معزز قارئین!۔ اقوام متحدہ اور خاص طور پر "South Asia Association for Regional Cooperation" ۔( SAARC) ’’سارک‘‘کے رُکن ممالک پاکستان اور بھارت میں رسمی / غیر رسمی محبت / نفرت کے تعلقات ہیں ۔ جسے انگریزی زبان میں "Love Hate Relationship"کہا جاتا ہے ۔ 17 جولائی کو (پاکستان کے وقت کے مطابق شام کے 6 بجے )’’ عالمی عدالت ِ انصاف ‘‘ نے پاکستان کی قید میں (سزا یافتہ) کُل بُھوشن یادَو ۔بھارتی دہشت گرد / جاسوس کو بری اور رہا کرنے کی بھارت کی درخواستیں مسترد کردی تھیں ۔ عدالت نے فیصلہ کِیا کہ ’’ کُل بُھوشن یادَو ، پاکستان کی تحویل میں رہے گا لیکن، پاکستان ویانا کنونشن کے تحت مجرم کو قونصلر رسائی دے گا اور یہ کہ پاکستانی عدلیہ کو مجرم کی سزا پر نظرِ ثانی کا اختیار ہوگا‘‘۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مطابق اپنے اپنے انداز میں پاکستان اور بھارت نے ’’ عالمی عدالت ِ انصاف‘‘ کے فیصلے کو اپنی اپنی جیت قرار دِیا ہے؟۔ اِس پر مجھے ایک پرانی فلم کا یہ منظر یاد آگیا۔ ایک باغ میں ناچتے گاتے فلمی ہیروئن اپنے ہیرو سے مخاطب کرتے ہُوئے خُوش ہو کر کہہ رہی تھی کہ … دِل لے کے ، تمہی جیتے! دِل دے کے ، ہمی ہارے! بہرحال، فی الحال تو پاکستان میں دہشت گردی کی مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث بھارت کی خفیہ ایجنس ’’را‘‘کا حاضر سروس ایجنٹ بھارتی بحریہ میں کمانڈر ،بھارت کے شناختی کارڈ و پاسپورٹ کے حامل ’’جعلی حسین مبارک پٹیل ‘‘کی جان بچ گئی لیکن ، مجرم کی ماں اور بیوی کی طرف سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ … جان بچی تو لاکھوں پائے، لوٹ کے بُدّھو ،گھر کو آئے! یوں بھی ’’ بُدّھو ‘‘ تو بے وقوف اور کم عقل کو کہا جاتا ہے ؟۔ کُل بُھوشن یادَو تو بہت عیّار اور مکّار شخص ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ کُل بُھوشن یادَو کو بے گناہ قرار دے کر رہا کرنے اور بھارت واپس نہ بھجوانے کا عالمی عدالت ِ انصاف کا فیصلہ قابلِ تحسین ہے اور پاکستان قانون کی روشنی میں آگے بڑھے گا‘‘۔ وزارتِ خارجہ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل سارک ( SAARC) ڈاکٹر محمد فیصل کی طرف سے بیان جاری کِیا گیا ہے کہ ’’ کُل بُھوشن یادَو کو ، قونصلر رسائی دینے کے بارے میں طریق کار طے کِیا جا رہا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ 25 ماچ 2016ء کو ’’ را کا ایجنٹ‘‘ کُل بُھوشن یادَو گرفتار ہُوا تو ، 27 مارچ 2016ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ را‘‘ کا ایجنٹ اور ’’ بھارتی شردھالُو؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ’’ ہندو دیو مالا کے مطابق ’’وِشنو دیوتا‘‘ کے اوتار شری کرشن جی مہاراج کے قبیلہ کا نام ’’یادَو‘‘ تھا۔ اور ہندی زبان میں ’’ کُل‘‘ خاندان کو کہتے ہیں اور ’’بُھوشن‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’سجاوٹ، آرائش اور زیور‘‘ ۔ جعلی حسین مبارک پٹیل "RAW" کے ایجنٹ کی حیثیت سے فی الحال نہ صرف اپنے خاندان کے لئے سجاوٹ، آرائش اور زیور ‘‘ کے بجائے بلکہ پورے بھارت کے لئے بھی بدنامی کا باعث بن گیا ہے ‘‘۔اب مَیں آپ کی خدمت میں "SAARC" کی تاریخ بیان کرنے جا رہا ہُوں۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب ’’ رامائن‘‘ (Ramayan)کے مطابق سری لنکا کے راجا ’’ راون‘‘ وِشنو دیوتا کے اوتار ، ایودھیا کے شہزادہ ’’بھگوان رام‘‘ کی اہلیہ سیتا جی کو اغواء کر کے لنکا لے گیا تھا ۔ جہاں اُس نے سِیتا جی کو سارکؔ پھولوں کے باغ "Ashoka Vatika" میں نظر بند کِیا ، جِسے بعد میں ’’بھگوان رام‘‘ نے چھڑا لِیا تھا۔بھارت میں 268سے 232قبل از مسیح تک حکومت کرنے والے مہاراجا اشوک ۔ (Ashoka the Great) کی سلطنت میں شامل موجودہ بھارت، پاکستان ، بنگلہ دیش ، بھوٹان ، مالدیپ ، نیپال ، سری لنکا اور افغانستان بھی شامل تھے اور ’’بھارت وَرش ‘‘ کے علمبردار ہندوئوں کو داد دینا پڑے گی کہ’’ اُنہوں نے کس چالاکی سے جنوبی ایشیا کے اِن ملکوں کو بھی چکر دے کر ’’ علاقائی تعاون ‘‘ کے نام پر کِس طرح "SAARC" اور "Saarca Ashoka" کو زندہ کردِیا ۔ 8 دسمبر 1985ء کو پاکستان اور جنوبی ایشیا کے ملکوں کا پہلا اجلاس نئی دہلی میں ہُوا تھا۔ ’’ سارک تنظیم‘‘ کے قواعد و ضوابط کے مطابق سارک سربراہی کانفرنس ، وزرائے خارجہ کانفرنس یا کسی اور کانفرنس میں صرف اقتصادی تعاون اور تجارت بڑھانے پر بات ہوسکتی ہے ۔مسئلہ کشمیر یا دوسرے اختلافی مسائل پر نہیں ؟۔ بھارت میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت رہی ہو ، اُس کے حکمرانوں نے ، قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں اسلامیان ہند کے الگ وطن پاکستان کو دِل سے کبھی تسلیم نہیں کِیا؟۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو تھے۔ (مارچ 1967ء سے مارچ 1971ء تک اور پھر مارچ 1971ء سے مارچ1977ء تک )پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیٹی مسز اندرا گاندھی بھارت کی وزیراعظم تھیں جب ، اُنہوں نے مشرقی پاکستان کو ’’بنگلہ دیش ‘‘ بنوا دِیا تھا۔ پاکستان / بھارت ، پسندیدہ ملک؟ معزز قارئین!۔ جون 1991ء سے مئی 1996ء تک نرسیما رائو بھارت کے وزیراعظم تھے۔ نومبر1990 ء سے جولائی1993ء تک میاں نواز شریف نواز شریف اور اکتوبر 1993ء سے نومبر 1996ء تک محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے وزرائے اعظم ۔ اُس دَور میں پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک دوسرے کو’’ پسندیدہ قومیں‘‘۔(Most Favoured Nations)۔ قرار دِیا گیا ۔ یہ محض ایک ڈرامہ تھا۔ اِس لئے کہ ’’ دونوں ملک ایک دوسرے کے رقیب (پنجابی زبان میں شریک) تھے اور ہیں۔ اِس لئے کہ دونوں ملکوں میں سب سے بڑا تنازع مسئلہ کشمیر کا تھا / ہے ۔ 9 ستمبر2008ء کو آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہُوئے تو اُنہوں نے ’’ خود کلامی‘‘ کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کردیں؟‘‘۔ اِس مقصد کے لئے صدر زرداری نے امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کو ’’ کشمیر کمیٹی‘‘ کا چیئرمین مقرر کردِیا۔ اُن کے بعد جون2013ء میں میاں نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو ، اُنہوں نے بھی فضل اُلرحمن صاحب کو اُس عہدے پر فائز رکھا۔ میاں صاحب نے تو، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ’’ بھائی بندی ‘‘ قائم کرلی تھی ؟۔ یاد رہے کہ ،قیام پاکستان کے بعد فضل اُلرحمن صاحب کے والدِ (مرحوم ) مفتی محمود صاحب کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ 18 اگست 2018ء کو جناب عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی ، پھر اُنہوں نے 28 نومبر 2018ء کو پاکستان میں کرتار پور راہداری کا سنگِ بنیاد رکھتے ہُوئے ، بھارت کے ساتھ خیر سگالی کے جذبات کا مظاہرہ کرتے یہ اعلان بھی کردِیا کہ ’’ پاکستان ۔ بھارت کے ساتھ "Franco German Union" کے طرز پر "Pak India Union" بنانے کا خواہشمند ہے ‘‘ ۔ابھی جنابِ وزیراعظم کے اِس نظرئیے کی وضاحت نہیں ہوسکی لیکن، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 16 فروری 2019ء کو پاکستان پر "Pulwama" میں دہشت گردی کا الزام لگا کر پاکستان کو بھارت کی ’’بہت ہی پسندیدہ قوم ‘‘ کا درجہ ختم کردِیا۔انگریزی اخبارات کی سُرخی تھی کہ "Pakistan`s Most-Favoured Nation Status Scrapped" ۔ معزز قارئین!۔ پاکستان میں بھارت کے شردھالو (عقیدت مند) ایک عرصہ سے ’’ بھارت کی امن کی آشادیوی ‘‘ سے محبت کا سنکھ (ناقوس ) بجا رہے ہیں ۔ کبھی ’’ سُر کشیترا‘‘ کے نام پر اور کبھی ’’ کرکٹ کشیترا‘‘ کے نام پر؟ ۔لیکن، پاکستان کے وہ لوگ جومقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مسلسل ظلم و ستم کو یاد رکھتے ہیں ، اُنہیں ’’ امن کی آشا دیوی‘‘ سے کیا لینا دینا؟۔ اِس پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے تقریباً 7 سال پہلے کہا تھا کہ … کرتے ہو کیوں،کھیل تماشا؟ مَیں کیا جانوں ، پرائی بھاشا ؟ مْنہ میں رام ،چھْری ہے بغل میں! دجل فریب ،امن کی آشا ! بہرحال جب تک سیاست کاری اور سفارت کاری کا دَور رہے گا تو ’’بھارت سے ہمارے ، محبت / نفرت کے مِلے جُلّے تعلقات ‘‘ بھی جاری و ساری رہیں گے ۔ رہے نام اللہ کا ؟۔