بھارت میں قانون شہریت (سی اے اے)، آل انڈیا نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کے خلاف جاری احتجاج دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دفعتاً شروع کردہ مہم ہے جو مختلف سوشل گروپوں اور برادریوں کی کاوش ہے جس میں سیاسی تنظیموں اور انفرادی شہریوں نے شمولیت اختیار کرلی ہے۔ بلاشبہ یہ نہایت وسیع تر احتجاج ہے جو ہندوستان میں حالیہ عرصے میں دیکھنے میں آیا اور ان احتجاجوں نے سیاسی طور پر غالب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو متزلزل کردیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی اور وہ تمام جو اس کے اَن چاہے اقدامات کی تائید کرتے ہیں، انھوں نے قیاس کیا تھا کہ صرف مسلمان ہی سی اے اے اور این آر سی کیخلاف احتجاج کریں گے۔ لیکن ہوا یوں کہ احتجاجوں میں اسٹوڈنٹس، تمام مذہبی برادریوں و گروپوں اور اکثر سیاسی پارٹیوں کی ہمہ جہت شرکت ہورہی ہے۔ حتیٰ کہ مرکز میں برسراقتدار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) اور کئی ریاستوں میں بی جے پی حلیفوں جیسے بہار میں جنتا دل (یونائیٹیڈ) یا جے ڈی یو اور پنجاب میں شرومنی اکالی دل یا ایس اے ڈی جو بی جے پی کی دیرینہ حلیف ہیں، وہ بھی سی اے اے۔ این آر سی پر حکومت کے مخالف ہیں۔واضح ہورہا ہے کہ مودی انتشار پسند سی اے اے۔ این آر سی سے اپنی پارٹی کے قدم پیچھے ہٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں ہندو قوم پرست لیڈر اس بارے میں مزید الجھن پیدا کرتے ہوئے اپنی پارٹی کیلئے صورتحال کو قابو میں کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کیلئے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام 130 کروڑ ہندوستانی ہندو ہیں، اس طرح یہ بیان کیا کہ تمام ہندوستانیوں کو شہریوں کے طور پر شامل کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ ہندوستان صرف ہندوؤں کی سرزمین ہونے کا آر ایس ایس کا نظریہ قبول کریں۔ بابا صاحب امبیڈکر نے رائج ہندومت کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں برہمنیت پوری طرح غالب ہے۔ یہ سنگھ۔ بی جے پی اور بقیہ ہندوستانی آبادی کے درمیان اختلاف رائے کا ابتدائی نکتہ ہے۔ امبیڈکر جو سیکولر ہندوستان کے پہلے وزیر قانون رہے اور جنھوں نے ملک کیلئے دستور تحریر کیا، نہ صرف اْن کے معتقدین کا بلکہ عمومی سوال ہے کہ آیا ہندوستان کے عیسائی، مسلمان، سکھ اور بودھ خود کو ’’ہندو‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ سوال وقفے وقفے سے اْبھرتا رہتا ہے۔ آر ایس ایس چالاکی سے توازن قائم کرنے کی چال میں ایک طرف ہندو راشٹرا کیلئے کام کررہی ہے، جس کی اساس ہندو مذہبی کتب اور فلسفہ کا اپنا فہم ہے۔ دوسری طرف انتخابی مجبوریاں بی جے پی کو غیرہندوؤں کو اطمینان دلانے والے بیانات جاری کرنے پر مجبور کررہی ہیں۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز یہ کھیل کھیلتے رہ سکتے ہیں کیونکہ ہندومت کوئی پیغمبر سے جڑا مذہب نہیں ہے۔ اسے مختلف مذہبی روایات کے مجموعہ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جو اس خطے میں رائج رہے ہیں۔ ہندو قوم پرستی کے اگلے نمایاں نظریہ ساز مادھو سداشیو گولوالکر اپنے وقت میں جرمنی کے نازی فلسفہ سے متاثر ہوئے، اور اقلیتوں سے نمٹنے کیلئے اڈالف ہٹلر کے اختیار کردہ طریقوں کو سراہا۔ آر ایس ایس اور اْن کے قائم کردہ اسکولز ہندوؤں کی نام نہاد برتری مسلمانوں اور عیسائیوں کو کمتر جاننے کے احساسات کو فروغ دیتے ہیں۔ بی جے پی۔ آر ایس ایس کی یہی کوشش ہے کہ دنیا میں اسی فہم کو پیش کیا جائے اور یہ کہ ہندوستانی مذہبی تاریخ ملک میں ’سماجی عمومی احساس‘ کا حصہ ہے۔ آر ایس ایس کی شناخت پر مبنی مسائل کو اْجاگر کرنے کی مسلسل کوشش کو اب جہت حاصل ہورہی ہے کیونکہ بی جے پی برسراقتدار ہے۔ بہرحال گزشتہ تین دھائیوں میں ہندوستانی سماج میں مذہبی تفریق بڑھتی رہی ہے، جو ہندوستانی بھائی چارہ کیلئے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نے ہندوستانی سماج کی معاشی اور سماجی ترقی کو تنزلی کا شکار بھی بنایا ہے۔ 1990ء کے عشرے سے آر ایس ایس۔ بی جے پی جب وہ سیاسی اقتدار کے قریب تر پہنچنے لگے، انھوں نے ہندومت کی مذہبی تشریح کو نظرانداز کرنا چاہا اور تمام ہندوستانیوں کو ہندو قرار دینے کی کوشش کی۔ یہ انتخابی چال رہی۔ بی جے پی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر تعلیم مرلی منوہر جوشی نے مسلمانوں کیلئے ’’احمدی نژاد ہندو‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی اور عیسائیوں کو ’’کرسٹی ہندو‘‘ قرار دیا۔ سکھ مت کے تعلق سے آر ایس ایس۔ بی جے پی کا دیرینہ دعویٰ ہے کہ وہ دراصل ہندومت کی شاخ کے طور پر اس کا حصہ ہے۔لہٰذا، بہ یک وقت دو متوازی عمل چلائے جارہے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسے مسائل اٹھائے جائیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کو پریشانی میں ڈال سکیں۔ مثال کے طور پر رام مندر مہم کی شروعات کرتے ہوئے سنگھ پریوار کی اصل توجہ بعض مخصوص مسائل پر رہی جیسے گاآئے کو ہندوؤں کیلئے تقدس کی علامت بنانا، اور اسے غیرہندوؤں کی جانب سے بیف کھانے سے جوڑ دینا۔ پھر سنگھ پریوار نے ’’لوو‘‘ جہاد، گھر واپسی اور پلوامہ۔ بالاکوٹ جیسے واقعات کے ذریعے قوم پرستی کے مسائل اْجاگر کئے۔ دوسری طرف اس نوعیت کی سنگھ قوم پرستی کے سرپرست مسلمانوں اور عیسائیوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ راشٹریہ مسلم منچ اور اسی طرح کی تنظیمیں عیسائیوں کیلئے پہلے ہی کام کر رہی ہیں۔ اس لئے بھاگوت کا بیان کہ آر ایس ایس ’’تمام ہندوستانیوں کو ہندو‘‘ سمجھتا ہے، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ مذہب کسی بھی فرد کے اپنے فہم و ادراک کا معاملہ ہے۔ ایسا کہنا کہ تمام ہندوستانی ہندو ہیں، ’’ہندو اْصولوں‘‘ کو ملک کے تمام لوگوں پر تھوپنے کی کوشش ہے۔ غور کیجئے کہ مہاتما گاندھی نے مذہبی مسئلہ کو کس طرح سمجھا: انھوں نے تمام مذاہب کا ہندوستان سے تعلق قرار دیا۔ یہ غیرمعمولی طور پر اْس سے مختلف تشریح ہے جو کچھ آر ایس ایس باور کراتا ہے۔ آر ایس ایس اب تمام ہندوستانیوں کو ہندو کہتے ہوئے اس بات کیلئے کوشاں ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا جائے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہوں گے دیکھنا یہ ہے۔ مگر یاد رکھئے کہ اس مرحلے پر آر ایس ایس کا بیان زبردست احتجاجوں پر محض ردعمل ہے، جو سی اے اے کیخلاف مذہب، فرقہ، ذات، خطہ یا نسل سے قطع نظر ہندوستانیوں کی قیادت میں جاری ہیں۔ سی اے اے مذہب کی بنیادوں پر متعصبانہ ہے اور عدم مساوات پیدا کرتا ہے۔ مودی اور بھاگوت کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبردست ایجی ٹیشن نے انھیں کم از کم وقتی طور پر ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔