بہتربرس قبل کشمیر پر بھارتی قبضے کی یاد میں منائے جانے والے یوم سیاہ کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم کو تنازع کے حل کی خاطر مقبوضہ علاقے میں ریفرنڈم کرانے کا چیلنج دیا ہے۔ یوم سیاہ پر جاری ٹوئٹر پیغام میں وزیر اعظم عمران خان نے 27اکتوبر کو سیاہ دن قرار دیا اور کہا کہ اس روز ہندوستان کی فوجیں غاصبانہ قبضے کے لئے کشمیر میں داخل ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی نے الیکشن کے نام پر کشمیریوں کو دھوکہ دیا۔ ساتھ ہی ایک بار پھر ہتھیار اٹھانے کی بات کرنے والوں کو انتباہ کیا کہ ایسا کرنے سے بھارت کو کشمیر کے تنازع میں عالمی حمایت ملنے کا خدشہ ہے۔ تنازع کشمیر کثیر الجہتی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تنازع حل ہوتا ہے تو پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات خوشگوار ہمسائیگی میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے مواقع انہیں دور دراز کی منڈیوں سے بے نیاز کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کا تنازع اسی تنازع کشمیر کے بطن سے پھوٹ رہا ہے۔ جھگڑا ختم ہوا تو پانی کے معاملے پر بھی شکایات دور ہو سکتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت اپنے اپنے بجٹ کا خطیر حصہ اسلحہ کی خرید پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ اسلحہ وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے لئے خریدتے ہیں۔ بھارت میں آج بھی 60کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں غریب افراد کی آبادی 6کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان کی غذا‘ رہائش‘ علاج معالجے اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جو رقم درکار ہے وہ جنگی تیاریوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔ پاکستان مسلح تنازعات کا فریق رہا ہے۔ افغانستان کی صورت حال اس کے تجربے اور مشاہدے میں شامل ہو چکی ہے۔ سوویت یونین نے اپنی حامی کمیونسٹ حکومت کی مدد کے لئے افغانستان میں افواج بھیجیں۔ سوویت افواج کی افغانستان میں آمد ایک بڑی تزویراتی غلطی تھی۔ ساری دنیا سوویت یونین کے خلاف جمع ہو گئی۔ کسی ملک نے جمہوریت کی بحالی‘ کسی نے کمیونزم کے خلاف‘ کسی نے علاقائی حساب کتاب برابر کرنے اور کسی نے امن کے نام پر افغانوں کو درست قرار دیا اور ان کا ساتھ دیا۔ سوویت یونین اس دلدل میں آ گیا لیکن یہاں سے نکلنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ آخر سپر پاور سوویت یونین اس جنگ کے زخموں سے نڈھال ہوا اور پھر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ پاکستان اس سارے عمل میں سرگرم کردار کا حامل رہا لہٰذا اسے معلوم ہے کہ جدید دنیا بھلے سرمایہ دارانہ طاقت رکھنے والے بڑے ممالک کے غیر قانونی اقدامات پر بے بس بنی رہے مگر جونہی کسی کمزور یا مسلمان ملک نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی اسے سلامتی کے خطرات میں الجھا دیا جائے گا۔ یہی نہیں افغان تنازع کا وہ حصہ جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے قبضے سے جڑا ہوا ہے پاکستان کی قومی یادداشت میں اس کا تجزیہ بھی محفوظ ہے۔ اس لئے جب وزیر اعظم ایل او سی پار نہ کرنے اور کشمیریوں سے حمایت رکھنے والے دوسرے لوگوں کو ہتھیار نہ اٹھانے کا مشورہ دیتے ہیں تو دراصل وہ اس قومی یادداشت سے اخذ نتائج کو پیش نظر رکھ کر بات کر رہے ہیں۔ ان کی بار بار کی اپیل کو اس لئے بھی اہمیت ملنی چاہیے کہ پاکستان کے اردگرد بین الاقوامی سازشوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ بھارت اور اس کے حامی پہلے ہی آزاد کشمیر میں حالات خراب کر کے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا موقف کمزور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کسی بین الاقوامی تنازع کا سب سے اطمینان بخش حل وہی ہوتا ہے جو پرامن طریقے سے طے پا جائے۔ جن جھگڑوں کو جنگ اور لڑائی سے نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ مزید جھگڑوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کشمیر کی حیثیت متنازع ہے۔ دنیا میں تنازعات کو پرامن انداز میں طے کرنے میں سب سے مددگار ادارہ اقوام متحدہ تسلیم کر چکا ہے کہ بھارت نے غیر قانونی طور پر اور کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف اس علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس تنازع کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ کشمیریوں نے اپنے طور پر مزاحمت کو گوریلہ لڑائی اور سیاسی مکالمے کی شکل میں بیدار رکھا ہوا ہے۔ پاکستان اس تنازع کا فریق ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان چار جنگوں کا ہونا اور تنازع کشمیر کا پھر بھی حل طلب رہنا یاد دلاتا ہے کہ تنازع کے فریق اپنی کوششوں کے لئے ان طریقوں کو آزمائیں جنہیں بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے تسلیم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ ستر برس قبل اپنی قرار داد کے ذریعے کہہ چکا ہے کہ کشمیر کے باشندوں سے پوچھا جائے کہ وہ اس تنازع کا حل کس طرح چاہتے ہیں۔ بھارتی حکومت 1947ء سے لے کر اگست 2019ء مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے دستخط والی دستاویز کو الحاق کی دستاویز کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ پاکستان نے اس دستاویز کو تسلیم کیا نہ کشمیریوں نے اسے قبولیت کا درجہ دیا۔5اگست 2019ء کو بی جے پی حکومت نے الحاق کی اس نام نہاد دستاویز کو بھی ردی بنا دیا۔ کشمیر کی آئینی حیثیت یکطرفہ طور پر تبدیل کر دی اور 90دن ہونے کو آئے کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ دنیا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر جو بیت رہی ہے اس سے واقف نہیں۔ انہوں نے کشمیر میں ریفرنڈم کی بات کر کے اقوام متحدہ کی اس بھولی بسری قرار داد کو یاد کرانے کی کوشش کی ہے۔