بھارت میں جہاں اسوقت متنازعہ شہریت قانون کے خلاف جاری احتجاج نے وزیر اعظم مودی اور اسکے حواریوں کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں، وہیں دوسری طرف حکومت نے فوج کے حوالے سے دورس عوامل کے ایک فیصلہ کو عملی جامہ پہنا کر ، ملک میں ایک نئے طاقت کے مرکز کی داغ بیل ڈالی دی ہے۔ جو بھارت کی تاریخ اور اسکے اقدار کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ فوج سے حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے سربراہ جنرل بیپن راوت ، ملک کی دفاعی سروسز کے پہلے کمانڈر انچیف ہونگے۔ 1947ء تک برطانوی دور اقتدار میں غیر منقسم ہندوستان میں دفاعی سروسز کی تینوں شاخوںیعنی فوج، فضائیہ اور بحریہ کا ایک مشترکہ کمانڈر انچیف ہوتا تھا۔ آزادی کے بعد بھارت میں اس عہدے کو ختم کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل کلارڈآچنلیک کو تین مورتی کا عالیشان بنگلہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم کیلئے خالی کرکے، پاس کے کشمیر ہائوس میں شفٹ ہونا پڑا تھا۔جو کشمیر کی طرح ابھی بھی آرمی کے ہی کنٹرول میں ہے۔ حکومت بھارت کے بزنس ضابطوں کے مطابق تینوں سروسز کے الگ الگ کمانڈر ہوتے ہیں۔ ان میں سے سینئر کمانڈر ، چیف آف جوائنٹ اسٹاف کمیٹی کا سربراہ کہلاتا ہے۔ جس کا کام تین کمانڈروں کی میٹنگ کی صدارت کرنا ہوتا ہے۔ باقی کسی بھی حالت میں اسکو دیگر دو کمانڈروں پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے دوراقتدار کی دوسری ٹرم شروع ہوتے ہی دوررس عوامل کے تابڑ توڑ فیصلہ کئے، جن میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کرانا، مسلم پرسنل قانون میں ترمیم اور متنازعہ شہریت قانون پاس کرکے لاگو کروانا ہے۔ اسی طرح ان میں چیف آف ڈیفنس یعنی سی ڈی ایس کا عہدہ قائم کرنا اور اس پر جنرل راوت کی تقرری بھی شامل ہوگئی ہے۔ چین کے ساتھ1962ء کی جنگ میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد دفاعی ماہرین نے مشورہ دیا تھا کہ درست تال میل کیلئے دفاعی سروسز کی تینوں شاخوں کا ایک مشترکہ کمانڈر ہونا چاہئے۔ مگر بھارت کے اسوقت کے وزیرا عظم جواہر لال نہرو نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں سویلین وزیراعظم فیروز خان نون کی معزولی اور پھر پے درپے مارشل لا ء سے وہ خائف تھے ، کہ کہیں یہ وبا بارڈر کراس کرکے بھارتی فوج کو بھی لپیٹ میں نہ لے۔ تقریباً37سال بعد 1999ء میں کرگل جنگ کے بعد دفاعی خامیوں وغیرہ کی نشاندہی کیلئے بنائی گئی کر گل ریوو کمیٹی نے بھی کم و بیش اسی طرح کی سفارش کی۔ بعد میں دفاعی اصلاحات ترتیب دینے کیلئے سابق کابینی سیکرٹری نریش چندرا کی صدارت میں 14رکنی ٹاسک فورس نے بھی بتایا کہ سروسز کے درمیان تال میل کی کمی اورایک مشترکہ کمانڈ کی عدم موجودگی سے کرگل جنگ طوالت کا شکار ہوگئی تھی۔ گو کہ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے سی ڈی ایس کے عہدہ پر رضامندی ظاہر کی تھی، مگر حکومتوں نے اس کی باضابط تقرری کو التوا میں رکھا۔ اسی دوران فضائیہ نے اس پر چند تحفظات ظاہر کئے۔ ایک سابق سیکرٹری دفاع نے راقم کو بتایا کہ جب ایک بار وزیر اعظم کے سامنے اس تجویز پر غور ہو رہا تھا ، تو انہوں نے پاکستان، میانمار، بنگلہ دیش میں فوجی بغاوت کی مثالیں دیکر سوال کیا تم لوگ بھارت کو بھی اسی راستے پر لانا چاہتے ہو؟ بھارت میں سلامتی کے حوالے سے اعلیٰ فیصلہ ساز ادارے کیبنٹ کمیٹی آن سیکورٹی یعنی سی سی ایس میں سروسز اور خفیہ اداروں کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے اور اس مجلس کے فیصلہ ان کی رائے کے تابع ہوتے ہیں، مگر تختہ پلٹنے یا فوجی بغاوت کے خوف سے بھارت کی سویلین حکومتوں نے فوج کو اختیارات دینے سے گریز کیاہے۔ حتیٰ کہ دفاعی ساز و سامان کی خرید و فروخت میں بھی کمانڈر صرف سفارش کرسکتے ہیں ۔ اس پر گفت و شنید اور قیمت کا تعین وغیرہ کرانا سویلین بیور کریسی کے ذمہ ہوتا ہے۔ تاہم کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سی ڈی ایس کی تقرری تو ہوئی ہے ، مگر اس عہدے کے پر کترے گئے ہیں۔ اس پوسٹ پر کسی پانچ ستارہ جنرل کے بجائے چار ستارہ جنرل کو ہی بٹھایا گیا ہے اور اسکی تنخواہ و مراعات بھی تین سروس سربراہان کے برابر ہونگی۔ ایک طرح سے وہ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا مستقل چیئرمین ہوگا۔ مگر دیگر افراد کا کہنا ہے کہ یہ ایک شروعات ہے اور سروسز کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ دیگر پاورز بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ارون پرکاش کے مطابق فوج کا کوئی نمائندہ پہلی بار وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹرز میں منسلک پوزیشن کے بجائے ایک کلیدی عہدے پر فائز ہوگا۔ پرکاش جو خود 14رکنی ٹاسک فورس کے رکن تھے، کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع میں سویلین افسر شاہی کا ہمیشہ غلبہ رہا ہے۔ سروسز کو حکومت سے باہر کا ادارہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے سربراہ ، حکومت کی طرف سے جاری کسی بھی آرڈر پر دستخط نہیں کرسکتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے میر پور سے ہجرت کرچکے اس ریٹائرڈ ایڈمرل کا کہنا ہے کہ اب پہلی بار وزارت دفاع کے روز مرہ کے کام و کاج میں سی ڈی ایس کا عمل و دخل ہوگا، جو فوج اور دیگر سروسز کیلئے اطمینان کا سبب ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس کی زیر قیادت من موہن سنگھ حکومت 2011ء میں ہی سی ڈی ایس کے عہدہ کو منظوری دینے پر آمادہ ہوئی تھی۔ مگر اسی سال آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے ساتھ اختلافات کے نتیجے میں اسکو التوا میں ڈالا گیا۔ جنوری 2012ء میں حکومت اور جنرل سنگھ کے درمیان اختلافات شدید نوعیت تک پہنچ گئے تھے۔ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے جنرل سنگھ سپریم کورٹ میں پہنچ گئے تھے۔ اسی دوران ان کے ایک منظور نظر لیفٹیننٹ جنرل اے، کے، چودھری کو حکومت نے آسام رائفلز کا سربراہ بنانے سے انکار کردیا تھا۔ جنرل سنگھ کا کہنا تھا کہ ان کی میٹرک کی سند پر پیدائش کا جوسال درج ہے اس کے مطابق وہ ایک اور سال تک آرمی چیف کے عہدے پر برقرار رہنے کے اہل ہیں۔ مگر حکومت کا کہنا تھا تین دہائی قبل نیشنل ڈیفنس اکیڈیمی میں درج سال پیدائش پر ہی جنرل سنگھ کو کمیشن ملا تھااور اسی پر وہ فوج میں منزلیں طے کرتے گئے اور میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل بھی اسی سینیارٹی کی بنیاد پر بنائے گئے۔ سپریم کورٹ نے بھی حکومت کی اس دلیل سے اتفاق کیا اور جنرل سنگھ کو بتایا کہ پیدائش کی یہ جنگ انکو میجر جنرل بنتے وقت لڑنی چاہئے تھی۔ اور ان کو ڈیفنس اکیڈیمی میں درج پیدائش کے سال کی رو سے 2012ء میں ریٹائر ہونے کاحکم دیا گیا۔ (جاری ہے)