے شیڈول سے آتے جاتے رہے ہیں۔ سرحد کسی بھی ملک کی ہو، اسے عبور کرنا کوچی خانہ بدوش اپنا حق بلکہ مقدس فرض جانتے ہیںلیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ بہار کے ان مسافروں کو خزاں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔