چارصدیوں سے زائدعرصہ بیت چکاہے کہ جب یوپی کے ایک شہرکوالہ آبادکے نام سے موسوم کیا گیا تھا الٰہ آباد کا نام مغل بادشاہ اکبر نے رکھا تھا، یہ شہرمغل سلطنت کی فوج، ثقافت اور انتظامیہ کا مرکز تھا۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یہیں سے حکومتی فیصلے لیے جاتے تھے۔انگریزکے خلاف آزادی کی لڑائی میں الہ آبادکا اہم کردار رہا ہے۔برطانوی نوآبادیاتی نظام کے دوران اور 1947ء میں بھارت کے آزاد ہونے کے بعد بھی اس شہر کا رتبہ برقرار رہا۔ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد شروع کی چند دہائیوں میں الہ آباد شہر ایک بڑے ثقافتی اور سیاسی مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔لیکن اب الہ آباد کا نام بدل کر ’’پریاگراج‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔الہ آبادبھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں واقع ہے اورفی الوقت یوپی یااترپردیش میںہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے اورایک ہندوپجاری آنندسوامی کی حکومت کا کہنا ہے کہ الہ آبادکا نام بدلنے کا مقصد شہر کی تاریخی پہچان کو بحال کرنا ہے۔ان کی دلیل ہے کہ اس شہر کا نام 435 برس قبل مسلم حکمرانوں نے رکھا تھا۔جبکہ الہ آباد یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیرمبھ چترویدی کہتے ہیں کہ اس تاریخی شہرکانام بدل دینامحض سیاسی مفادات کے حصول کے لئے کیاگیا ہے۔ اگلے سال 2019ء میں عام انتخابات ہونے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ شہر کے ہندو ووٹروں کو خوش کر دیا جائے۔ مودی حکومت قائم ہونے اورپھراترپردیش میں بی جے پی کی یوگی ادتیہ ناتھ حکومت بن جانے کے بعدمسلمانوں کے لاحقے کے ساتھ شہروں اوردیگراہم مقامات کے نام بدل دینے کایہ پہلا فیصلہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کو مسنح کرنے کاعمل جاری ہے۔شہروں کے ناموں کی تبدیلی سے قبل سڑکوں کے ناموں کی تبدیلی شروع ہوئی تھی۔چندماہ قبل یوگی حکومت نے برطانوی دور سے مشہور ریلوے سٹیشن’’ مغل سرائے‘‘ کا نام بدل کر دین دیال ’’اپادھیائے‘‘ رکھ دیا۔دہلی میں مشہوراورنگ زیب روڈ کانام تبدیل کرنے کے عمل کو بہت دن نہیں گزرے ۔جبکہ گزشتہ ہفتے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے ’’فیض آباد‘‘کے نام سے مشہور شہر کا نام’’ ایودھیا‘‘ میں تبدیل کر دیا اور اس کے بعد ریاست گجرات میں بی جے پی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ وہ’’ احمدآباد‘‘ کا نام بدل کر’’ کرناوتی‘‘ رکھنا چاہتے ہیں۔اس پس منظرمیں بات کی جائے تویہ بات ٹھیک سمجھ میں آجاتی ہے کہ الہ آباد کا نام بدلنے کے پیچھے بی جے پی کی ہندوقوم پرست سیاست کاعمل دخل کارفرماہے جس کے تحت وہ ان تمام شہروں کے نام بدل رہے ہیں جن کے مسلم نام ہیں یاجن کے نام مسلمانوں سے منسوب ہیں۔ کٹرہندو ذہنیت کی حامل تنظیم بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف تاریخ میں درج غلطیوں کو درست کر رہے ہیں کیوں کہ شہر کا نام مغل بادشاہ اکبر نے پریاگراج سے بدل کر الہ آباد کیا تھا۔ لیکن تاریخ دان اس بات کو مکمل طور پر درست نہیں مانتے ہیں۔ 16 اکتوبر 2017ء کوہندوستان کی حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک سینئرلیڈرسوم سنگیت نے میرٹھ میں ایک ریلی میں اپنی ایک تقریرمیں کہہ ڈالا کہ انڈیا کی تاریخ میں تاج محل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔اس کاکہناتھاکہ تاج محل کی عمارت کو ایک ایسے بادشاہ نے بنوایا ہے جس نے ہندووں کا قتل عام کیا تھااورمغل بادشاہ بابر، اکبر ،شاہجہان اور اورنگزیب کو بھی برا بھلا کہا۔۔یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب چند ہفتے قبل اتر پردیش کی حکومت نے تاج محل کو محکمہ سیاحت کے کتابچے سے ہٹا دیا ہے۔ 1947ء کے بعد ہندوستان میں خالصتاََ ہندو حکمرانوں نے حکومتیں کیں چاہے گانگریس ہویابی جے پی لیکن ستربرس کی تاریخ دیکھ لیں توپتاچلے گاکہ ان ستر برسوں میں ان حکومتوں کے نامہ اعمال میں کوئی نیا ریلوے اسٹیشن کوئی لال قلعہ ،تاج محل ،قطب مینار شامل نہیں ہے اس لیے وہ بھارت کی ساری تہذیبی نشانیوں کوبشمول قدیم ناموں کے مٹا کر ان پر اپنا ’’بھگوا رنگ‘‘ تھوپنے کے لیے بے چین ہیں۔ ان کی اس بے چینی کی شروعات بابری مسجدکی شہادت سے ہوئی تھی جو الہ آبادکے نام کی تبدیلی تک دراز ہے اورمزیددراز ہو رہی ہے اس کی ایک وجہ مسلم تہذیب کو مسلمانوں کی اس ملک کے تئیں خدمات کو اوران کی تعمیرات کو نیست ونابودکرناہے۔پریہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ وہ تہذیب ہے جو م بھارت کی زمین سے اس طرح پیوست ہے کہ ہندو توادیوں کی لاکھ کوششیں بھی اسے نہ اس مٹی سے کھرچ سکتی ہیں اورنہ ہی مٹا سکتی ہیں۔ بہرکیف!2014ء میں دہلی کے تخت پر براجماںمودی اوربھارت کی کئی ریاستوں میں بی جے پی کی قائم شدہ حکومتوں کے کڑے تیوردیکھ کریہ لگ رہاہے کہ الہ آباداورفیض آبادکے بعدلکھنوکابھی نام بدلا جائے گااورناموں کی یہ تبدیلی لکھنوپر ختم نہیں ہوگی مزید آگے بڑھے گی مظفرنگر،آگرہ،احمد آباد اور حیدرآبادوغیرہ وغیرہ تک۔ممکن ہے کہ یہ سلسلہ یہاں تک دراز ہو جائے کہ سڑکوں پر وہ جواکبر، بابر، اورنگ زیب،ہمایوں اورظفروغیرہ کے ناموں کے ساتھ گھومتے ہیں انہیں سرراہ پکڑلیا جائے اورکسی سرکاری محکمے میں لے جاکر ان کے ناموں کو پرتھوی، شیوراج، پرتاپ وغیرہ میں باضابطہ بدل دیا جائے۔ جی ہاں یہ سب آنے والے دنوں میں ممکن ہے۔منظرنامہ انتہائی ہولناک اورپرہول ہے۔ حالانکہ لکھنو،آگرہ ، مظفرنگر، احمدآباد، اورنگ آباد، عثمان آباد ان سب کی ایک تاریخ رہی ہے اوراس تاریخ کوبنانے میں مغلوں کے علاوہ نوابین اودھ، شرقی سلطنت،دہلی سلطنت اور انگریزوں کا بھی بڑ ا حصہ رہاہے۔مراٹھوں کابھی اس میں کردار ہے۔ اگردیکھا جائے توہر آنے والے حکمراں کی یہ کوشش رہی کہ پیش روں کی تہذیب کومٹنے نہ دیا جائے۔ مغلوں نے اس کاسب سے زیادہ خیال رکھا لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں سے مغلوں کو خارج کیا جارہا ہے۔